دی کشمیر فائلز: کشمیری پنڈتوں کے درد و الم کی داستان

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
دی کشمیر فائلز: کشمیری پنڈتوں کے درد و الم کی داستان
دی کشمیر فائلز: کشمیری پنڈتوں کے درد و الم کی داستان

 

 

آشا کھوسا/نئی دہلی

انیس جنوری1990 کی انتہائی سرد رات میں سری نگر شہر کی مسجدوں سے آنے والے نعروں کی یاد آج بھی بہت سے کشمیری پنڈتوں کو کپکپا دیتی ہے۔جو کبھی جہلم کے کنارے آباد شہر میں آبادتھے۔

ان دنوں بھی کشمیری پنڈتوں کے لیے علیحدگی پسندوں کے جلوس یا جلسے کوئی نئی بات نہیں تھے۔  مگرسنہ 1989 کے موسم گرما میں سینٹرل ٹیلی گراف کے دفتر میں پہلے گرینیڈ دھماکے کے ساتھ ہی کشمیر میں امن  کی تباہی کا آغاز ہو گیا۔

 ان دنوں کشمیری زبان میں لگائے جانے والے نعروں کی نوعیت بھی الگ تھی۔ جو نعرے لگائے جاتے تھے، ان میں ایک نعرے کا مطلب تھا۔ مذہب تبدیل کریں، مریں یا فرار ہو جائیں۔ اسی طرح ان دنوں کشمیری زبان میں ایک نعمہ جاری تھا۔ اس کا مطلب تھا ہم پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں مگرہندو مردوں کے بغیر اور ہندو خواتین کے ساتھ ۔یہ ان دنوں وادی کشمیر میں جگہ جگہ ایک نغمےکی گایا جا رہا تھا۔

راج رانی (تبدیل شدہ نام ) شہر کے مرکز میں واقع اپنے گھر میں اپنی جوان اور خوبصورت لمبے کالے بالوں والی بیٹی میتو (تبدیل شدہ نام) کے ساتھ ایک اندھیرے کمرے میں ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی تھیں۔ ان دونوں کے تحفظ کے لیے ان کے بیٹے اور شوہر نے انہیں اندھیرے کمرے میں بند کر دیا تھا۔

کچھ دیر بعد نعرے بلند ہوتے گئےاورنعر وں کی آواز قریب اور تیز ہوتی چلی گئی۔ انہوں نے ایک ہجوم کو اپنے گھر کی طرف آتے ہوئے دیکھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ میتو کے اغواکرنے کے لیے آرہے ہیں۔ انہوں نے اپنے گدے کے پاس مٹی کے تیل کی ایک بوتل اور ماچس کا ڈبہ رکھ لیا تھا تاکہ خطرے کے وقت اس کا استعمال کریں۔

راج رانی یہ بات جانتی تھیں کہ میتو کو نعروں کے پیچھے پرتشدد نوجوانوں کے ہاتھوں میں جانے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ اس خوفناک رات کے بعد آنے والی صبح کو مذکورہ متاثرہ خاندان نے کشمیرکی خوبصورت وادی سے ہجرت کرلی۔ ٹرک کے پچھلے حصے میں سامان کے ساتھ چھپائی گئی خواتین کے ہمراہ وہ دونوں ماں بیٹی بھی اپنے آبائی علاقے سے نکل پڑیں۔

 

awazurdu

 

ٹھیک اسی طرح جیسا کہ ویویک رنجن راگنی ہوتری کی فلم ’دی کشمیر فائلز‘ میں اس کی منظرکشی کی گئی ہے۔ جہاں شاردا پنڈت اپنےشوہرکےقتل کےبعد اپنے بیٹوں اور دیگر خواتین کو وادی سے باہر لے جاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ بلاشبہ بھاشا سنبلی نے اس فلم میں شاندار اداکاری کی ہے۔

