لیلۃ القدر :وہ مبارک رات ہے، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-05-2021
شب قدر
شب قدر

 

 

اللہ تعالیٰ نے ہمیں انعام کے طور پر ایک ایسی رات عطا فرمائی ہے، جسے’’لیلۃ القدر‘‘ کہتے ہیں۔’’ لیلۃ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی رات کے ہیں، جب کہ عربی میں’’ قدر‘‘ کے معنی عزّت و احترام، عظمت یا بزرگی کے ہیں۔امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’ قدر کے معنی مرتبے کے ہیں، چوں کہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبے کے لحاظ سے بلند ہے، اِس لیے اِسے ’’لیلۃ القدر‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘ یوں تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ آخرت کی کمائی کا ہے، تاہم اِس مہینے کا آخری عشرہ اور اُس میں شبِ قدر ایک خاص عظمت اور اہمیت کے حامل ہیں۔لیلۃ القدر وہ مبارک رات ہے، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے،یعنی اِس رات کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینے کی عبادت سے بھی زیادہ ہے۔

شب قدر کیا ہے؟

لیلۃ القدر یا شب قدر در حقیقت اس رات کا نام ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے آئندہ سال کی شب قدر تک کے تمام مقدرات اور مخلوق کے حق میں ہونے والے رزق، موت وحیات کے متعلق جمیع فیصلے فرشتوں کے سپرد کر دئیے جاتے ہیں۔ اسی بنا پر اس رات کو لیلۃ الحکم اور لیلۃ القدیر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تقدیر خلائق کا فیصلہ ہی اس شب میں کیا جاتا ہے بلکہ وہت قدیرات اور فیصلے جو ازل میں اللہ تعالیٰ مخلوق کے بارے میں صادر فرماچکے ہیں اور جو لوح محفوظ میں پہلے سے لکھے ہوئے ہیں۔ اس شب میں ان کی نقل ملائکہ کے حوالے کر دی جاتی ہے تاکہ وہ اس کو نافذ کریں۔ چنانچہ علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں ۔ مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ات امور کو ان ملائکہ کے سامنے ظاہر کر دیا جاتا ہے جو وجود میں آنے والے واقعات پر مقرر کئے گئے ہیں ورنہ ان اشیاء کو اللہ تعالیٰ کا مقدر فرمانا تو ازلی ہے جو آسمان و زمین کی پیدائش سے قبل ہو چکا ہے۔ روح المعانی۔

حضرت ابن عباس ّفرماتے ہیں’’لو ح محفوظ سے (اس شب میں) رزق ، باری، موت، زندگی یہاں تک کہ حاجیوں کی تعداد نقل کر کے ملائکہ کو دے دی جاتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قضاء و قدر تو شعبان کی پندرھویں شب کو ہوتی ہے لیکن متعلقہ فرشتوں کی ذمہ داری لیلۃ القدر میں سپرد کی جاتی ہے ۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں ’’بے شک اللہ تعالیٰ معاملات کا تصفیہ شعبان کی پندرھویں شب میں کر دیتے ہیں اوران کے ذمہ داروں کو شب قدر میں سپرد کرتے ہیں۔ علامہ آلوسیؒ نے بعض اہل علم کا قول نقل کیا ہے کہ دراصل یہ تین علیحدہ علیحدہ امور ہیں۔ پہلا کام تقدیر اشیاء کا ہے کہ کونسی چیز کب اور کس حال و کیفیت میں وجود آئے گی یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق سموت و الارض سے پہلے ازل میں ہی فرما دیا ہے۔ دوسرا کام ان تقدیرات کو لوح محفوظ میں لکھ کر ملائکہ کے سامنے ظاہر کرنے کا ہے یہ کام شعبان کی پندرھویں شب میں کیا جاتا ہے اور تیسرا کام متعلقہ فرشتوں کو ان کو ذمہ ذاریاں سونپے جانے کا ہے اس کی تکمیل لیلۃ القدر میں ہوتی ہے۔ روح المعانی۔

