خواجۂ غریب نواز، خواجۂ اجمیریؒ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
خواجۂ غریب نواز، خواجۂ اجمیریؒ
خواجۂ غریب نواز، خواجۂ اجمیریؒ

 

 

 

awazurdu

 

 پروفیسراخترالواسع

دین دھرم کچھ مخصوص رسوم ورواج اور اعمال واذکار کا نام ہے۔ اگر ظاہری رسوم نہ ہوں تو کسی بھی دین کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔  نماز وروزہ کے کم از کم اقرار کے بغیر اسلام کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کسی بھی مذہب میں ظاہری رسوم بذاتہ مطلوب بھی نہیں ہوتیں، رسم ضروری ہے لیکن وہ رسم ضروری ہے جو حقیقت کی آئینہ دار ہو اور ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایسی کوئی حقیقت نہیں ہے جو رسم سے عاری ہو، رسم وحقیقت کا یہ تال میل ہی دراصل دین ہے۔

کسی بھی دین کی ابتدا میں ایسے کسی رسم کا تصور ہی ممکن نہیں جس میں حقیقت شامل نہ ہو لیکن رفتہ رفتہ وقت کی گردش رسم کو حقیقت کے مقام پر کھڑا کر دیتی ہے اور حقیقت فراموش ہونے لگتی ہے۔ وقت کے اس انتہائی نازک موڑ پر رسم وحقیقت کے رمز آشنا نفوس قدسیہ زمام کار کو سنبھالتے ہیں۔ اب تک رسم کا نام تھا لیکن حقیقت ایک دائر حقیقت تھی جو رسم میں سمائی ہوئی تھی۔

اس کا کوئی انفرادی نام نہ تھا۔ لیکن جب حقیقت سے عاری رسم کو ہی اصل مقصود سمجھا جانے لگا اور دینداری بھی دنیاداری بن گئی تو پھر مقام حقیقت کے شناوروں نے اس بسیط حقیقت کو لفظ کا پیکر دیا اور اسلامی تاریخ میں یہ لفظی پیکر پہلی صدی میں احسان اور زہد اور دوسری صدی میں تصوف کے خوشنما لقب کی صورت میں ظاہر ہوا۔

awazurdu

تصوف کا لفظ اگر قرآن وسنت میں ڈھونڈا جائے تو نہیں ملے گا لیکن تصوف کی حقیقت اپنی پوری تابانی کے ساتھ جلوہ گر نظر آئے گی۔حدیث جبرئیل کے یہ الفاظ کہ آپ اس طرح عبادت کریں گویا آپ خدا کو دیکھ رہے ہیں اور اگر آپ خدا کو نہیں دیکھ رہے ہیں تو وہ آپ کو دیکھ رہا ہے، یہ کیفیت جس کو حدیث میں احسان کہا گیا ہے یہی دراصل تصوف کی حقیقت ہے، اور اسی حقیقت کا لفظی پیکر تصوف ہے۔

 پہلی دوسری صدی میں جب وسائل دنیا کی بہتات ہوگئی۔ ہر طرف معاشی آسودگی پھیل گئی، وسائل حیات کے لیے مقابلہ ذرا کم ہوگیا، اس وقت ایک بڑی تعداد میں لوگوں نے محسوس کیا کہ ہماری زندگی صرف ضروریات حیات کو پورا کرنے اور ظاہری مذہبی رسوم ادا کرنے تک محصور ہوکر رہ گئی ہے، خدا سے ہمارا تعلق بہت کمزور ہوگیا ہے۔

ایسے حالات میں ان کو سید نا علی کرم اللہ وجہہ کے روحانی فیضان سے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ کی شخصیت میں بڑی رہنمائی ملی اور ایک بار پھر رسم کو حقیقت کے انجام دینے یعنی پوری حقیقت کے ساتھ انجام دینے کا جذبہ حقیقت سے ہمکنار ہوا۔ لیکن اس دفعہ یہ حقیقت بے نام نہیں تھی بلکہ لفظ تصوف کے پیکر میں ملفوظ تھی۔

تصوف اور اصلاح با طن کا یہ سلسلہ چوںکہ ایک شدید روحانی ضرورت تھی، اس کے بغیر، روحانی آسودگی حاصل نہیں ہوسکتی تھی اس لیے یہ سلسلہ اپنے اس امتیازو تشخص کے ساتھ بہت جلد عالم اسلام میں پھیل گیا بلکہ اس کی ضیاء باریاں ان دور دراز علاقوں تک بھی پہنچیں، جہاں ابھی تک ظلمت شب سایہ فگن تھی اور نور حق و صداقت کی روشنی نے وہاں پوری طرح پردہ ظلمت کو چاک نہیں کیا تھا، ایسی ہی ایک سر زمین ہندوستان کی سرزمین ہے۔