یہ سری نگر کے باربرشاہ علاقے میں ایک انجینئر کے بہیمانہ قتل کی سچی کہانی ہے۔ دہشت گرد اس شخص کو اس کے گھر میں نہیں ڈھونڈ سکے جس کو وہ قتل کرنے کے ارادے سے آئے تھےکیونکہ اس شخص نے چاول کے ایک کنستر میں خود کو چھپا لیا تھا۔ چونکہ کشمیریوں کے گھروں میں چھتیں دو طرفہ کھلی ہوئی ہوتی تھیں۔ ایک پڑوسی نے اس شخص کو چھپتے ہوئے دیکھ لیا اور اس نے دہشت گردوں کواس جانب اشارہ کردیا۔ وہ واپس آئے اور چاول کے کنستر میں چھپےہوئے شخص پر گولیوں کی برسات کر دی۔

ان دہشت گردوں نے جانے سے پہلےاس شخص کی بیوی کو بچوں کی جان بچانے کے عوض خون بھرے چاول کھلائے۔

فلم کا سین ایک عام انسان کا دل دہلا دینے والا ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ کشمیر فائلز نے فلمی دنیا میں ایک طوفان برپا کردیا ہے کیونکہ اس میں مذہب کی بنیاد پر نفرت اور تشدد کی ساخت کو دکھایا گیا ہے۔ یہ سچائی سے ان حالات کو ظاہر کرتا ہے جس نے تین لاکھ کشمیری پنڈتوں کو اپنا گھر، ثقافت، وراثت وغیرہ چھوڑنے پر مجبور کیا تھا؛ اور وہ راتوں رات اپنے ہی ملک میں پناہ گزین بن ہوگئے تھے۔

مجھ پر بھروسہ کیجئے۔ ایک صحافی کے طور پر میں نوے کی دہائی میں سری نگر میں مقیم تھی اور میں نے بہت سے قتل وغارت گری پر اسٹوری کی ہیں اور کچھ میری یادداشت میں محفوظ ہیں۔

فلم میں دکھایا گیا سچ دراصل اس کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ پاکستان کے تربیت یافتہ اور اسلام پسند دہشت گردوں کے زیر اثر کشمیر کی حقیقت اسکرین پر دکھائے جانے کے لیے بہت تلخ اور سخت ہے۔ جو دہشت گردکبھی ہندوؤں کے پڑوسی اور دوست ہوا کرتے تھے۔ ایک خاتون کو اپنے شوہر کے خون میں بھیگے ہوئے چاول کھلائے جانے کے واقعے کے علاوہ، فلم میں چار بڑے حقیقی واقعات دکھائے گئے ہیں۔

awazurdu

 

جنوبی کشمیر میں شاعر سروانند پریمی اور اس کے بیٹے کا بہیمانہ قتل،23 پنڈتوں کا ندی گرام قتل عام اور ایک نوجوان خاتون لائبریرین سرلا ٹکو(اصلی نام) جسے بینڈ آرہ مل (band sawmill ) میں زندہ دو حصوں میں کاٹ دیا گیا تھا۔ جمالیات کو ذہن میں رکھتے ہوئےفلم میں دکھائے گئے تمام قتل حقیقی کے انتہائی قریب یعنی ٹن ڈاؤن ورژن (toned-down versions) ہیں۔

سرلا کو ایک دوست نے دھوکہ دیا اوراسےاجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا۔اگرچہ یہ دردناک منظرفلم میں نہیں دکھایا گیا ہے۔

خبروں کے سامنے آنے کے دوسرے دن میں نے ندی گرام کا دورہ کیا تھا۔ خیال رہےکہ اس وقت کوئی واٹس ایپ گروپس اور انٹرنیٹ نہیں ہوا کرتے تھے۔ وہاں مجھے زیادہ تر مسلمان پڑوسیوں نے بریف کیا جو بے بسی سے رو رہے تھے اور زندہ بچ جانے والے ہندووں کی حمایت کا اظہار کررہے تھے۔

