کیرالہ کی معدِن علم و ہنر اور ہماری ترجیحات

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-02-2023
 کیرالہ کی معدِن علم و ہنر اور ہماری ترجیحات
کیرالہ کی معدِن علم و ہنر اور ہماری ترجیحات

 

 

پروفیسر اخترالواسع

  کیرالہ ہندوستان میں اپنی تعلیمی برتری کے لیے جانا جاتا ہے۔ کیرالہ کے لوگ جن میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں، اپنی علمی اور فنی مہارت کے لیے ایشاء بھر میں جانے جاتے ہیں۔ کیرالہ کی نرسیں اپنے جذبہ خدمت اور طبی مدد پہنچانے کی اپنی مارت کے لیے جانی جاتی ہیں۔ کیرالہ کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ 1957 میں پہلی غیر کانگریسی اور کمیونسٹ حکومت الیکشن کے ذریعے شری نمبودری پد کی قیادت میں وہیں برسراقتدار آئی۔ یہ بھی ایک سیاسی حقیقت ہے کہ کیرالہ میں مسلم لیگ انتخابی عمل میں شروع سے نہ صرف شریک رہی بلکہ کامیاب بھی ہوتی رہی۔

 کیرالہ کے مسلمان بھی علمی، فنی اور سیاسی میدانوں میں ایک امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ یہاں کے مسلمان اکثر ان عرب اور دوسرے اسلامی ملکوں سے آئے مسلمانوں کی یادگار ہیں جو یمن اور جزیرہ نما عرب وغیرہ سے ماقبل اسلام سے ہی یہاں آتے رہے لیکن بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب وہ آئے تو سامانِ تجارت تو وہی تھا جو وہ ہمیشہ سے لاتے اور لے جاتے تھے لیکن اب کہ ان کا دین اور عقیدہ بالکل مختلف تھا۔ ساتھ میں ان کے سماجی رویوں میں بھی ایک انقلابی تبدیلی دیکھنے کو ملی جس میں انکسار، اخوت اور مساوات کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ کیرالہ کو ہی یہ شرف حاصل ہے کہ وہاں پہلی مسجد نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی حیات طیبہ میں ہی تعمیر ہو گئی تھی۔

کیرالہ میں آج بھی ایک ایسی شخصیت تعلیم کے فروغ، بین المذاہب ہم آہنگی اور ادارہ سازی میں تن من دھن سے لگی ہوئی ہے اور اس کا نام سید ابراہیم خلیل البخاری صاحب ہے جنہوں نے تامل ناڈو میں واقع بقائے صالح عربی کالج سے اعلی ترین سند حاصل کی اور پھر ملّاپورم کے سوالتھ نگر میں معدن اکیڈمی قائم کی۔ 1997 میں اس اکیڈمی کے قیام کے وقت اس سے جڑنے والے طلبہ کی تعداد 108تھی لیکن آج یہ تعداد تقریباً 30ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات پر مشتمل ہے اور جن اداروں کے تحت یہ رسمی، دینی اور فنی تعلیم دے رہے ہیں ان کی تعداد تقریباً 16 کے قریب ہے اور حکومت کیرالہ سے ان کو منظوری ملی ہوئی ہے۔

یہ ادارے سنّی تعلیمی مراکز کی حیثیت سے نہ صرف دنیا میں جانے جاتے ہیں بلکہ معدن اکیڈمی کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ وہG-20 بین المذاہب کانفرنس میں بھی پوری طرح شریک ہے اور اس طرح ملک، مذہب اور ادارے تینوں کے لیے وجہ افتخار ہے اور اس کا سارا کریڈٹ معدن اکیڈمی کے بانی چیئرمین اور عالم دین جناب سید ابراہیم خلیل البخاری صاحب کو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کامن ویلتھ اور مجلس اقوام متحدہ کے مختلف پروگراموں میں شریک اور حصہ دار بھی رہے ہیں۔

