ڈاکٹرعبید الرحمن
استاد دار العلوم ندوة العلمائ،لکھنو
اکیسویں صدی کی دودہائی گزر چکی ہے۔ یہ صدی سائنس اور ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ اعصاب پر حکمرانی کی صدی کہلائے گی۔ اس میں تمدن نے ایک نیا باب اختیار کرلیاہے۔ زندگی کے نئے نئے اقدار پرانے اقدار کو پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ معاشرہ نام نہاد تجدد کے تئیں نامناسب موڑ لے رہاہے اور اپنے ساتھ مسائل کی ایک فوج لے کرآرہاہے۔ بہرحال، علم انسانی زندگی میںہمیشہ ہی ایک رہنما محرک رہاہے۔
اس نے ماضی میں اہم کرداراداکیاہے اور یقینی طور پر حال میں بھی یہ چراغ راہ ثابت ہوگا۔ وقت کی یہ ضرورت ہے کہ ہم اچھا اورکارآمدعلم حاصل کریں اوراس پر پوری طرح عمل پیرا ہوجائیں۔اسلام کا جو رشتہ علم سے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ آخری نبی محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جو معجزہ عطا کیا ہے اس کا نام قرآن کریم ہے۔ اور خداتعالیٰ نے قرآن کریم کا اصل منشاءیوں بیان کیاہے:”یہ کتاب ہے ہم نے آپ پر اتاری ہے تاکہ آپ لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے آئیں“۔(ابراہیم:1) یہ بات ذہن میںرکھنی چاہئے کہ نبی پاک ﷺ نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے جونفع بخش نہ ہو۔ نبی اکرم ﷺ کی دعا حسب ذیل ہے:-
”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے علم سے جو نفع بخش نہ ہو، ایسے دل سے جس میںخشوع نہ ہو، ایسی روح سے جس میں قناعت نہ ہواور ایسی دعا سے جو مقبول نہ ہو“۔ یہ بات واضح ہے کہ جولوگ علم حاصل کرتے ہیں اور اس پر عمل نہیںکرتے ہیںان کی اللہ کے نزدیک کوئی اہمیت اورحیثیت نہیں ہے۔ روزِ قیامت ان کاعلم ان کے لئے ضرر رساں اور باعث لعنت ہوگا۔
قرآن کریم کا ارشاد ہے: ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوںوہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیںہو؟اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں“۔ (الصف: 2-3) یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ قادرِمطلق اللہ سبحانہ تعالیٰ نے نیک اور متقی لوگوں کو عظیم ترین مقام عطاکیاہے اور انہیں سربلندی سے نوازاہے۔قرآن مجید کا ارشاد ہے:” اِن سے پوچھو، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟“۔ (الزمر: 9)اس کا مزید ارشاد ہے:”تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیاہے، اللہ ان کو بلند درجے عطافرمائے گا“۔ (المجادلہ: 11)
رسول کریم ﷺ کافرمان ہے:”اللہ جن سے محبت کرتاہے، انہیںدین کا علم عطاکرتاہے اور سیدھے راستے کی طرف اس کی رہنمائی کرتاہے“۔اوردوبارہ آپنے فرمایا:”علماءانبیاءکے وارث ہیں“۔ آپ نے مزید یہ بھی فرمایا:”حشر کے روز علماءکے قلم کی سیاہی کو شہداءکے خون سے تشبیہ دی جائے گی“۔ اور آپ نے دوبارہ ارشاد فرمایا:”علماءزمین پر اللہ کے امین ہیں“۔آپنے مزید ارشاد فرمایا:”پورے قبیلے کی موت ایک عالم کی موت سے زیادہ قابل برداشت ہے“۔نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:” علماءکو عام بندوں پروہی برتری حاصل ہے جو ماہِ تمام کو دیگر ستاروں پر حاصل ہوتی ہے“۔آپ نے دوبارہ ارشاد فرمایا:”عالم مومن کو عام مومن پر سترگنا زیادہ برتری حاصل ہے“۔
ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ سے پوچھا گیا:”اے اللہ کے رسول! کون سے اعمال بہترین ہیں؟“۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جوکوئی علم کی تلاش میں نکلتاہے، اللہ تعالیٰ اسے اس راستے کی رہنمائی فرمائے گا جو اس کو بہشت میں لے جانے والا ہوگا“۔ آپ نے دوبارہ ارشاد فرمایا:”بے شک فرشتے طالب علم کے عمل کی تصدیق میں جھک جاتے ہیں“۔آپ کا دوبارہ ارشاد ہے:”جب کسی انسان کی وفات ہوتی ہے، تو اس کے تمام اعمال سوائے تین کے منقطع ہوجاتے ہیں: پہلا صدقہ جو کبھی ختم نہیں ہوتا، دوسرا علم جو نفع بخش ہو، تیسرے وہ صالح اولاد جو اس کے بعد اس کے لئے دعاکرے“۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا:”ایک ہزار عبادت گزاروں کی موت جو اپنا دن روزے کی حالت میں گزارتے ہوں اورراتیں مسلسل عبادت میں کم مصیبت والی ہے بہ مقابل کسی عالم کی موت کے جو اس بات سے واقف ہوتاہے کہ اللہ کے نزدیک کیا جائز ہے اور کیا ناجائز“حضرت علیؓنے کامل سے فرمایا:”اے کامل! علم دولت سے بہتر ہے، علم تمہاری حفاظت کرتاہے اور تم دولت کی حفاظت کررہے ہو۔ علم عدل تقسیم کرتاہے جبکہ دولت عدل کی تلاش میں رہتی ہے۔ دولت خرچ کرنے سے کم ہوتی ہے جبکہ علم خرچ کرنے سے بڑھتاہے“۔ آپ نے فرمایا:”ایک عالم اس شخص سے بہتر ہوتاہے جو عبادت کرتاہے اور اللہ کے راستے میں جہاد کرتاہے۔ جب کسی عالم کی وفات ہوتی ہے تو اسلام پر ایسی مصیبت نازل ہوتی جسے اس کا وارث ہی دور کرسکتاہے“۔ حضرت علیؓ نے ایک نظم میں فرمایا:”تعریف اور عزت تو صرف عالم کی ہی ہوتی ہے؛
وہ راہِ راست پر ہوتے ہیںاورہدایت کی تلاش کرنے والوں کے لئے وہ دلیلِ راہ ہوتے ہیں؛ ہرشخص اپنے علم کے تناسب سے معزز ہوتاہے; لیکن جہلاءبطور علماءکے دشمن کے ذلیل ہوتے ہیں؛ علم حاصل کروتم لافانی ہوجاوگے.سارے لوگ فنا ہوجاتے ہیں، صرف علماءہی زندہ رہتے ہیں۔اپنی کتاب”کتاب العلم“ میںامام غزالیؒ نے پیغمر محمد ﷺ کا ایک قول نقل کیاہے جواس تناظر میں بالکل مناسب ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:”ہرشے کا ایک آلہ اوراوزار ہوتاہے، اور مومن کا اوزار اس کی عقل ہوتی ہے،ہرشے کا ایک آسراہوتاہے،اور آدمی کا آسرااس کی عقل ہوتی ہے، ہرشے کاایک سہارا ہوتاہے،اور دین کا سہارا عقل ہوتی ہے، ہر جماعت کا ایک ہدف ہوتاہے، اور بندوں کا ہدف عقل ہوتی ہے؛تمام لوگوں کا ایک حواری ہوتاہے(جوانہیں صحیح عقیدے کی دعوت دیتاہے) اور خداپرستوں کی حواری عقل ہوتی ہے؛ ہرتاجر کی کچھ اشیاءاورسامانِ تجارت ہوتے ہیںاور علماءکاسامان تجارت عقل ہوتی ہے.
ہر گھر کا ایک رکھوالا ہوتاہے، اورخدارسیدہ لوگوں کے گھرکارکھوالا عقل ہوتی ہے،ہرنقصان کا ایک تدارک ہوتا ہے، اور موت کاتدارک عقل ہوتی ہے؛ ہرشخص کا ایک جانشین ہوتاہے جو اس کے نام کو لیتاہے اوراس کی یاد کو دوام بخشتاہے اور خدارسیدہ لوگوں کی جانشین جو ان کے نام کو لیتی اور ان کو دوام بخشتی ہیں وہ ان کی عقلیں ہیں؛ اور آخر میں ہر سفر کی ایک جائے پناہ ہوتی ہے اورمومنوں کی جائے پناہ عقل ہوتی ہے“۔
اب ہمیں پیغمبر محمد ﷺ کے درج ذیل قول کے بارے میںغوروفکرکرنا چاہئے۔ آپنے فرمایا:”کوئی شخص عالم نہیںہوسکتا جب تک وہ علم کوعملی جامہ نہ پہنائے©“۔ آپ کاارشاد ہے:”علم علماءسے مقابلہ کرنے کے لئے ، گستاخ ودشنام طرازسے جھگڑنے اوراسے خاموش کرنے، اور لوگوں میں پسندیدگی اور شہرت حاصل کرنے کے لئے مت حاصل کرو، کیونکہ جو کوئی بھی ایسا کرے گا وہ نارِجہنم میں جائے گا“۔آپنے پھرفرمایا:”جو کوئی بھی اپناعلم چھپائے گا اللہ تعالیٰ اسے آگ کی لگام لگائے گا“
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:”میں نے کئی لوگوں کو دیکھا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کترے جارہے تھے۔میںنے جبرائیلؑ سے پوچھا،’یہ کون لوگ ہیں؟‘انہوں نے کہا:’یہ آپ کی امت کے واعظین ہیں جودوسروں کو تو اچھے عمل کی تلقین کرتے ہیں لیکن خود اس کی اتباع نہیںکرتے ہیں“