ایک ذہنی طور پر تباہ حال بچ جانے والے ہندو کی دیکھ بھال مسلمان کر رہے تھے۔

دہشت گرد لشکر طیبہ ان دنوں دیہی علاقوں میں راج کر رہے تھے۔ گاؤں والوں کو نیچے کی طرف ایک کول (سوکھے نالے) پر لے گئے اور انہیں گولی مار دی۔ ان میں سے کچھ ابھی تک زندہ تھے اور ان کی چیخیں نکل رہی تھیں، وہ مدد کے لیے پکار رہے تھے۔ بار بار وہ وہ کشمیری زبان میں ہٹے ماجے یعنی آہ میری ماں کہہ رہے تھے۔ 

سرداوراندھیری رات میں کوئی ان تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ یہ پس منظر لوگوں کو سمجھائے گا کہ تقریباً تین لاکھ کشمیری پنڈت30 سال قبل قتل و غارت، عصمت دری، لوٹ مار اور خوف سے بچنے کے لیے وادی چھوڑ کر چلے گئے تھے، فلم دیکھ کر کیوں رو رہے ہیں اور کیوں جذباتی ہو رہے ہیں۔

وہ صرف فلم کے ذریعہ دنیا کو سمجھانے کی کوشش کررہے  ہیں، کیوں کہ کسی نے بھی کشمیری پنڈتوں کی کہانی پر توجہ نہیں دی تھی اور اب تک صرف ان کے درد و غم کو کریدنےکی کوشش کی گئی تھی۔

ہجرت کرنے والے پناہ گزینوں کے خیموں، کرائے کے مکانوں میں رہنے لگے۔ جب کہ بے روزگار افراد اوردیگر بہت سے لوگ جموں اور دہلی کی تھکا دینے والی گرمی میں گھنٹوں کھڑے رہتے تھے کہ وہ اپنے ناموں کو سرکاری ریکارڈ میں درج کروا سکیں۔ انہی میں سے ایک پشکر ناتھ پنڈت جیسے بزرگ تھے( فلم میں یہ کردارتجربہ کار انوپم کھیر نےادا کیا)۔ وہ گرم موسم کو برداشت کرنے کے قابل نہیں تھے اور اپنے بے گھر ہونے کے ابتدائی سالوں میں ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا اور ان کی زندگی ختم ہوگئی۔

تاہم، مایوسی کی اس گھڑی میں بھی ان کشمیری پنڈتوں کی توجہ بچوں کی تعلیم پر مرکوز رہی۔ اس طرح آج یہ کمیونٹی مالی طور پر مستحکم ہے۔  فلم ساز وویک رنجن اگنی ہوتری اس کمیونٹی کے لیے گویا دیوتا بن گئے ہیں۔جسے صرف ان کے عقیدے کے لیے نشانہ بنایا گیا تھا۔ پہلی بار، کمیونٹی بول رہی ہے اور دہائیوں سے چھپے ہوئے اپنے جذبات کو منظر عام پر لا رہی ہے۔

ایک تھری بی ایچ کےاپارٹمنٹ میں رہنے والی ایک کزن کا کہنا ہے کہ بہت پہلے ہی انہوں نے یہ بتانا چھوڑ د یا تھا کہ اس کا خاندان سری نگر میں اپنےتین منزلہ کشادہ مکان میں رہتا تھا۔ جہاں اس کا کاروبار تھا۔انہیں سب کچھ چھوڑ کر یہاں آنا پڑا۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ پڑوسی ان کی باتوں پر یقین نہیں کرتے تھے کہ کیوں کہ ان کے لیے گھر میں رہنا اور گاڑی کا مالک ہونا خوشحالی کی علامت تھی۔انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ گھر میرے اور میری ساس کے پاس موجود تمام سونا بیچ کرخریدا گیا تھا۔

