جو بائیڈن امریکہ کی امیدوں کا مرکز

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-01-2021
 امریکا میں نئی انتظامیہ نئی امیدیں
امریکا میں نئی انتظامیہ نئی امیدیں

 

 پرویزحفیظ / کولکتہ    
شکر ہے تمام خدشات غلط ثابت ہوئے اور بیس جنوری کو واشنگٹن ڈی سی میں جو بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب بخیر و عافیت انجام پذیر ہوگئی۔ پہلے کمالا ہیرس نے نائب صدر کا حلف لیا۔ وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون، پہلی سیاہ فام اور پہلی جنوبی ایشیائی نژاد شخصیت ہیں۔ بائیڈن کے امریکہ کے 46ویں صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی ٹرمپ کے چار سالہ تباہ کن دور اقتدار کا حتمی طور پر خاتمہ ہوگیا۔
ٹرمپ تو رخصت ہوگئے لیکن انہوں نے پورے امریکہ کو نہ صرف بری طرح تقسیم کردیا ہے بلکہ وہ اپنے پیچھے ایک بہت بڑی سیاسی اور معاشرتی خلیج چھوڑ گئے ہیں جو ان کے تخریبی، نفرت انگیز اور نسل پرستانہ نظریات اور انداز قیادت کا ورثہ ہے۔بائیڈن نے اسی لئے اپنے افتتاحی خطاب میں بار بار قومی اتحاد، یکجہتی اور جمہوریت کے استحکام پر زور دیا۔ ''اتحاد کے بغیر امن نہیں صرف تلخی، برہمی اور انتشار ممکن ہے۔''  انہوں نے کہا کہ ملک کو اس وقت سخت ترین چیلنجز مثلاً کورونا وائرس کی ہلاکت خیزیاں (چار لاکھ اموات)، اقتصادی بحران، کروڑوں ملازمتوں کانقصان،لاکھوں بزنس کا خاتمہ،سیاسی انتہا پسندی، سفید فام نسل پرستی اور گھریلو دہشت گردی میں اضافہ وغیرہ کا سامنا ہے۔
بائیڈن کے مطابق ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ کی زخمی روح پر مرہم رکھ کر اسے صحت مند اور ملک کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے انہوں نے قوم کویہ پیغام دیا کہ وہ پوری
طرح متحد ہوجائیں۔
نرم خو اور اعتدال پسند بائیڈن کی تقریر امید، اعتماد، اتحاد، اخوت، مساوات اورانسانیت سے لبریز تھی۔ یہ بلا شبہ ایک عظیم ملک کے سربراہ کی تقریر تھی۔ ان کی تقریرکا ایک ایک لفظ گویا امریکی عوام کے زخمی دلوں پر مرہم کا کام کررہا تھا۔ان کا ہر لفظ ان کے دل سے نکلا ہوا لگ رہا تھا اور اسی لئے ان کی تقریر نے دلوں کو چھوا بھی اور دلوں کو جیت بھی لیا۔وہ جب بول رہے تھے تو امریکی عوام کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔
پچھلے چار سالوں میں ٹرمپ کے زہر میں بجھے الفاظ اور نفرت پھیلانے والے جھوٹ نے امریکہ کی اجتماعی روح کو زخمی کرکے رکھ دیا تھا۔بائیڈن نے ٹھیک ہی کہا کہ حالیہ ہفتوں اور مہینوں نے ہمیں یہ تکلیف دہ سبق سکھایا ہے کہ امریکہ میں سچ اور جمہوریت دونوں پر حملے ہوئے ہیں۔'' ہم میں سے ہر ایک کی یہ ذمہ داری ہے کہ سچ کا دفاع کریں اور جھوٹ کو شکست دیں۔''
 
تاریخ گواہ ہے کہ مطلق العنانیت اور آمریت کی عمارت جھوٹ کی بنیاد پر تعمیر کی جاتی ہے۔ بیسویں صدی میں ہٹلر نام نے جرمنی کا تخت وتاج ہتھیانے کے لئے یہ پرچار کیا تھا کہ یہودیوں اور بائیں بازو کے نظریے کے ماننے والوں نے اگر ملک کی '' پیٹھ میں خنجر'' نہ گھونپا ہوتا تو پہلی عالمی جنگ میں جرمنی کو شکست نہ ہوئی ہوتی۔ یہ اس قدر لغو اور فرضی الزام تھا کہ اسے Big Lie کا لقب دیا گیا۔ ہٹلر نے اقتدار پانے کے لئے'' بڑا جھوٹ ''بولا تھا اور تقریباً ایک صدی بعد ٹرمپ نے اقتدار بچانے کے لئے یہ بڑا جھوٹ بولا کہ یہ صدارتی انتخاب انہوں نے جیتا ہے، ان کے ڈیمو کریٹ حریف جو بائیڈن نے نہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ 2016 کے صدارتی الیکشن کے نتائج کی طرح اس بار کے نتائج میں کسی قسم کے ابہام کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔ امریکہ کا انتخابی سسٹم نہایت پیچیدہ اور گنجلک ہے۔ ہندوستان میں سربراہ مملکت کا انتخاب رائے دہندگان کے براہ راست ووٹوں سے ہوتا ہے۔
 