معدِن کے زیر اہتمام جو ادارے قائم ہیں اور کام کر رہے ہیں وہ ہر اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں معدِن پبلک اسکول، معدِن پالی ٹیکنک کالج، معدن آرٹس اینڈ سائنس کالج، نابینہ بچوں کے لیے اسکول، اسی طرح ثقل سماعت (بہرے) بچوں کے لیے اور ذہنی اور جسمانی طور پر معذور بچوں کے لیے الگ الگ اسکول کا قیام، معدن کے تحت ایک ہائر سکینڈری اسکول اور علیحدہ سے لڑکیوں کے لیے ایک کیمپس کا قیام دیکھنے کی چیز ہیں۔ اس کے علاوہ معدن اسکول آف ایکسی لینس، معدن ماڈل اکیڈمی، معدن اسپینش اکیڈمی اور معدن کا غیرملکی زبانیں سکھانے کا ادارہ اپنی ایک غیرمعمولی شناخت رکھتے ہیں۔

AWAZ

  یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ معدن اکیڈمی کے تحت یہ سارے ادارے 1860کے سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ معدین الثقافۃ الاسلامیہ کے تحت کام کرتے ہیں اور صرف سیکولر اور عصری تعلیم تک ہی ان کی سرگرمیاں محدود نہیں ہیں بلکہ وہ معدن کلیہ آف اسلامک سائنس، معدن کالج آف اسلامک دعویٰ، معدن تحفیظ القرآن کالج بھی چلاتے ہیں اور اس کے علاوہ زراعت کے فروغ میں حصہ لیتے ہوئے اور خود کفیل بنانے کے لیے ایگرو اسپیس کے نام سے نان ٹاکسنگ زراعت کو عام کرنے میں لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں اور ہر گھرمیں کچن گارڈن کے قیام کو انہوں نے ایک تحریک بنا دیا ہے۔

 اس کے علاوہ عامۃ الناس سے مربوط اور منسلک رہنے کے لیے ہر سال معدن کے تحت حج کیمپ بھی لگایا جاتا ہے اس میں پانی کے جہاز سے عازمین حج کی تربیت کا الگ سے انتظام کیے جانے کا پروگرام بھی شامل ہے اور حج کیمپ کے لیے ایک علیحدہ ویب سائٹ بھی تیار کی گئی ہے تاکہ جو حج کو جا رہے ہیں وہ اس سے استفادہ کر سکیں۔

اس کے علاوہ رمضان کے مہینے میں 27 رمضان کی شب میں وہ اجتماع ہوتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مکہ اور مدینہ کے بعد وہ سوالتھ نگر میں تیسرا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے جس میں تقریبا 6لاکھ لوگ حصہ لیتے ہیں۔ 1986ء سے شروع ہونے والے اس اجتماع میں امامت کافریضہ سید ابراہیم خلیل البخاری صاحب کرتے ہیں اور ایک صوفی عالم کی حیثیت سے وہی دعا بھی کراتے ہیں۔

اس کے علاوہ نئی نسل کو تعلیم اور دین دونوں کی ترغیب دینے کے لیے معدن اکیڈمی کی طرف سے دانشوری کا ایک کنکلیو بھی لگتا ہے جس میں مختلف موضوعات پر اپنے اپنے علمی میدانوں میں اختصاص کے حامل اسکالرس نئی نسل کو خطاب کرتے ہیں، ان کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں اور اس طرح وقت کی رفتار علم کے مختلف میدانوں میں ہونے والی تبدیلیوں اور ترقی سے نوجوان نسل کو واقف کرایا جاتا ہے اور اس میں صرف جدید تعلیم پا رہے طلبہ ہی نہیں ہوتے بلکہ دینی تعلیم پانے والے طلبہ بھی برابر سے شریک ہوتے ہیں۔ بس اگر معدِن اکیڈمی کے اداروں کو ملا کر کیرالہ اسمبلی سے ایک ایسا بِل پاس کرانے کی ضرورت ہے کہ ان سب اداروں کو ایک پرائیویٹ یونیورسٹی معدِن یونیورسٹی کا درجہ مل جائے اور سید ابراہیم خلیل البخاری صاحب جس کے چانسلر ہوں۔