فلم دیکھنے کے بعد وہ خوش ہوگئیں کہ وہی پڑوسی مجھے فون کر رہی ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ کبھی نہیں سمجھ سکےتھےکہ ان پرکیا گزری ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں محسوس کر سکتی ہوں کہ میرے دماغ پر سے بہت بڑا بوجھ ہلکا ہوگیا ہے، بھاری بوجھ ختم ہو گیا ہے۔ کم از کم لوگ میری کہانی جانتے ہیں۔

قارئین کے لیے میں یہ واضح کر دوں کہ میں ایک کشمیری پنڈت ہوں اور اگرچہ میرے اہل خانہ کو اس صدمے سے نہیں گزرنا پڑا۔ میں نے کشمیر میں بطور صحافی خدمات انجام دی ہےاوردیکھا کہ کس طرح عام مسلمانوں کو بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

پھربھی اس فلم کے بعد میرے خاندان میں سے ہر کوئی اس درد، ذلت، اور جان اور عزت کو لاحق خطرات کی ان کہی کہانیاں شیئر کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بچپن میں، اپنے گھر، دوست، کاروبار، خواب اور کھیل کے میدان کو چھوڑ کر دور پردیس چلے گئے تھے۔ جب انہوں نے فلم دی کشمیر فائلز دیکھی تو انہوں نے گویا اسکرین پراپنی کہانی دیکھی، جس میں اسکرین کے ذریعہ ان کے درد کو دکھایا جا رہا تھا۔

میری ایک خالہ جواپنےبیمارشوہرکی دیکھ بھال کر رہی ہیں شاید انہیں یاد ہو گا کہ انہوں نے کس طرح ہچکچاتے ہوئے مجھ سےیعنی اپنی  اپنی بھانجی سے جموں کے زمانہ قیام میں کپڑے کا ایک ٹکڑا مانگا تھا جسے وہ کچن رومال کے طور پر استعمال کر سکتی تھیں۔ وہ ان دنوں اپنے ایک بیٹے اور شوہر کے ساتھ جموں میں ایک ہی کمرے میں رہتی تھی؛ جب کہ انہوں نے سری نگر کے رام باغ میں واقع اپنا خوبصورت مکان انہیں چھوڑنا پڑا تھا۔

دہشت گردوں نے ایک دیوار پر ہاتھ سے لکھی ہٹ لسٹ چسپاں کر رکھی تھی جہاں ان کے ممکنہ اہداف کے نام درج تھے۔ اس ہٹ لسٹ میں ان کے دو بیٹوں کے نام بھی درج تھے۔ یہ ان کے خوابوں کا گھر تھا جہاں انہوں نے30 سال تک شہر کے گنجان آباد علاقے علی کدل میں رہنے کے بعد مرچیں، بیگن اور کشمیری پودینہ کاشت کیا تھا۔ آج ان کے بیٹے این سی آر میں بہت سے فلیٹوں اور مکانات کے مالک ہیں پھر بھی وہ اور اس کے پارکنسن متاثرہ شوہر کو لگتا ہے کہ وہ بے گھر ہیں۔

دی کشمیر فائلز کی کہانی کا ذیلی پلاٹ سیاست کے بارے میں ہے - جے این یو ٹائپ سیاست،، بائیں بازو کے لبرل اور 'سیکولرسٹ' اور لیٹوئنز گینگ(Letuyen’s gang) وغیرہ جیسے کہ ان میں سے کچھ کو کشمیری آزادی کی وکالت کرتے دیکھا گیا تھا اور کچھ سال قبل ہندوستانی منظر نامے پر بڑے پیمانے پریہ نظرآئے تھے۔تاہم کشمیری پنڈتوں کے لیے وہ کسی حد تک اپنی حالت زار کے لیے ذمہ دار ہو سکتے ہیں، تاہم کشمیر فائلز بنیادی طور پر انہی کے بارے میں ہی ہے۔