ملائکہ مدبرات

حضرت مجاہد ؓ فرماتے ہیں کہ جن ملائکہ مدبرات کو اس شب میں تنفیذ احکام کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے وہ چار ہیں ۔ان میں حضرت جبرائیلؑ، حضرت میکائیلؑ، حضرت اسرافیلؑ، حضرت عزرائیلؑ شامل ہیں ،باقی ان کے اعوان و انصار ہوتے ہیں۔ شب قدر کہلائے جانے کی وجہ اما م زہری ؒ فرماتے ہیں کہ اس شب کو شب قدر اس لئے کہتے ہیں کہ یہ عظیم قدر و منزلت والی شب ہے۔ شیخ ابوبکر وراقؒ فرماتے ہیں کہ اس شب میں عبادت و ذکر کی وجہ سے بے عزت و بے قدر لوگ بھی قدر و منزلت حاصل کر لیتے ہیں اس لئے اس کو شب قدر کہا جاتا ہے۔حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں کہ چونکہ اس شب میں قرآن کریم کا نزول ہوا جو دینی و دنیوی سعادات وبرکات کا ذریعہ و سرچشمہ ہے اور اس شب میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نزول رحمت، نزول ملائکہ اور اجابت دعا ہوتی ہے اس لئے اس کا نام لیلۃ مبارکہ بھی رکھا گیا ہے۔ جیسا کو سورئہ دخان میں فرمایا گیا’’بے شک ہم نے قرآن کو مبارک رات میں اتارا۔ بعض حضرات نے اس آیت کو لیلۃ مبارکہ سے مراد شعبان کی پندرھویں شب لی ہے مگر یہ قول مرجوح ہے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک لیلۃ مبارکۃ اور لیلۃ القدر ایک ہی شب کے دو نام ہیں جو رمضان میں پائی جاتی ہے۔چنانچہ قاضی ثناء اللہ صاحبؒ پانی پتی فرماتے ہیں۔ اور یہ قول کہ لیلۃ مبارکۃ شعبان کی پندرھویں رات ہے غیر معتبر ہے۔ تفسیر مظہری۔

 شب قدر اس امت کا خاصہ ہے

 لیلۃ القدر اسی امت کا خاصہ ہے یا اس سے پہلی امتوں کو بھی یہ نعمت عطا کی گئی تھی۔ درمنثور میں حضرت انس ؓ سے حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ’’شب قدر اللہ تعالیٰ نے میری امت کو عطا فرمائی، پہلی امتوں کویہ نہیں دی گئی‘‘۔ (فضائل قرآن صفحہ58)۔ حافظ ابن کثیرنے اپنی تفسیر میں خطابی سے اس پر اجماع کا قول نقل کیا ہے۔ تفسیر ابن کثیر

 شب قدر عطا کئے جانے کاسبب

 اس امت کوشب قدر کا یہ بیش بہا انعام عطا کئے جانے کا سبب کیا ہوا؟ روایات سے اس کی مختلف وجوہ معلوم ہوتی ہے۔ مؤطا امام مالکؒ میں روایت ہے کہ حضورﷺ کو پہلی امتوں کی عمروں کا علم ہوا کہ بہت لمبی ہوئیں اور ان کے مقابلہ میں میری امت کی عمریں بہت کم ہیں جس کی بناء پر میری امت کے لوگ پہلی امت کے ساتھ اعمال میں مساوی نہیں ہوسکتے، اس بات سے حضورﷺ کو صدمہ ہوا تو حق تعالیٰ نے آپ کو شب قدر عطا فرمائی کہ اس ایک شب کی عبادت اور احیاء ہزارماہ کی عبادت سے بہتر ہے۔بحوالہ تفسیر قرطبی

 حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے صحابہ کرامؓ کے سامنے بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مسلسل ایک ہزار ماہ تک ہتھیار بند رہا اور جہاد کرتا رہا۔ صحابہؓ کو یہ سن کر اس شخص پر بڑا رشک آیا۔ حق تعالیٰ نے اس کے عوض ان حضرات کوشب قدر عطا فرمائی اور سورۃ قدر نازل فرمائی۔ بحوالہ تفسیر قرطبی شب قدر میں کیا کریں- شب قدر حق جل شانہ کی طرف سے ایک عظیم الشان ہے اور اس کی قدر دانی علامت ایمان اور سعادت کی نشانی ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو شب قدر پائیں اور عبادت و تلاوت اور ذکر و استغفار سے اس کا حق ادا کریں

 صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت منقول ہے۔

حضور ﷺنے فرمایا کہ جو شخص شب قدر میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔اس روایت میں کھڑا ہونے سے مراد صرف نماز کا قیام ہی نہیں بلکہ خواہ نماز پڑھے یا تلاوت کرے یا ذکر و استغفار اور تسبیح و تہلیل میں مشغول رہے تمام عبادات اس میں داخل ہیں۔

