لڑکیوں کی معیاری تعلیم کا نظم کرنا وقت کی ضرورت ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
لڑکیوں کی معیاری تعلیم کا نظم کرنا وقت کی ضرورت ہے
لڑکیوں کی معیاری تعلیم کا نظم کرنا وقت کی ضرورت ہے

 

 

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، نئی دہلی

جھے حامد علی گرلز انٹر کالج کی افتتاح تقریب میں شرکت کا موقع ملا _ یہ کالج تحریک اسلامی ہند کی عظیم شخصیت مولانا سید حامد علی کی یاد میں ان کے صاحب زادے مولانا راشد حامدی فلاحی نے قائم کرنے کا ارادہ کیا ہے۔انھوں نے اپنے وطن (میران پور کٹرہ ، شاہ جہاں پور ، اترپردیش) میں سید حامد علی ویلفیئر اینڈ ایجوکیشنل سوسائٹی قائم کر رکھی ہے۔ فروغِ تعلیم کے میدان میں وہ مختلف سرگرمیاں انجام دیتے رہے ہیں ، مثلاً غریب بچوں اور بچیوں کی مالی امداد ، اسکول فیس کی فراہمی ، اسکول ڈریس کا نظم ، اسکول بیگ کی تقسیم وغیرہ

لڑکیوں کے تعلیمی ادارہ کے قیام کے اپنے والد مرحوم کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے انھوں نے دس برس قبل آبادی سے باہر ایک قطعۂ آراضی خریدا تھا ، پھر اسے زراعتی زمین کے دائرے سے نکلواکر اس کی باؤنڈری بنوائی۔ اب وہ اس پر تعمیرات کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں _ آج انھوں نے اس کے سنگِ بنیاد رکھے جانے کی تقریب منعقد کی تھی۔اس موقع پر انھوں نے مہمانانِ خصوصی کے طور پر مولانا ظہیر احمد صدیقی ندوی اور مولانا محمد طارق ندوی (لکھنؤ) ، مولانا حامد علی ساغر فلاحی (ککرالہ، بدایوں) ، ڈاکٹر رضوان احمد رفیقی فلاحی (دہلی) ، راقم سطور اور دیگر کو مدعو کیا تھا۔

افتتاحی تقریب میں مردوں ، خواتین ، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ سنگِ بنیاد رکھے جانے سے قبل مہمانوں نے مختصر خطاب کیا۔راقم سطور نے درج ذیل نکات کے تحت گفتگو کی :

1ہندوستان کو انگریزوں کے ظلم و تشدد سے آزاد کرانے میں علاقہ شاہ جہاں پور کا نمایاں کردار رہا ہے۔کئی انقلابی شخصیات ، جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ، اسی علاقے سے وابستہ تھیں ۔ مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی ثم فیض آبادی نے شاہ جہاں پور کے میدان کارزار میں داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا۔مجاہد آزادی اشفاق اللہ خاں ، جنہیں انگریزی حکومت نے ان کے ساتھیوں کے ساتھ تختۂ دار پر لٹکادیا تھا ، وہ شاہ جہاں پور ہی کے رہنے والے تھے۔

مولانا سید حامد علی (ولادت یکم مئی 1923) ، جن کا شمار بیسویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں تحریک اسلامی کا عَلَم بلند کرنے والے ہراول دستہ میں ہوتا ہے ، ان کا تعلق بھی اسی علاقہ سے تھا۔ وہ میران پور کٹرہ (شاہ جہاں پور) کے رہنے والے تھے۔ شاہ جہاں پور اور بریلی کے اسکولوں اور مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے کچھ عرصہ اسلامیہ کالج شاہ جہاں پور میں تدریسی خدمت انجام دی۔

 سنہ 1942 میں وہ بیس برس کی عمر میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے تھے۔انھوں نے اسلام کے تعارف و تشریح پر بہت قیمتی تحریری سرمایہ چھوڑا ہے۔ان کی تصانیف میں اسلام آپ سے کیا چاہتا ہے؟

اقامت دین۔ اسلام کا تقاضا ، اسلام ایک دین رحمت ، نماز اور اس کے اذکار ، حج کیا ہے؟ ، تعدد ازواج ، قرآنی اصطلاحات اور علمائے سلف و خلف ، تحریک اسلامی اور برادرانِ وطن اور توحید کے اثرات انسانی زندگی پر خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔

تقابل ادیان (ہندو مت ، جین مت ، سکھ مت ، عیسائیت وغیرہ) پر ان کی متعدد کتابیں ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے ردِّ الحاد پر بھی کئی رسائل لکھے تھے۔ان کا مجموعہ 'توحید اور شرک ' کے نام سے اسلامک پبلیکیشنز لاہور سے شائع ہوا ہے۔ مصری دانش ور اور ادیب سید قطب کی تفسیر 'فی ظلال القرآن' کا اردو ترجمہ ان کے قلم سے سورۂ مائدہ تک شائع ہوا ہے۔

