ادیتی بھادوری۔
کیا افغانستان میں نظام کی تبدیلی کی تیاری ہو رہی ہے۔ کابل پر قبضے کے چار برس بعد طالبان نے بظاہر ملک پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ مزاحمت کے مراکز تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ افغان اپوزیشن کا بڑا حصہ دنیا بھر میں منتشر ہے۔ سب سے منظم گروہ تاجکستان میں موجود ہے جہاں نیشنل ریزسٹنس فرنٹ کے سربراہ احمد مسعود مقیم ہیں۔ وہ مرحوم تاجک رہنما احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے ہیں جنہیں پنجشیر کا شیر کہا جاتا تھا۔ اسی طرح فرنٹ کے دیگر رہنما سابق انٹیلی جنس چیف امراللہ صالح بھی وہیں موجود ہیں۔ حالیہ عرصے میں کابل میں جامع حکومت کی تشکیل پر بات ہوتی رہی ہے مگر اب نظام کی تبدیلی کی افواہیں زور پکڑ رہی ہیں۔
تحریر کے وقت افغانستان کے لیے متعدد علاقائی ممالک کے خصوصی ایلچی تہران میں ملاقات کر رہے ہیں۔ اس میں پاکستان اور پانچوں وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ روس بھی شامل ہیں۔ ہندستان اس کانفرنس میں شریک نہیں ہے اور افغانستان نے بھی شرکت سے انکار کیا ہے۔ کانفرنس کے دوران پاکستان طالبان مذاکرات کی توقع تھی مگر وہ نہیں ہو سکے۔ ایران کے لیے داؤ بہت بلند ہیں مگر پاکستان طالبان کشیدگی نے ایک بار پھر پورے خطے کو بے چین کر دیا ہے۔ تہران نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ وہ کابل کے مؤقف سے خوش نہیں ہے۔
افغانستان کے زیادہ تر ہمسایہ ممالک نے طالبان کی حکمرانی کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ واحد استثنا حیرت انگیز طور پر پاکستان ہے جس نے طالبان کو جنم دیا تھا۔ نظام کی تبدیلی سے متعلق زیادہ تر اشارے وہیں سے آئے ہیں۔ مگر اس بار پاکستان کو منتشر افغان اپوزیشن گروہوں کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کی حمایت بھی مل سکتی ہے۔
یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان سے بگرام ایئر بیس امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر ایسا نہ ہوا تو طالبان کے لیے برے نتائج ہوں گے۔ اس کے فوراً بعد امریکی میڈیا میں افغان مصنفین کے مضامین شائع ہونے لگے جن میں نظام کی تبدیلی اور اس کے طریقوں کی وکالت کی گئی۔ اس سے خطے میں امریکی موجودگی کی واپسی کی راہ ہموار ہوتی۔
نیشنل انٹرسٹ میں نیشنل ریزسٹنس فرنٹ کے سیاسی بیورو کے سربراہ عبداللہ خنجانی نے ایک مضمون لکھا جس میں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مزاحمتی گروہوں کو مضبوط کرے۔ انہوں نے کہا کہ یہ طالبان مخالف تحریک جمہوری اصولوں سے وابستہ ہے اور زیادہ تر ان سابق افغان فوجیوں پر مشتمل ہے جنہوں نے امریکہ اور اتحادی افواج کے ساتھ طالبان کے خلاف جنگ لڑی تھی اور انخلا کے بعد بھی جدوجہد جاری رکھی۔
اسی طرح فیئر آبزرور میں سابق افغان سفارت کار اشرف حیدری نے لکھا کہ افغانستان میں تقریباً 70 فیصد آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے اور اس بحران کا ذمہ طالبان کو ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ محض امداد اس بحران کا حل نہیں جو نظامی تباہی سے پیدا ہوا ہے۔ سیاسی اور معاشی اصلاحات کے بغیر صورتحال مزید بگڑے گی۔ طالبان خود کو اصلاح نہیں کریں گے۔ بامعنی بیرونی سفارتی اور تزویراتی مداخلت ہی اس چکر کو توڑ سکتی ہے۔
ایسی تحریریں افغانستان میں ایک بار پھر بیرونی مداخلت کی کھلی اپیل ہیں۔ ابتدا میں یہ مطالبات امریکہ سے پوشیدہ انداز میں مداخلت کے لیے تھے مگر اب یہ آوازیں کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ افغان سیکیورٹی فورسز کے سابق سینئر کمانڈر جنرل عبدالرقيب مبارز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام ایک کھلا خط لکھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں مقیم بہت سے سابق افغان فوجی جلاوطنی میں رہنا نہیں چاہتے اور اپنے ملک کی آزادی کے لیے واپس جا کر لڑنا چاہتے ہیں۔ واشنگٹن میں حالیہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ ایسے واقعات کو پوری افغان برادری سے نہ جوڑا جائے۔ انہوں نے لکھا کہ اس بار جنگ کے لیے امریکی فوجیوں کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ افغانوں کو صرف مادی اور سیاسی مدد درکار ہے اور وہ خود لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ سے افغان عوام کی حمایت کی اپیل کی۔
