پیغمبروں کا شہریروشلم،نبیوں کی عبادت گاہ مسجد اقصیٰ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
مسجد اقصیٰ
مسجد اقصیٰ

 

 

یوم قدس پرخصوصی پیشکش

غوث سیوانی، نئی دہلی

مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے لئے اہم مقام کیوں ہے؟ یروشلم یا شہر بیت المقدس مسلمانوں کے لئے اہم کیوں ہے؟ آخر مسجد اقصیٰ کے تعلق سے مسلمانوں اس قدر حساس کیوں ہیں اور اس کے تحفظ کے لئے اپنی جان کی بازی کیوں لگائے رہتے ہیں؟ ان سوالوں کی خاص اہمیت ہے اور ان کا جواب ہر مسلمان کو پتہ ہونا چاہئے۔ اصل میں شہر یروشلم جسے بیت المقدس بھی کہا جاتا ہے، ملک شام کا حصہ رہا ہے جسے مغربی ممالک نے ایک سازش کے تحت کاٹ کر اسرائیل نامی ملک کو وجود بخشا۔ اس شہر میں مسجد اقصیٰ ہے جس پر اب اسرائیل کا کنٹرول ہے مگر ماضی میں اس کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری اردن کی تھی۔

یروشلم کو مسلمان اس لئے خاص مانتے ہیں کہ انبیاء سابقین کی رہائش کا مقام رہا ہے اور آج بھی یہاں بہت سے پیغمبروں کی قبریں ہیں۔ یہاں واقع مسجد اقصیٰ کو انبیاء کرام نے تعمیر کیا تھا اور وہ یہاں عبادت کیا کرتے تھے۔ اسی مقام سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سفر معراج میں آسمان کی جانب عروج فرمایا تھا اور مسجد اقصیٰ وہ جگہ ہے جہاں رسول اکرمﷺ نے شب معراج انبیاء کی امامت فرمائی تھی۔ ابتدا میں یہی مقام مسلمانوں کا قبلہ تھا مگر ہجرت مدینہ کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خواہش پر اللہ نے خانہ کعبہ کو قبلہ قرار دے دیا۔ حالانکہ اس شہر اور اس مسجد کی فضیلت اب بھی اپنی جگہ پر ہے۔ اس شہر کی فضیلت قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے اندر آئی ہے۔

الاقصیٰ کے پس منظرمیں یروشلم شہرکامنظر

یروشلم اور مسجد اقصیٰ کی فضیلت

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور ہم ان کو (یعنی حضرت ابراہیم) اور حضرت لوط کو نجات دی ایک ایسی سرزمین کی طرف کہ جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لیے برکت رکھ دی ہے۔ (الانبیاء) مذکورہ آیت میں سرزمین بیت المقدس کا ذکر ہے۔ اس سرزمین کو بابرکت سرزمین کہا گیا ہے۔ اسی طرح واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم میں مسجد اقصیٰ کا بیان آیا ہے اور اس آیت میں بھی اس سرزمین کے بابرکت ہونے کا بیان ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو ایک رات میں مسجدحرام سے مسجد اقصی تک کہ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھ دی ہے۔ (الاسراء)

مسجد اقصی کے تعلق سے حدیث پاک میں آیا ہے کہ یہ روئے زمین پر خانہ کعبہ کے بعد دوسری مسجد ہے۔ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول اس روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی تو آپ نے جواب دیا، مسجد حرام۔ میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد کون سی مسجد تعمیر کی گئی تو آپ نے فرمایا مسجد اقصیٰ میں نے کہا ان دونوں کی تعمیر کے دوران کل کتنا وقفہ ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا چالیس سال۔

مسجداقصیٰ کا اندرونی منظر

تین مسجدوں میں نمازکی فضیلت

دنیا میں صرف تین مساجد ایسی ہیں جن میں نماز کی خصوصی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ان میں پہلی مسجد حرم کعبہ ہے اور دوسری مسجد اقصیٰ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو اللہ کے رسول سے روایت کرتے ہیں:

حضرت سلیمان نے جب بیت المقدس کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کی دعا کی۔۔ ۔ جب وہ مسجد بنا کر فارغ ہو گئے تو اللہ تعالیٰ سے کہا کہ جب بھی کوئی شخص اس مسجد میں نماز پڑھنے کی غرض سے آئے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو کر نکلے جیسے کہ اس کی ماں نے اس کو جنا ہو۔ مسجد اقصی سے احرام باندھ کر حج کو جانے کی بھی خصوصی فضیلت کا احادیث میں ذکر ہے۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول گرامی وقار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس نے بھی مسجد اقصیٰ سے مسجد حرام تک لیے حج یا عمرہ کی نیت سے احرام باندھا اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے یا اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔ عبد اللہ کو شک گزرا کہ آپ نے ان دونوں میں کون سے الفاظ فرمائے ہیں۔

کب ہوئی مسجد اقصیٰ کی تعمیر؟

علماء اسلام کے درمیان یہ مسئلہ اختلافی ہے کہ مسجد حرام کی تعمیر سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے کی یا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے۔ حالانکہ اس کی تجدید حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی کی تھی۔ ایک دوسری روایت ہے کہا سکی تجدید حضرت یعقوب علیہ السلام نے تھی۔ یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کا نزاع اس بات پر بھی رہا ہے کہ موجودہ الاقصیٰ کمپاؤنڈ کے نیچے اس عبادت گاہ کی دیوار ہے جس کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام نے کرائی تھی۔ یہودی اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ نئے سرے سے یہودی عبادت گاہ تعمیر کریں جب کہ مسلمان انبیاء کرام کی عبادت گاہ کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