ہندوستان وہ سر زمین ہے جس کو اگر دین دھرم کی سر زمین کہا جائے تو بے جانہ ہوگا، یہاں صدیوں سے رشیوں ، منیوں، سادھوؤں، سنتوں اور مذہبی رہنماؤں کے اپدیش لوگوں کا مارگ درشن کرتے رہے اور مذہب کے نام پر یہاں بڑے بڑے انقلاب بھی آئے، اس لیے یہ سر زمین مذہب کی حقیقت سے بے بہرہ نہیں تھی۔

البتہ گردش ایام کی گرد پانے یہاں کی مذہبیت کو بھی متاثر کیا تھا، اور مذہب کے نام پر مختلف طرح کے استحصالات شروع ہوگئے تھے، ایسے ماحول میں  نور تصوف کی قندیل لے کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سرزمین ہندمیں وارد  ہوئے اور اس وقت ہندوستان کے سب سے اہم مرکزی مقام، اجمیر میں قیام پذیر ہوئے، یہ ان کے قدموں کی برکت تھی کہ رائے پتھورا کا اجمیر، اب ہمیشہ کے لیے اجمیر شریف ہوگیا اور ہمیشہ کے لیے حضرت خواجہ سے وابستہ ہوگیا۔

awazurdu

سرزمین ہند پر حضرت خواجہ اجمیریؒ کا ورود مسعود کوئی سادہ واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک عہد ساز، عہد آفریں اور انقلاب انگیز آغاز ہے جس نے مستقبل کے ہندوستان کی تعمیر کی۔ حضرت خواجہ نے تصوف کے سلسلہ چشتیہ کی بنیاد اس سرزمین پر رکھی اور یہی سلسلہ ہے جس نے ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب کی بنیاد رکھی، جس کی کلاہ افتخار میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت بابافریدالدین گنج شکرؒ، حضرت مخدوم علاء الدین صابر کلیریؒ، محبوب الہٰی حضرت نظام الدین اولیاؒ، حضرت شاہ نصیرالدین چراغ دہلیؒ اور سدابہار مورخ، ادیب و شاعر، موسیقار، بے زبانوں کی زبان امیر خسرو اور خواجہ بندہ نواز گیسو دراز جیسے گراں بہا ہیرے جڑے ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ نے یہاں کے مذہب، سماج، معاشرت، ادب، لوک ادب، موسیقی، سیاست، معیشت ہرچیز کو متاثر کیا اور ایک ایسی تہذیبی و ثقافتی عمارت کھڑی کی جس کے شاندار آثار آج بھی ایستادہ ہیں۔

حضرت خواجہ اجمیریؒ کا اصل وطن سجستان ہے۔ وہاں صحیح روایت کے مطابق 18اپریل 1143ء کو ان کی ولادت ہوئی، بچپن میں ہی یتیم ہوگئے تھے، باپ کا ورثہ کفالت کے لیے کافی تھا۔ اس سے اچھی گزر بسر ہوتی تھی لیکن دست قدرت نے حضرت کو خودپروری کے لیے نہیں عالم پروری کے لیے پردۂ امکان میں ظہور بخشا تھا۔

بہت جلد ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ حضرت نے تمام مال و اسباب فروخت کرکے غرباء میں تقسیم کیا اور غریب الوطنی کی راہ اختیار کی، طویل سفر میں ظاہری اور باطنی علوم کی تکمیل کی، بغداد میں مقیم رہے، حج و زیارت سے بہرہ مند ہوئے اور ایک اشارہ غیبی کے تحت ہندوستان تشریف لائے۔ پہلے لاہور میں حضرت داتا صاحب کے روضہ پرچلہ کشی کی اور وہیں یہ اعلان بھی کیا    :

گنج بخش، فیضِ عالم، مظہر نور خدا

ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما

(ترجمہ) گنج بخش ہیں، فیضِ عالم ہیں اور نور خدا کے مظہر ہیں۔ وہ ناقصوں کے لیے پیر کامل اور کاملوں کے رہنما ہیں۔

اس کے بعد ملتان تشریف لے گئے، پھر دہلی ہوتے ہوئے آخر اجمیر میں قیام کیا۔ اجمیر میں حضرت خواجہ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جن کا اصل محرک وہاں کا راجہ پرتھوی راج چوہان تھا۔ جب اس کی ایذا رسانی حد سے بڑھی تو حضرت کی زبان مبارک سے نکلا کہ ہم نے پتھورا کو زندہ، سلطان شہاب الدین کے سپرد کردیا، بعد میں یہ پیش گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی اور اس طرح اجمیر میں حضرت کو ایک مستقل مرجعیت حاصل ہوگئی۔