  کیرالہ میں اگرچہ کیرالہ یونیورسٹی اور کچھ دوسرے کالجوں میں اسلامک اسٹڈیز شامل نصاب ہے لیکن اس کو جس طرح سے ہر گورنمنٹ ڈگری کالج اور دوسرے اداروں میں شامل ہونا چاہیے ویسا نہیں ہے۔ اور یہ اس لیے تعجب کی بات ہے کہ سید ابراہیم خلیل البخاری صاحب جیسے عالم، صوفی اسلامی اسکالر، کیرالہ جماعت کے جنرل سکریٹری کے ہوتے ہوئے بھی اب تک یہ کیوں ممکن نہیں ہو سکا؟ امید ہے کہ سید ابراہیم خلیل البخاری صاحب اس کی طرف توجہ دیں گے اور مرکز الثقافۃ السنیہ کے بانی اور عالمِ ربانی جناب شیخ ابوبکر مسلیار کی دعاؤں سے اس مرحلہ میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کریں گے۔

 اس تحریر کا مقصد اپنے قارئین تک صرف سید ابراہیم خلیل البخاری صاحب اور معدن اکیڈمی کے تحت چلنے والے اداروں، منعقد ہونے والے پروگراموں اور دیگر سرگرمیوں سے واقف کرانا ہی نہیں بلکہ یہ احساس دلانا ہے کہ اگر ایک فرد واحد بھی نیت کی نیکی اور اخلاص کے ساتھ کمربستہ ہو جائے تو نصرتِ خداوندی اس کا ساتھ دیتی ہے۔ بقول شاعر:

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں

 ایسا نہیں کہ ملک کے دوسرے حصوں میں تعلیمی بیداری نہ پیدا ہوئی ہو اور ادارہ سازی کا عمل شروع نہ کیا گیا ہو۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، انجمن اسلام، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامعہ ہمدرد، عالیہ یونیورسٹی کلکتہ، انجمن خیرالاسلام، آل انڈیامسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کیرالہ، تحریکِ الامین بنگلورو، اسی طرح مدینہ ایجوکیشنل سوسائٹی، شاداب گروپ اور مجلس کے قائم کردہ ادارے حیدرآباد میں، الامین مشن بنگال میں، بہار میں الکریم یونیورسٹی کٹیہار، جودھپور میں مولانا آزاد یونیورسٹی، میگھالیہ میں سائنس اور ٹیکنالوجی یونیورسٹی، الفلاح یونیورسٹی دھوج ہریانہ، پریسیڈینسی یونیورسٹی بنگلورو، بی ایس عبدالرحمن انسٹی ٹیوٹ چنّئی وہ چند ادارے ہیں جو زمانہ قدیم سے ہمارے زمانے تک تعلیم کے فروغ میں لگے ہوئے ہیں۔

ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد اس کے ملبے سے مسلمانوں کی جو نفسیات برآمد ہوئی اس میں تعلیم کا حصول اور فروغ سب سے اہم ہے لیکن جو کچھ کیرالہ میں ہو رہا ہے اس کو ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور اس سلسلے میں معدن اکیڈمی اور اس کے بانی کو سامنے رکھ کر اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد کریں گے۔ تعلیم کا احیاء اور اس کے فروغ کے لیے کوششیں نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی سنّت کا احیاء ہے اور نبیؐ کو سنّت کو جو زندہ کرتا ہے وہ اپنے لیے دنیا اور آخرت میں کامیابی، سرخروئی اور نجات کا سامان کرتا ہے۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)