نبی پاک ﷺ نے فرمایا:”کسی عالم کے حلقے میںمت شریک ہوسوائے اس کے جو تم سے پانچ اشیاءکا پانچ دیگر کے حق میں ترک کرنے کا مطالبہ کرے،یقین کے حق میںشک کے ترک کرنے کا، اخلاص کے حق میں نفاق کا، دنیا پرستی کاترکِ دنیا کے حق میں، فخر کاتواضع کے حق میں، اور عداوت کا محبت کے حق میں“۔
پیغمرعیسیؑ کا فرمان ہے:”اس شخص کی تمثیل جو علم حاصل کرے لیکن اس کے مطابق عمل نہ کرے، اس عورت کی طرح ہے جس نے خفیہ طور پر حرام کاری کی اور حاملہ ہونے پر اس کا گناہ مشہور ہوجائے۔ایسا ہی اس شخص کا معاملہ ہے جواپنے علم کے مطابق عمل نہ کرے؛ حشرکے روز وہ اعلانیہ طورپر اللہ اسے ذلیل کرے گا“
”افسوس جس امت مسلمہ کی ابتدا”اقرا¿ باسم ربک“ سے ہوئی تھی اور وحی کے نزول سے علم حقیقی کا نزول ہواتھا، معرفت حق کی بارش ہوئی تھی اورقرآن کے نزول سے ہی دنیا کا آغاز ہواتھا، نئے دور کی ابتدا ہوئی تھی، نشا¿ة ثانیہ کا اعلان ہواتھا اور دنیا میں انقلاب کا بگل بج گیاتھا ، تو اب کرنے کا کام یہ ہے کہ علمائ، ادباءودانشوران ،سیاسی قائدین، سماجی رہنما اورمصلحین سب مل کر دینی وعصری علوم سے ہندوستانی مسلمانوں کو آراستہ وپیراستہ کریں.
تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ کریں، غریب بچوں کی عمومی طور پر مدد کریں، لڑکے اورلڑکیوں دونوں کی رہبری کریں، خصوصًا لڑکیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں، تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقہ سے اداکرسکیں، نیز ان کے ذریعہ ایک ایسی نسل تیار ہو جو اسلام کی آبیاری کرسکے اور اس کی سچی ترجمانی وحقیقی نمائندگی کا فریضہ انجام دے، جگہ جگہ مدرسے کھولیں، اسکول اور کالج قائم کریں، کوششوں کی ترکیز کرکے ملت کے نوجوانوں کو علم سے بہرہ ور کریں، مایوسی اور غفلت کی چادر کو چاک کردیں، عام تعلیمی بیداری کے فریضہ کو انجام دیں اور ان کو یہ بتائیں کہ تعلیم انسان کا زیور ہے، تعلیم سے ہی عروج وبلندی عطاہوتی ہے۔ اس طرح ان شاءاللہ خداکی توفیق سے وہ دن دورنہیں جب مسلم گھرانے علم کی روشنی سے منور ہوجائیں گے اور تعلیم کا تناسب دوفیصد سے سوفیصد ہوجائے گا۔
اس کے لئے ہمیں مختلف مقامات پر کیمپ اورتعلیمی ورکشاپ بھی لگانا ہوں گے، بچوں اور ان کے والدین کو مدعو کرکے ان کے ذہن وفکر کو تیار کرنا ہوگا، شاہ خرچیوں اور فضول خرچیوں کو چھوڑ کر تعلیم کے مقصد میں اپنی قیمتی رقومات کو لگانا ہوگی، شادی بیاہ کی فضول خرچیوں کو بھی روکنا ہوگا، جہیز کی لعنتِ بد کو سماج سے دور کرنا ہوگا، اس طریقہ کو اپنا کر منزل مقصود قریب ہوگی اور جہالت کافور ہوگی ”راہ ہے تو یہی ہے منزل ہے تو یہی ہے“ (اقلیتوں کے حقوق اور اسلاموفوبیا، صفحہ 279)۔
اصل بات یہ ہے کہ علم ایک عظیم سرمایہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں پرسکون طریقے سے زندگی گزارنے کے لئے عطا کیاہے ۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ اس پر ہم خاص توجہ مرکوز کریں۔ تاریخ شاہد ہے کہ کسی بھی قومی کے مستقبل کا انحصار علم پر ہی ہوتاہے ۔ ڈاکٹر اے ،پی ، جے عبد الکلام نے کیا ہی خوب کہاہے:
Education is the most Powerful weapon which you can use to change the world
یعنی تعلیم ہی وہ طاقتور ترین ہتھیار ہے جس کو استعمال کرکے تم دنیا کو بدل سکتے ہو۔
اس طرح ہم اپنے اغراض ومقاصدحاصل کرسکتے ہیںاور اس طرح خدا کی خوشنودی کا حصول نیک اورصالح علم کے ذریعے کرسکتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں بلند صفات، صالح اصول اور پاکیزہ اعمال اختیار کرنا چاہئے ۔ تبھی ہم اس دنیا میں اور آخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قوت دے کہ ہم اپنے اندر ایسی صفات پیداکریں اور اس پر قائم ودائم رہیں۔