حضرت نے اجمیر میں کم و بیش چالیس سال قیام کیا۔ اس طویل قیام کے دوران آپ ہمیشہ اجمیر میں ہی رہے صرف ایک مرتبہ دہلی کا سفر کیا اور ایک روایت کے مطابق دو دفعہ دہلی کا سفر کیا، ورنہ مستقل بودو باش اجمیر میں ہی رہی۔

’’دہلی‘‘ سے پہلے کے ہندوستان میں اجمیر کی وہی اہمیت تھی جو بعد میں دہلی کو حاصل ہونے والی تھی، اس وقت اجمیر ہندوستان کا قلب تھا، جس طرح بعد کے زمانے میں دہلی کو یہ حیثیت حاصل ہوئی کہ یہاں کی ہر تبدیلی سارے ہندوستان کے اندر تبدیلی کی علامت بن جاتی تھی۔

اسی طرح اس وقت اجمیر شریف کا مقام تھا۔ چونکہ حضرت خواجہ کو اس پورے ملک میں کام کرنا تھا اسی لیے آپ نے اجمیر کو منتخب فرمایا، کیوں کہ  اجمیر سے جو پیغام اٹھے گا وہ پورے ملک میں پھیلے گا اور اگر اجمیر میں اصلاح ہوگی تو اس کے اثرات پورے ملک پر پڑیں گے، حضرت خواجہ نے اجمیر کو مستقر بناکر انسانیت کا پیغام دیا اور ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کا آغاز کیا۔ جس کے اثرات بتدریج پورے ملک میں ظاہر ہونے شروع ہوئے۔

awazurdu

حضرت خواجہ غریب نواز کے مرشد خواجہ عثمان ہرونی علیہ الرحمہ نے حضرت کو ایک نصیحت کی تھی کہ اے معین الدین اب تم نے فقیری اختیار کرلی ہے، اس کا تقاضہ ہے کہ فقیروں کی طرح اعمال کرنا اور وہ اعمال یہ ہیں: غریبوں سے محبت کرنا، ناداروں کی خدمت کرنا، برائیوں سے اجتناب کرنا، مصیبت اور پریشانی میں ثابت قدم رہنا، حضرت خواجہ نے اس نصیحت کو حرز جان بنایا اور اس ملک کے غریب پسماندہ اور دبے کچلے لوگوں کے لیے ابر رحمت بن کر برسے۔

انہوں نے بلاتفریق مذہب و ملت ہر ایک کی خبرگیری کی، دکھی دلوں کے لیے مرہم کا کام کیا اور نہ صرف خود اس کا عملی نمونہ بنے بلکہ ایک مستقل سلسلہ قائم کیا جس نے پہلے دہلی کو اپنا مرکز بنایا اور پھر ملک کے طول و عرض میں اس کی ضیاپاشیاں پھیل گئیں اور امن و آشتی اور محبت و یقین، عزم و حوصلہ اور جرأت و ہمت نیز خدمت خلق، خدا پرستی اور اپنے مالک سے براہ راست ربط و تعلق کی جو بنیاد استوار کی، جو پیغام دیا وہ پورے ملک کے عوام کے لیے رحمت کا پیغام بن گیا۔

سلسلہ چشتیہ کا درخت ہندوستان میں حضرت نے ہی لگایا تھا جس کے اثرات ملک کے طول و عرض میں آج بھی زندہ و تابندہ نظر آتے ہیں۔ جن کی ضیاپاش کر نیں آج بھی لوگوں کی تاریک زندگیوں کو ظلمت کدوں سے نکال کر منور کررہی ہیں۔

حضرت خواجہ نے ملک و ملت کی بے لوث خدمت کی، ان کو اس کی ضرورت نہیں کہ لوگ ان کے ساتھ عقیدت کا اظہار کریں۔ ان کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہوں۔ لیکن خدمت خلق کے بہرحال اپنے اثرات ہوتے ہیں اور جس جذبہ اور خلوص کے ساتھ خدمت انجام دی جائے اسی زور و قوت کے ساتھ اس کے اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت کی خدمات کا اعتراف خود حضرت کے عہد سے آج تک ہمیشہ کیا جاتا رہا اور بلاتفریق مذہب و ملت ہر طرح کے لوگ آپ کے آستانے پر حاضری دیتے رہے۔

حضرت کے معاصر میراں سید حسین خدنگ سوار جو قطب الدین ایبک کے عہد میں اجمیر کے حاکم تھے ان کو بھی حضرت سے بڑی عقیدت تھی اور اس عقیدت کا اظہار انہوں نے منجملہ دیگر طریقوں کے اس طرح بھی کیا کہ اپنی بہن بی بی عصمت سے آپ کا نکاح کیا۔ اس دور میں بہت سے غیر مسلم حضرات بھی حضرت سے عقیدت رکھتے تھے۔

awazurdu

وقت گزرنے کے ساتھ یہ محبت و عقیدت بڑھتی ہی چلی گئی۔ سیرالعارفین کے مصنف نے ان الفاظ میں اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے :

آں شہنشاہ جہان معرفت

ذات او بیروں ز ادراک و صفت

خسرو ملک آفتاب تخت و تاج

از خود و از غیر خود بے احتیاج

آں معین الدین ملت بے نظیر

فارغ از دنیا ملک دیں امیر

(ترجمہ) معرفت کی دنیا کے وہ بادشاہ ہیں ان کی ذات ادراک و فہم سے بالاتر اور حدتوصیف سے بلند ہے وہ بادشاہ ہیں تخت و تاج کے آفتاب ہیں۔ خود کے بھی محتاج نہیں اور غیر کے بھی محتاج نہیں۔ وہ ملت کے بے نظیر مددگار ہیں اور دنیا سے فارغ اور دین سے امیر ہیں۔

سیر الاقطاب کے مصنف نے لکھا ہے ’’قطب الاقطاب‘‘ حجۃ الاولیاء، مہبط انوار، مخزن المعرفت و الحقیقت پردہ انداز اسرار غیبی، چہرہ کشائے صور لاہوتی۔

شہزادہ دارا شکوہ نے اپنی کتاب سفینۃ الاولیاء میں لکھا ہے۔

زبدۂ مشائخ اجل و قدوہ اولیاء اکمل۔

شیح عبدالحق محدث دہلوی نے ’’سر حلقہ مشائخ کبار‘‘ لکھا ہے۔

شاہجہاں کی صاحبزادی جہاں آراء بیگم دربار میں حاضر ہوئیں تو فرط عقیدت سے بے خود ہوگئیں اور دوپٹے سے مزار کی خاک روبی کی سعادت حاصل کی اور غایت ادب کا یہ عالم تھا کہ جب تک اجمیر میں رہیں اس وقت تک ادھر قدم بھی نہیں پھیلائے جدھر حضرت کا مزار منور تھا۔ اسی عقیدت و احترام کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب مونس الارواح میں بہت تفصیل سے کیا ہے۔ ایک اقتباس یہ ہے:

روز پنجشنبہ 14رمضان المبارک کو حضرت پیر دست گیر رضی اللہ عنہ کے مرقد منور کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی۔ دن کا ایک پہر باقی تھا کہ میں روضۃ اقدس میں گئی اور اپنے زرد چہرے پر اس آستانے کی خاک ملی، دروازے سے گنبد مبارک تک برہنہ پا زمین چومتی ہوئی گئی اور مزار منور کے سات پھیرے لگاکر اپنی پلکوں سے جھاڑو دی۔

ہندوستان کے بادشاہوں میں غالباً سب سے زیادہ عقیدت و محبت کا اظہار جلال الدین اکبر نے کیا وہ اکثر ایک عام زائر کی طرح بڑی مسافت طے کر کے مزار اقدس تک  پاپیادہ گیا۔ اکبر نے ہی بڑی دیگ بنوائی۔ جہانگیر اور شاہجہاں نے بھی اس دربار میں حاضری دی۔ اورنگ زیب عالم گیر جو اپنے ایک خاص مزاج کے لیے مشہور ہیں۔ لیکن حضرت کے دربار میں ان کی بھی جبین عقیدت خم ہوگئی۔ وہ کئی دفعہ اجمیر گئے اور مزار پر حاضری دینے جاتے تو اپنے مستقر سے روضہ تک پیدل جاتے تھے اور مزار پر نذرانہ بھی پیش کرتے تھے۔

awazurdu

سلاطین و حکمراں تو زمین پر حکومت کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کی حکومت صرف ایک عہد تک محدود ہوتی ہے لیکن دل و روح کے حکمرانوں کی حکومت خود زمین کے بادشاہوں پر بھی ہوتی ہے اور زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ ان کی پادشاہی فقیری ہوتی ہے۔ وہ فقری ہوتے ہوئے بھی دلوں کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ اور ان کی بادشاہی زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ اور جسم و روح دونوں پر ہوتی ہے۔ حضرت خواجہ بھی دل و روح کے حکمراں تھے۔ مسلم سلاطین کی ان کے دربار میں حاضری پر کیا منحصر ہے۔

مختلف ملکوں کے حکمران ہر زمانے میں ان کے روضہ پر حاضری کو سعادت سمجھتے رہے اور حکمراں ہی کیا امیر و غریب ہر طرح کے لوگ حاضری دیتے رہے۔ ان کے دربار میں حاضری کا یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔آج بھی لاکھوں عقیدت مند ان کے دربار میں اس امنگ اور جذبے سے جاتے ہیں جو جذبہ لے کر عہد وسطی کے سلاطین جاتے تھے۔ اس فقیر بے نوا کے مزار پر کشاں کشاں عقیدت مندوں کا ہجوم، ان کی بادشاہی اور ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)