زرد چنار، ٹھٹرتی ڈل اور معصوم کشمیری

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 13-10-2021
زرد چنار، ٹھٹرتی ڈل اور معصوم کشمیری
زرد چنار، ٹھٹرتی ڈل اور معصوم کشمیری

 

awaz

 پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

جنت نظیر وادی کشمیر سے ایسی وحشت ناک خبریں آنی شروع ہوگئیں ہیں کہ چنار کے پیڑ زرد پڑے ہیں، ڈل جھیل ٹھٹھرتی معلوم ہوتی ہے۔ پہلے سری نگر کے ایک فارمیسی کے مالک جن کی اقبال پارک کے پاس دوکان تھی اور جو سری نگر کی ایک جانی مانی شخصیت تھے اور غیرمسلم ہونے کے باوجود مسلمانوں میں بے حد مقبول تھے اور ان کی کتنی عزت تھی اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 80 کی دہائی کے آخر میں جب کشمیر سے پنڈت ترک وطن کرکے ملک کے دوسرے حصوں میں جا رہے تھے اس وقت بھی شری ماکھن لال بندرو جو پنڈت تھے اور کیمسٹ کی حیثیت سے بہت مشہور تھے ان کو سری نگر نہ چھوڑنے پر وہاں کے مسلمانوں نے آمادہ کیا۔

اسی طرح جمعرات 7 اکتوبر کو ایک خاتون پرنسپل محترمہ سوپیندر کور اور ایک اسکول ٹیچر شری دیپک چندر کو لقمہ اجل بنا دیا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس تشدد کے پیچھے وہ دہشت گرد ہیں جو سرحد پار سے اپنے لئے عسکری تربیت مادّی رعایتیں اور فکری غذا حاصل کرتے ہیں۔

کشمیر میں تشدد کی اس لہر میں صرف غیرمسلموں کو نشانہ بنائے جانا اس لئے بھی تشویش ناک ہے کہ اس سے انتہاپسند فرقہ وارانہ نفرت کو جنم دینا چاہتے ہیں۔ اس میں ایک پوشیدہ راز یہ بھی ہے کہ کشمیر کے تینوں سابق وزراء اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی انتہا یہ کہ حریت کانفرنس سے جڑے لوگ بھی وادی چھوڑ چکے پنڈتوں کی باعزت اور پرسکون واپسی کے حامی ہیں، ان کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے اور وہ پنڈت جو وادی میں واپسی چاہتے ہیں انہیں خوفزدہ کرکے واپسی سے روک دیا جائے۔

اس کے علاوہ کشمیر کو مکمل ریاست دوبارہ بنانے کا جو چوطرفہ مطالبہ ہے اس کو بھی سبوتاژ کیا جا سکے۔ ایک خطرہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ کشمیر کے علاوہ بقیہ ملک میں بھی ہندو مسلم منافرت زور پکڑے اور مسلمانوں کو فرقہ وارانہ فسادات کا نشانہ بننا پڑے۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ کشمیر میں جو تینوں غیرمسلم اب تک موت کا شکار بنائے گئے ہیں وہ سیاسی لوگ نہیں تھے۔ وہ تجارت اور تعلیم سے وابستہ تھے۔

اس لئے ان کو ہلاکت خیز تشدد کا نشانہ بنانے کا کیا جواز ہو سکتا ہے؟ سوائے اس کے جیسا کہ کشمیر کے ڈائرکٹر جنرل پولیس شری دلباغ سنگھ نے کہا ہے کہ اس کا مقصد ہندو اور مسلمانوں کے بیچ میں نفرت اور دوری پیدا کرنا ہے۔

ہمارے عسکری دستوں نے جب انتہا پسندوں کی تلاش میں چھاپے مارے تو اس میں بھی ہمارے پانچ بہادر جوان لقمہ اجل بنا دیے گئے جو کہ ایک بڑا سانحہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سرحد پار سے کنٹرول کئے جانے والے سرپھروں کو کشمیر میں امن و امان، کشمیریوں کے لئے سلامتی اور آشتی کو برداشت ہی نہیں کر سکتے۔

وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی دہشت گردی کی آڑ میں اسلام انسانی جانوں سے کھلواڑ کی کسی کو اجازت نہیں دیتا ہے۔ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کے پاکستانی آقا انہیں جو بھی سکھائیں اور بتائیں لیکن دنیاکے کٹھن سے کٹھن مسئلے گولی سے نہیں بولی سے حل ہوتے ہیں اس لئے بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

تشدد کا راستہ ہمیشہ وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جن کا موقف کمزور ہوتا ہے اور جو یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ زمانہ نہ مجادلے کا ہے نہ مناظرے کا بلکہ مکالمے کا ہے اور رہا پاکستان، تو وہ تو اپنے شہریوں کی اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے ہمیشہ کشمیر کو ایک بہانے کے طو رپر استعمال کرتا رہا ہے۔ یہ کیسی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان کو سوا کروڑ کشمیروں کی فکر ہے لیکن بیس کروڑ ہندوستانیوں کی فکر نہیں جن کے خلاف وہ زہر کا ماحول پیدا کرتا اور کراتا رہتا ہے۔

اور ایسا پاکستان کی طرف ارادتاً کیا جاتا ہے تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو دو قومی نظریے کو قبول نہ کرنے کی سزا دی جاتی رہے اور ایسا کچھ نہ کچھ کیا اور کرایا جاتا رہے جس سے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف اس ملک کی اکثریت بدظن ہوتی رہے اور نفرت کی آگ سلگتی رہے۔ جو کچھ وادی میں ہو رہا ہے وہ امن و سلامتی کو ختم کرنے کی پاکستانی سازش ہے۔

جہاں تک ہم ہندوستانیوں کا سوال ہے، ہم کشمیر کو کشمیریوں کے ساتھ اور کشمیریوں کو بلا تفریق مذہب و ملت کشمیریت کے ساتھ ہندوستان کا لازمی جز سمجھتے ہیں۔ کشمیری اور کشمیر ہمارے سر کا تاج ہیں۔ بلا شبہ کشمیریوں کو کچھ شکایتیں ہو سکتی ہیں لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ہے، ان تمام مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے نکالا جا سکتا ہے۔ کشمیریوں کی ہندوستان دوستی کسی سرٹیفکٹ کی محتاج نہیں ہے۔ تقسیم وطن کے بعد قبائلیوں کے بھیس میں پاکستانی دراندازی کا جس طرح انہوں نے مقابلہ کیا، کشمیر میں علیحدگی پسندی کو کبھی گوارا نہیں کیا، مذہبی بنیادوں پر تفریق کی اجازت نہیں دی وہ روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے۔

کشمیر میں غیرمسلم بہن بھائیوں کو جس طرح نشانہ بنایا گیا اس کے اسباب و علل کی ہم نے شروع میں ہی وضاحت کر دی ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ کشمیر کے مسلمانوں نے اس گھناؤنے کھیل کو سمجھ لیا ہے اور اس لئے وادی میں مساجد کے منبرومحراب سے اب وہ اپنے کشمیری غیرمسلم بہن بھائیوں کو پکار رہے ہیں اور انہیں یہ بھروسہ دلا رہے ہیں کہ وہ پریشان نہ ہوں، اب وادی میں بسنے والوں کی مسلمان اکثریت ان کی حفاظت کرے گی، انہیں کسی سے ڈرنے اور کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ہم اپنے کشمیری بھائی بہنوں کی اس پہل اور پیش قدمی کا دل کی گہرائیوں سے خیرمقدم کرتے ہیں اور مبارکباد دیتے ہیں اور ان سے یہ دست بستہ درخواست کریں گے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے محض سرکار پر بھروسہ نہ کریں بلکہ اب خود آگے آئیں اور ان سفاک جنونیوں کو خود کیفر کردار تک پہنچائیں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو کشمیر ایک دفعہ پھر جنت نظیر بن جائے گا۔

نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسرایمرٹیس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