اب یہ باتیں عملی صورت بھی اختیار کر رہی ہیں۔ دسمبر کے آغاز میں افغان اپوزیشن کے گروہوں جیسے افغانستان فریڈم فرنٹ اور نیشنل ریزسٹنس فرنٹ کے ساتھ خواتین تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے کارکن برسلز میں یورپی یونین کے رکن ممالک اور اداروں کے حکام سے ملے۔ اس ملاقات کی سہولت انڈیپنڈنٹ ڈپلومیٹ اور یورپی فاؤنڈیشن فار ڈیموکریسی نے فراہم کی۔ اس اجلاس کی تفصیلات عام نہیں کی گئیں مگر ایک رپورٹ کے مطابق منتظمین کو امید ہے کہ اس سیاسی مکالمے سے افغانستان کے سیاسی سلامتی اور انسانی بحرانوں کے حل تلاش کیے جا سکیں گے۔
اسی دوران افغانستان فریڈم فرنٹ نے اعلان کیا کہ اس نے بدخشاں صوبے کے دارالحکومت فیض آباد میں ایک گوریلا حملے میں طالبان کے تین جنگجو ہلاک کیے۔ یہ تنظیم طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد قائم ہوئی اور مسلح مزاحمت کے ذریعے مختلف سیاسی نظام کے قیام کی خواہاں ہے۔ اس کے مطابق یہ گروہ سابق فوجیوں اور طالبان کے سیاسی مخالفین پر مشتمل ہے۔ طالبان کی جانب سے اس پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔
بدخشاں وہ علاقہ ہے جہاں سے نومبر کے آخر اور دسمبر کے آغاز میں پڑوسی افغانستان میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی کارکنوں پر دو حملے ہوئے تھے۔ اس سے چین اور تاجکستان میں تشویش پھیل گئی۔ تاجکستان جو طویل عرصے تک طالبان سے روابط قائم کرنے سے گریزاں رہا تھا ابھی تعلقات معمول پر لانا شروع ہی کر رہا تھا کہ ان حملوں سے دوطرفہ تعلقات متاثر ہوئے۔
یہ تمام حقائق ایک سمت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آہستہ آہستہ طالبان حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور نظام کی تبدیلی کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ اس بار افغان اپوزیشن جو طویل عرصے تک طالبان کے عروج کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتی رہی ہے اب اسی کے ساتھ مفاہمت کر رہی ہے۔ پاکستان نے نیشنل ریزسٹنس فرنٹ اور افغانستان فریڈم فرنٹ دونوں سے رابطے قائم کیے ہیں اور اکتوبر میں اسلام آباد میں کئی افغان اپوزیشن گروہوں کی میزبانی کی۔ یہی وہ وقت تھا جب طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے دہلی کا دورہ کیا تھا۔
نیو لائنز میگزین کے تم حسین کے مطابق پاکستانی فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ حد اس وقت عبور ہوئی جب طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے دہلی کا دورہ کیا اور ہندستان کے وزیر خارجہ کے ساتھ تصویر کھنچوائی۔ ان ذرائع کے مطابق طالبان کے ہندستان سے بڑھتے روابط کے بعد اسلام آباد نے نظام کی تبدیلی کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔متقی کے دہلی دورے کے دوران ہی افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھی اور پاکستان نے افغانستان کے اندر فضائی حملے کیے۔ یہ کشیدگی وقفے وقفے سے جاری رہی۔
اب طالبان کے ایک اور وزیر نور جلال جلالی جو وزارت صحت سے وابستہ ہیں دہلی کے دورے پر ہیں۔ مختصر عرصے میں طالبان کے تین وزرا کے دورے ہو چکے ہیں۔ ایسے میں افغانستان میں نظام کی تبدیلی کی ضرورت مزید فوری ہوتی جا رہی ہے خاص طور پر آپریشن سندور کے پس منظر میں جس کے بارے میں ہندستانی حکام خبردار کر چکے ہیں کہ یہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ کیا ہندستان کا اس میں کوئی کردار ہو سکتا ہے۔ ہندستان یقیناً مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ افغان عوام کے لیے انسانی امداد کے ساتھ ساتھ ہندستان نرم انداز میں طالبان کو ایک جامع اور وسیع البنیاد حکومت بنانے کی ترغیب دے سکتا ہے جو افغانستان میں استحکام کے لیے نہایت اہم ہو گا۔