اور ثواب کی نیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی یہ عبادت محض اخلاص اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور حصول اجر و ثواب کے لئے ہو۔ ریاء اور نمائش مقصود نہ ہو۔ علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو اس شب میں مختلف اور متنوع عبادات کرے مثلاً نوافل ، تلاوت قرآن کریم، ذکر و تسبیح اور دعا و استغفار سب ہی کا کچھ نہ کچھ حصہ ادا کرے۔ روح المعانی۔ سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ شب قدر میں دعا و استغفار کرنا نوافل پڑھنے کے مقابلہ میں افضل ہے اور اگر کوئی شخص تلاوت قرآن اور دعا و استغفار دونوں کو جمع کرے تو یہ اور بھی بہتر ہے۔جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا وہ سارے خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے، جو واقعتاً محروم ہو‘‘(سنن ابن ماجہ)۔حضرت انسؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ شبِ قدر کو جبرائیلِ امین علیہ السّلام فرشتوں کے جُھرمٹ میں زمین پر اُترتے ہیں اور ہر شخص کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے، بیٹھے(یعنی بھی کسی حال میں) اللہ کو یاد کر رہا ہو‘‘(شعب الایمان)۔لہٰذا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیلۃ القدر عطا فرما دی گئی، جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔‘‘ایک حدیثِ مبارکہؐ میں ہے کہ ’’جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیّت سے عبادت کے لیے کھڑا رہا، اُس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے‘‘(بخاری و مسلم)۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کی آمد پر فرمایا’’یہ جو ماہ تم پر آیا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے، جو ہزار ماہ سے افضل ہے۔

شب قدر کی دُعا

 حضرت عائشہؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ’’ یارسول اللہ ﷺ! اگر مجھے شبِ قدر کا پتا چل جائے، تو کیا دُعا مانگوں؟‘‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: پڑھو’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ، فَاعْفُ عَنِّی‘‘ یعنی’’ اے اللہ! بے شک تُو معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، پس مجھے بھی معاف فرما دے۔‘‘(مسند احمد، ابنِ ماجہ، ترمذی)۔

شب قدر کی علامات

 حدیث میں حضورﷺ نے شب قدر کی علامت اور نشانی یہ بیان فرمائی

 اس رات کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ کھلی ہوئی چمکدار رات ہوتی ہے ۔ صاف و شفاف نہ زیادہ گرم اور نہ زیادہ ٹھنڈی بلکہ معتدل گو میں (کثرت انوار کی بناء پر )چاند کھلا ہوا ہے۔ اور اسکی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعد کی صبح کو آفتاب بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے بالکل ایسا ٹکیہ کے مانند جیسا کہ چودھویں کا چاند۔ اللہ تعالیٰ نے اس دن کے آفتا ب کے طلوع کے وقت شیطان کو اس کے ساتھ نکلنے سے منع فرما دیا۔ امام قرطبیؒ نے عبید بن عمیر کا قول نقل کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ستائیسویں شب میں سمندری سفر پر تھا میں نے اس شب سمندر کا پانی چکھا تو نہایت شیریں اور خوش ذائقہ تھا۔ تفسیر قرطبی۔

 یہ اور اس قسم کی بہت سی علامات ہیں جو اس شب میں پائی جاتی ہیں۔ کسی کو ان کاادراک و احساس ہو جاتا ہے اور کسی کو نہیں۔ مشائخ رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ شب قدر میںہر شے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرتی ہے حتیٰ کہ درخت زمین پر گر جاتے ہیں اور پھر اپنی جگہ سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں، مگر اس قسم کی چیزیں امور کشفیہ سے ہیں جو ہرشخص کو محسوس نہیں ہوتے۔ بہر صورت شب قدر اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی عظیم نعمت ہے کہ اس کا پالینا اور اس میں ذکر و عبادت میں مشغول رہنا سعادت عظمی اور فلاح دارین کا سبب ہے جو خوش قسمت اس شب کو پائے اسے چاہئے کہ وہ اس شب میں اس دعا کا زیادہ ورد کرے جو حضورﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو تلقین فرمائی جس کا ذکر آچکا ہے۔ وہ یہ ہے ۔اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ۔

 اے اللہ آپ یقینا معاف کرنے والے ہیں، معافی کو پسند فرماتے ہیں، مجھے معاف فرما دیجئے۔