عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 21-02-2023
 عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان
عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان

 

 

 

تحریر:علی شاہد دلکش

دراصل وہ زبان جو بچہ اپنی ماں باپ سے سیکھے۔ وہ گھر کی زبان یا اپنی بولی یا ماں کی زبان کہلاتی ہے۔ دنیا میں دو زبانیں ایسی ہیں جو ہر شخص بغیر کسی قسم کا علم حاصل کئے بول یا سمجھ سکتا ہے۔ایک مادری زبان اور دوسری اشاروں کی زبان۔ مادری زبان صرف زبان یا لسّانیت نہیں ہوتی، بلکہ پوری ایک شناخت ہوتی ہے۔ ایک پوری تہذیب، تمدّن، ثقافت، جذبات و احساسات کا حسین امتزاج ہوتی ہے۔

مادری زبان میں خیالات ومعلومات کی ترسیل اور ابلاغ ایک قدرتی اور آسان طریقہ ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کا عمل جو کہ سراسر انسانی ذہن میں تشکیل پاتا ہے، وہ بھی لاشعوری طور پر مادری زبان میں ہی پراسیس ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ انسان خواب بھی مادری زبان میں ہی دیکھتا ہے۔ لہذا انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کا سب سے بہترین اظہار بھی مادری زبان میں ہی ممکن ہے۔ فی البدیہہ اظہار کے لئے بھی مادری زبان کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔

انسان جب رحمِ مادر میں ہوتا ہے، تو اّس کا نظامِ سماعت کام کرنا شروع کردیتا ہے۔ جن آوازوں کو انسان سنتا ہے، اُن آوازوں میں انسانی ذہن کے اندر ماحول کا شعور اور گرامر و قواعد ترتیب پانا شروع ہوجاتے ہیں۔ فہم ِ انسانی کا براہِ راست تعلّق بھی ذہن انسانی اور مادری زبان کے رابطے سے ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ فہمِ انسانی میں فراست، وسعت اور گہرائی صرف مادری زبان میں ہی ممکن ہے۔ القصّہ مختصر سیکھنے اور سکھانے کے لئے آسان ترین زبان، مادری زبان ہی ہے، اِس کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں ہے۔

یونیسکو نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ ترقّی پذیر ممالک کی شرح خواندگی میں کمی کی ایک بڑی وجہ مادری زبان میں تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ ابتدائی تعلیم سے متعلّقہ یونیسکو کی جاری کردی پالیسی دستاویز میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ چھوٹے بچّوں کو ابتدائی 6 سال تک مادری زبان میں تعلیم دی جانی چاہئے، تاکہ جو کچھ بچے نے سیکھا ہے وہ بھول نہ جائے۔ مختصراً یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ زبان جو انسان اپنی ماں سے سیکھے۔ ماں کی نسبت جس کسی چیز ، مادے یا متعلقات سے ہو جاتی ہے اس سے دل کا اور جذباتی رشتہ استوار ہو جاتا ہے۔ یہی انسیت مادری زبان کے ساتھ بھی ہے۔

واضح ہو کہ 21 فروری ان قوموں کیلئے انٹرنیشنل مادر لینگویج ڈے ہے، جنہیں ان کی مادری زبان کی اہمیت کا اندازہ ہو، جنہیں معلوم ہو کہ مادری زبان ان کی پہچان یا شناخت ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے احساسات ، اپنے نظریات کو بآسانی اپنے ہم زبانوں کو سمجھا سکتے ہیں۔اس  تاریخی دن کی شروعات بنگلہ دیش کے کچھ نوجوانوں نے کی جب تاریخ میں پہلی بار اپنی مادری زبان کو تسلیم کرانے کے لیے اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔ 21 فروری ہمیں پھر سے یاد دلاتی ہے کہ ہاں ہم زندہ ہیں اور ہماری خود کی پہچان اور اہمیت مسلم ہے۔

مادری زبان کی اہمیت پر بہت سارے لکھاریوں نے لکھا، برطانوی نوبل انعام یافتہ شاعر اور ڈراما نگار ہرولڈ پینٹر بھی اپنی کتاب میں مادری زبان سے محرومیت کے نتائج و انجام کا تذکرہ کی ہے۔ اس کے علاوہ سرحد پار معتبر ادبی شخصیت رسول حمزہ توف نے اپنی کتاب "میرا داغستان" میں مادری زبان کی حیثیت کو یوں بیان کیا ہے:

 ”میرے نزدیک زبانیں آسمان پر بکھرے ہوئے ستاروں کی حیثیت رکھتی ہیں اور میں یہ نہیں چاہوں گا کہ تمام ستارے ایک دوسرے میں ضم ہوکر ایک بڑے ستارے کا روپ لے لیں کیونکہ اس کیلئے تو سورج موجود ہے لیکن سورج کے وجود کے بعد بھی یہ ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ آسمان پر ستارے چمکتے رہیں اور ہر آدمی کے پاس اس کا اپنا ستارہ ہو۔"

رسول حمزہ توف کے مطابق ہر کسی کے پاس اپنی مادری زبان کا ہونا اور جاننا لازم و ملزوم ہے۔

یونیسکو نے 1999ء میں21 فروری کو دنیا بھر میں موجود مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا جس کی نسبت 21 فروری 1952ء کے ایک واقعہ سے ہے جب مشرقی پاکستان میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دئیے جانے پر فسادات کے دوران دفعہ 144 کے باوجود ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء نے احتجاجی جلوس نکالا جس پر پولیس نے گولی چلا دی اور متعدد مظاہرین ہلاک ہو گئے تھے۔ چار سال بعد بنگالی زبان کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا لیکن  اس کے 19 سال بعد پاکستان کے دو ٹکڑے کر کے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا گیا۔ 21 فروری کو بنگلہ دیش میں 'یوم شہدا" منایا جاتا ہے۔ دو بنگالیوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کو خط لکھے، جس پر یونیسکو نے 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا اور 2010 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے مادری زبانوں کے عالمی دن کو منانے کی منظوری دے دی۔

   ایک لسانی جائزے کے مطابق دنیا بھر میں کْل چھ ہزار آٹھ سو نو زبانیں بولی جاتی ہیں جن کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے 537 زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والے افراد کی تعداد تقریباً پچاس افراد کے قریب ہی رہ گئی ہے اور 46 زبانیں مکمل ختم ہونے کو ہیں جن کو بولنے والا دنیا میں ایک ایک انسان ہی باقی بچا ہے۔ چین کی مْنڈری زبان آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے۔ دوسرے نمبر پر انگریزی ہے اگر اردو اور ہندی کو ایک ہی زبان تصور کیا جائے تو تیسرا نمبر اردو کا ہے لیکن ہندی کو اگر الگ شمار کیا جائے تو عالمی زبانوں کی فہرست میں یہ چھٹے نمبر پر ہے۔ پانچویں نمبر پر بنگالی اور اردو بائیسویں نمبر پر چلی جاتی ہے۔

جیسا کہ ہم جان ہی چکے ہیں کہ پوری دنیا میں قریب قریب سات ہزار زبانیں بولی جاتیں۔ ہر سال 21/ فروری کو کم و بیش ہر زبان کے بولنے اپنی مادری زبان عالمی سطح پر مناتے ہیں۔ اس نسبت مختلف ثقافتی اور سماجی تقریبات کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ جہاں تک عالمی یوم مادری زبان کے منائے جانے کی بات ہے۔ تو عالمی یوم مادری زبان دو زبانوں کے کارکنوں رفیق الاسلام اور عبدالسلام کے دماغ کی اُپج ہے، جنہوں نے سال 1998 میں دنیا کی زبانوں کو معدوم ہونے سے بچانے کے لیے اس دن کو منانے کی سفارش کی تھی۔ مجوزہ دن کی ایک تاریخی اہمیت بھی ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا کے لوگوں کے ذریعہ استعمال کی جانے والی تمام زبانوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے اور اس کو فروغ دینا ہے۔چونکہ گلوبلائزیشن اور ڈیجیٹلائزیشن کے دور میں کئی مقامی زبانیں معدومیت کے دہانے پر ہیں۔ اس لیے ان کے فروغ، اشاعت اور ترقی کے لیے کچھ عملی کاز ہونا ہی چاہئے۔

