اسلام اور روحانیت

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 09-05-2022
اسلام اور روحانیت
اسلام اور روحانیت

 

 

awazthevoic

ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی

استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

ہمارے سماج میں روحانی حکمت کا ایک مقام اور شان ہے۔یہ مشرق ومغرب کے تمام بنی نوع انسانی کو کم ازکم ایک جزء ترکیبی میں مربوط ہونے کا اہل بناتی ہے۔یہ انسان کے اندر جمالیات، اخلاقیات، بلند صفات بشمول اخلاقی اقدار واصول کو فروغ دیتی ہے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں حکمتِ روحانی قوم وملک کو منڈلارہی مصیبتوں اور اچانک پیش آنے والی ہلاکتوں سے بچاسکتی ہے اور اس کی رہنمائی اقدار پر مبنی خوش باش وصحت مند معاشرے کی جانب کرسکتی ہے۔صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں:’’وہ شخص جو اپنے منبع وماخذ سے دور ہو ، وہ دوبارہ اس کی تلاش کرے‘‘۔خدا پاکباز ہے، تمہیں بھی پاکباز رہناچاہئے۔

خدا کسی کو پریشان نہیں کرتا، تمہیں بھی کسی کی ایذاء رسانی سے دور رہناچاہیے۔ وغیرہ وغیرہ

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمارا جسم دن رات مسلسل دوران خون سے بڑھتا اور ترقی کرتاہے ، اسی طرح ذکرِ الٰہی روح کی ترقی میں کردار اداکرتی ہے۔قرآن پاک کا ارشاد ہے:’’بے شک اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتاہے‘‘۔ (۱۳: ۲۸)

یہ بات واضح ہے کہ آئینہ اگر میلا ہوتو وہ حقیقی تصویر نہیں دکھاسکتا، توکیسے وہ شیشۂ دل جو گناہوں کے تاریکی سے ڈھکاہو، یعنی روحانی قوانین کی خلاف ورزی؛ اور وہ دنیاوی خواہشات وارضی نفس پرستیوں کے بادل میں چھپاہو، الٰہی صفات کو آشکارا کرسکتاہے؟

عظیم نبی عیسی مسیحؑ شاید روحانی ترقی کے اسی مرحلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جب وہ فرماتے ہیں کہ:’’نگاہِ خداوندی پاکیزہ دل پر ہوتی ہے‘‘۔

صوفیاء تین اعمال تجویز کرتے ہیں، کم کھانا، کم سونا، کم بولنا اور لوگوں سے کم گھلنا ملنا۔کم کا مطلب مکمل ترک کرنا نہیں ہوتاہے، جو کہ بسااوقات ناممکن ہوتاہے(جیسے کھانے اور سونے میں)، اور ہمیشہ غیر مطلوب ہوتاہے، ہمیشہ اعتدال پسندی ہونی چاہیے۔

انسان کو جینے کے لیے کھانا چاہیے، نہ کہ کھانے کے لیے جینا چاہیے۔ کھانے کا مقصد یہ ہو کہ خداکے احکامات بجالانے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے توانائی حاصل ہو، یہ ایک عملِ عبادت ہے؛اور روحانی بارآوری کو کمزور کرنا گناہ ہے۔سونا صحت کے لیے ضروری ہے، اور یہ انسان پر عائد ایک فریضہ ہے؛ لیکن ایسی سستی وکاہلی، جودیر تک ہمیں بستر پر باقی رکھے، وہ روحانی ترقی اور ذہنی فروغ پر اثر انداز ہوتی ہے۔

سوامی وویکانند کہتے ہیں:’’بھکتی خدا کی شدید محبت کا ہوناہے۔ جب کسی شخص کو اس کا حصول ہوجاتاہے تو وہ سب سے محبت کرتاہے، کسی سے نفرت نہیں کرتا، وہ ہمیشہ کے لیے مطمئن ہوجاتاہے۔ یہ محبت اتنی حقیر نہیں ہوسکتی کہ اس سے کوئی دنیاوی منفعت حاصل ہو،کیونکہ جب تک دنیاوی خواہشات باقی رہتی ہیںاس قسم کی محبت پیدانہیں ہوسکتی‘‘۔

وہ آگے فرماتے ہیں:’’بھکتی کا ایک عظیم فائدہ یہ ہوتاہے کہ یہ آسان ترین ہوتی ہے، اور عظیم خداتک پہنچنے کا سب سے فطری طریقہ ہوتاہے اور اس کے عظیم نقصان کے تناظر میں یہ ہے کہ اس کی کمتر شکل یہ ہوتی ہے کہ ہندومت، یااسلام، یامسیحیت کے کارکنان تقریبًا ہمیشہ ایسے بھرتی ہوتے ہیں جو بھکتی کے ادنیٰ درجے پرفائز ہوتے ہیں‘‘

عارضی فرائض کو روحانیت کا رنگ دے کراسلام کا مقصدصرف یہ ہوتاہے کہ انسان کے روحانی پہلو کو تقویت دی جائے، جو، اس طورپرکہ وہ مادی منافع سے دور رہ کر، صرف خداکی خوشنودی چاہتاہے۔

عظیم صوفی الغزالی نے ہرگز مبالغہ سے کام نہیں لیاجب انہوں نے فرمایا کہ:’’اگر کوئی شخص نماز وروزہ خودنمائی کے لیے کرتاہے ، تو یہ شرک ہے، یہ خود کی عبادت کرتاہے، نہ کہ قادر مطلق اللہ کی، اس کے برعکس اگرکوئی شخص اپنی خود کی بیوی سے مجامعت کرے جو عارضی خواہش کے لیے نہ ہو، بلکہ اس فریضے کی ادائیگی کے لیے ہو جو خدا نے اس پر عائد کی ہے تو وہ تقویٰ اور عبادت کا عمل بن جاتاہے اور جس سے وہ خداکی خوشنودی اور اس کے انعام کا مستحق ہوجاتاہے‘‘

اب ہمیں عقلی طور پر یہ سوچنا چاہیے اور خود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہمیں ایک لاپروا زندگی گزارنی ہے یاایسی زندگی جو دکھ اور تکلیف سے پر ہو۔