مولانا حامد علی مرحوم ( م1993) کے صاحب زادے مولانا راشد حامدی کی سعادت مندی ہے کہ انھوں نے اپنے والد کی یاد میں ویلفیئر اینڈ ایجوکیشنل سوسائٹی قائم کی ہے اور اس کے ذریعے فروغِ تعلیم کے میدان میں مسلسل کوششیں کررہے ہیں۔ اسلام نے تحصیلِ علم پر بہت زور دیا ہے _ پہلی وحی علم کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیا ہے۔ مسلم بچوں کی تعلیم کا نظم کرنا اور ان کی دینی و اخلاقی تربیت کی تدابیر اختیار کرنا بہت بڑا کارِ خیر ہے۔

لڑکیوں کی معیاری تعلیم کا اہتمام کرنا موجودہ وقت کی سخت ضرورت ہے۔ تمام سماجوں میں عورتوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور انہیں مردوں سے کم تر سمجھا گیا ہے۔ مشہور یونانی مفکر ارسطو کا خیال تھا کہ عورت نامکمل انسان ہے، وہ ناقص العقل ہے۔

سقراط کہتا ہے کہ عورت تمام برائیوں کی جڑ ہے _ یہی حال دیگر مذاہب ، تہذیبوں اور سماجوں کا ہے۔

اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے عورتوں کو مردوں کے مساوی بنیادی انسانی حقوق دیے ہیں۔

اس نے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کا بھی حق دیا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے : " جس کی کوئی لونڈی ہو ، وہ اسے اچھا ادب سکھائے ، اس کی معیاری تعلیم کا نظم کرے، پھر اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے ۔ (بخاری : 5083 ، مسلم : 154)

اللہ کے رسول ﷺ خواتین کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرماتے تھے _ حضرت شفا بنت عبد اللہ کو لکھنا آتا تھا۔

آپ نے ان سے فرمایا کہ وہ حضرت حفصہ کو بھی سکھادیں _ (ابوداؤد : 3887) آپ نے مسجد نبوی میں ہفتے کا ایک دن خواتین کے لیے مخصوص کردیا تھا ۔ (بخاری : 101) * تاریخ اسلام میں بے شمار ایسی خواتین کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے علم تفسیر ، علم حدیث ، علم فقہ، علم لغت و نحو ، علم طب ، شاعری اور دیگر علوم میں منفرد مقام حاصل کیا تھا ۔

دور زوال میں مسلمان علم کے میدان میں پیچھے ہوگئے تو انھوں نے اپنی خواتین پر بھی جہالت مسلط کردی _ اور افسوس اس کا ہے کہ انھوں نے اس کے لیے مذہبی بنیادیں تلاش کرلیں۔ کہا گیا کہ عورتوں کا اصل مقام ان کا گھر ہے ، ان کی آواز کا پردہ ہے ، مسجدوں میں ان کا آنا فتنے کا باعث ہے ، ان میں عقل کی کمی ہوتی ہے ، اگر وہ پڑھنا لکھنا جان لیں گی تو ان کے آوارگی کا شکار ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے ، حالاں کہ یہ باتیں سراسر غلط ہے۔ نصوص میں جو باتیں ملتی ہیں ان کا مخصوص پس منظر ہے۔

عورتوں کی تعلیم ضروری ہے۔ بالکل درست بات کہی گئی ہے کہ ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے ، جب کہ ایک عورت کی تعلیم ایک نسل کی تعلیم ہے۔

اب جب کہ سرکاری تعلیم گاہوں میں سیکولر ، بلکہ دین بیزار تعلیم دی جارہی ہے ، نئی نسل دین و ایمان سے بے بہرہ ہو رہی ہے ، ایسے میں اور بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم ، خصوصاً دینی تعلیم کا نظم کیا جائے ، تاکہ ان کی گودوں میں پلنے والی نسل کے دین و ایمان میں پختگی آئے اور اسکولوں اور کالجوں کا ماحول انہیں اسلام سے منحرف نہ کرسکے۔

حجاب کا مسئلہ ان دنوں بہت گرم ہے۔ریاست کرناٹک کے اسکولوں میں اس پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔اب اس پر سپریم کورٹ میں بحث ہونے والی ہے _ ایسے میں اور بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ لڑکیوں کے ایسے اسکول اور کالج قائم کیے جائیں جن میں لڑکیاں حجاب کے التزام کے ساتھ معیاری تعلیم حاصل کرسکیں میری دعا ہے کہ لڑکیوں کا یہ کالج، جس کا آج سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، خوب پھلے پھولے اور ترقی کے منازل طے کرے ، آمین یا رب العالمین !