مضمون کی طوالت کے پیش نظر میں تفصیل میں نہ جاکر صرف اتنا بتادوں کہ امریکہ میں ووٹرز براہ راست صدر اور نائب صدرکا انتخاب نہیں کرتے ہیں۔ یہ کام الیکٹورل کالج کے الیکٹرز کرتے ہیں جنہیں رائے دہندگان منتخب کرتے ہیں۔ جو صدارتی امیدوار 538 میں 270  الیکٹورل ووٹ حاصل کرلیتا ہے وہ صدر منتخب ہوجاتا ہے خواہ اس کے مجموعی پاپولر ووٹوں کی تعداد اپنے حریف کے مجموعی ووٹوں سے کم کیوں نہ ہو۔ اس بظاہر ناقابل فہم نکتے کو سمجھنے کے لئے آپ کی توجہ 2016 کے رزلٹ کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا۔ ٹرمپ کے مقابلے میں ڈیموکریٹ امیدوار ہلیری کلنٹن کو 29 لاکھ (پاپولر) ووٹ زیادہ ملے تھے پھر بھی ٹرمپ کو صدر منتخب کیا گیا کیونکہ انہوں نے 304الیکٹرول کالج ووٹ پاکر ہلیری کلنٹن پر سبقت حاصل کرلی تھی جنہیں صرف 227 ووٹ ملے تھے۔  

اس بار جو بائیڈن نے دونوں محاذ پر کامرانی حاصل کی۔ ان کے الیکٹرول کالج کے ووٹوں کی تعداد 306 ہے جبکہ ٹرمپ کو232 ووٹ ملے۔ بائیڈن کو مجموعی طور پر آٹھ کروڑ بارہ لاکھ اور ٹرمپ کو سات کروڑ بیالیس لاکھ ووٹ ملے۔ یعنی بائیڈن نے ٹرمپ کو 70 لاکھ (پاپولر) ووٹوں سے پچھاڑا۔ اتنے فیصلہ کن نتائج کے باوجود ٹرمپ نے اپنی شکست ماننے سے انکار کردیا تھا۔ کسی امیدوار کے ذریعہ انتخابات کے نتائج کو خواہ وہ اس کے حق میں ہوں یا خلاف، خندہ پیشانی سے قبول کرنااور اقتدار کی پر امن منتقلی آئینی جمہوریت کے بنیادی اصول ہیں۔ لیکن ٹرمپ نے کب اصول و ضوابط کی پیروی کی ہے اور کب جمہوری اقدارکا احترام کیا ہے؟
 
انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کا بے بنیاد الزام لگاکر نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ووٹوں کی گنتی کے دوران اہلکاروں پر دباؤ ڈال کر نتیجہ تبدیل کروانے کی کوششوں سے لے کر عدالتوں میں نتائج کو چیلنج کرنے تک کے تمام حربے استعمال کرنے کے باوجود جب ٹرمپ کو اپنی ناجائز تمنا پوری ہوتی نظر نہ آئی تو انہوں نے نہایت خطرناک راستہ اختیار کرلیا جو امریکہ کے 240 سالہ جمہوری تاریخ میں کسی صدر نے نہیں اپنایا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو مشتعل کرکے محض سڑکوں پر ہی نہیں اتارا بلکہ انہیں  پارلیمنٹ پر چڑھائی کے لئے بھی للکارا۔ ان کی پکار پر ہی ملک کے مختلف صوبوں سے واشنگٹن میں جمع ہوئے سیکڑوں متشدد مظاہرین نے ایوان نمائندگان پریلغار کردی۔ ساری دنیا نے یہ شرمناک واقعہ ٹیلی وژن پر دیکھا کہ کس طرح ملک کے صدر نے ملک کے خلاف ہی بغاوت کردی۔ ٹرمپ نے 6 جنوری کو ''Save America''  کے جذباتی نعرے کے سہارے وائٹ ہاؤس کے باہر ہزاروں  مداحوں کوا کٹھا کرکے اعلان کیا '':  یہ الیکشن ہم نے جیتا ہے اور ہم بھاری اکثریت سے جیتے ہیں۔ ہم نہیں ہارے ہیں ''۔ اس کے بعد ہی مشتعل ہجوم مارچ کرتا ہوا کیپیٹل ہل جا پہنچا اور جمہوریت کے اس پروقار علامت کو اپنے قدموں سے روند ڈالا۔ٹرمپ تین نومبر سے لگاتا ر ایک ہی رٹ لگا رہے تھے کہ ڈیموکریٹ پارٹی نے الیکشن میں بھاری چوری کی ہے۔ ابھی بیلیٹ کی گنتی شروع ہی ہوئی تھی کہ ان کے ایک اشارے پر ان کے لاکھوں شیدائیوں نے سوشل میڈیا پر Stop the Steal نام کی ایک زبردست مہم چلادی۔ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کا ایسا برین واش کیا کہ ان کی اکثریت واقعی اس بات پر یقین کرنے لگی کہ در حقیقت جیت ٹرمپ کی ہوئی تھی لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ذریعہ انہیں فراڈ کرکے ہرایا گیا ہے۔  

 بہر حال ٹرمپ کی کو ئی چال کامیاب نہ ہوئی کیونکہ امریکہ میں طویل اور مستحکم جمہوری نظام اور روایات کی موجودگی کے سبب تمام آئینی اور جمہوری ادارے غیر جانب داری اور دیانت داری سے اپنے اپنے فرائض انجام دینے میں یقین رکھتے ہیں۔ یہ ادارے ملک کے آئین اور جمہوری اقدار کی اطاعت کرتے ہیں اور حکمرانوں کا کوئی بھی غیر قانونی حکم بجا لانے سے انکار کردیتے ہیں۔ جنوری کے پہلے ہفتے میں جب ٹرمپ کے دائیں بازو کے شدت پسند حامیوں نے امریکی پارلیمنٹ (کیپیٹل ہل) کی عمارت پر دھاوا بولا اور تشدداور تخریب کاری کا بازار گرم کیا تو ساری دنیا میں جمہوریت کے قدیم گہوارے میں جمہوریت کی اس پامالی پربے حد تشویش کا اظہار کیا گیا۔ لیکن جب پولیس، انتظامیہ اور سیاسی قائدین نے حالات پر قابو پالیا اور اسی کیپیٹل ہل میں بائیڈن کے انتخاب کی توثیق کی وہ رسم جس میں بلوائیوں کی ہنگامہ آرائی کے سبب رخنہ پڑ گیا تھا، چند گھنٹوں کے بعد کامیابی سے مکمل کرلی گئی تو ساری دنیا نے سکون کا سانس لیا۔
 
تاہم ٹرمپ اور ان کے حامیوں کے کارناموں سے پورا امریکہ سہم ضرور گیا۔اسی لئے بیس جنوری کے دن سیکورٹی خطرات کے پیش نظر واشنگٹن ڈی سی کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا گیا اور پچیس ہزار نیشنل گارڈ تعینات کئے گئے۔
ہر تانا شاہ کی طرح ٹرمپ کوناقابل تسخیر ہونے کا گمان تھا۔ وہ شکست کو اپنی رسوائی سمجھتے تھے اسی لئے جیتنے کے لئے ہر غیر قانونی طریقہ اپنایا لیکن بد دماغ تانا شاہ کو یہ علم نہیں تھا کہ مسکراتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کرلینے سے کوئی شخص رسوا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے بر عکس اس کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہیں یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ شکست سے بہت بڑی رسوائی ان کا مقدر بننے والی ہے۔ اپنی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی وجہ سے وہ امریکہ کی تاریخ میں پہلے ایسے صدر بن چکے ہیں جن کو ایک نہیں دو بارمواخذے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کی وجہ سے خود ان کی پارٹی کے کئی لیڈر ان سے برگشتہ ہوگئے ہیں۔ ان کے سیاسی اور نظریاتی حریف، میڈیا اور امریکہ کے انصاف پسند اور ترقی پسند شہریوں کے لئے ٹرمپ ایک قابل نفریں شخصیت بن چکے ہیں ۔بائیڈن نے عہدہ سنبھالتے ہی سولہ صداتی حکم ناموں پر دستخط کرکے اپنے پیش رو ٹرمپ کے ذریعہ لئے گئے معتصبانہ اور متنازعہ پالیسیوں کا خاتمہ کردیا۔ ان میں مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ کے سفر پر پابندی کا قانون بھی تھا۔بائیڈن نے پیرس ماحولیاتی معاہدے کی بحالی بھی کردی۔ امریکہ کے عوام کو بائیڈن سے بہت سی امیدیں اور توقعات ہیں۔