زبان کے پلیٹ فارم  سے اور متعلقہ زبان کے میدان نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو اس موقعے پر انعام و اکرام دے کر دوسروں کے دلوں میں بھی جذبہ اور کچھ بہتر کرنے کی رغبت پیدا کرنے کی امید کو جلا دی جاتی ہے۔ اس پیرائے میں ہم اردو والے بھی اپنے حلقوں میں اردو زبان و ادب کی نمایاں خدمات کے لیے مختلف خادمانِ اردو کو ایوارڈز بھی نوازتے ہیں تاکہ اردو کی خدمات میں قابلِ  قدر اضافہ ہوتا رہے۔ ویسے بھی ہماری مادری زبان کی شیریں اور لطافت ہونا طشت از بام ہے ۔

 آج نئی نسل کو گاہے گاہے صدر جمہوریہ، نائب صدر جمہوریہ اورو دیگر دانشورانِ قوم و ملت کے ذریعہ یہ سننے کو مل ہی جاتا ہے کہ اردو زبان سے متعلقہ سیاق و سباق کا ہونا اور ماضی میں اردو کی شیریں لطافت اور مشترکہ زبان ہونے کا شرف حاصل ہونا طشت از بام رہا ہے۔ آج بھی اردو زبان میں لکھے گئے اسلاف و بزرگوں کے اقوال، تصانیف و تالیفات اور تخلیقات کو پڑھتے جائیے اور سر دھنتے رہیے سا ہے۔ اہل علم و زبان کی زبان دانی کیا کہنے۔ بقول شاعر

وہ عطردان سا لہجہ میرے بزرگوں کا *

رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو

چونکہ اردو محض ایک بھاشا نہیں ہے بلکہ گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے۔ یہ ہندوستان کی ثقافتی میراث بھی ہے۔ اہل ہند کے مطابق اردو زبان ہمارے بھارت کی ماتر بھاشا 'ہندی' کی سگی بہن بھی تصور کی جاتی ہے۔ بقول منور رانا

لپٹ جاتا ہوں ماں سے اور موسی مسکراتی ہے

میں اردو میں غزل کہتا ہوں، ہندی مسکراتی ہے

         منظر اور پس منظر دونوں ہی اعتبار سے اردو کی لطافت اور مٹھاس کے قائل

سبھی زبان والے نظر آتے ہیں۔ اس کا اظہار عام زندگانی میں گفتگو، تقریر، لیکچرز اور انٹرویوز کے حوالے سے ہوتا رہتا ہے۔ آج بھی پورے ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک کے گوشوں میں یہ شیریں زبان 'اردو' اپنی میٹھی موجودگی کا احساس  یوں دلا رہی ہے کہ

 شہد و شکر سے میٹھی اردو زباں ہماری

 ہوتی ہے جس کے بولے میٹھی زباں ہماری

 حالانکہ اردو کی تاریخ محض چند سو سالہ پرانی ہے تاہم اپنی مٹھاس، نزاکت اور خوبصورت لب و لہجے کی وجہ سے ہماری زبان اردو پوری دنیا میں خوب پہچانی جاتی ہے۔ اس کا دَم بھرنے والوں کی تعداد بے شمار ہے۔دلیل کے طور پر ریختہ کا ادبی پلیٹ فارم کو ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ریختہ ڈاٹ کام کے ویب سائٹ وغیرہ بھی اس کی دھوم کے شواھد ہیں۔ بقول مرزا داغ دہلوی

 اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم، اردو زباں کی ہے

اس زبان نے دنیا کو اعلیٰ درجے کے دانشور، ادیب اور شاعر دیے ہیں۔ ان میں میر تقی میر، مرزا غالب، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، ڈاکٹر محمد علامہ اقبال، پنڈت برج نارائن چکبست اور فیض احمد فیض  و دیگر خاص طور سے پہچانے جاتے ہیں۔ اردو کی ہمہ گیری، اس زبان کی شائستگی اور خوشبوئے شیریں سر چڑھ کر کچھ اس طرح  بولتی ہیں کہ

سلیقے سے ہواؤں میں وہ خوشبو، گھول سکتے ہیں

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

    عالمی یوم مادری زبان منانے والی (اوپر بیان کیے گیے) ان تمام تنظیموں کو ہم سلام کرتے ہیں جن کی وجہ سے آج یہ دن منایا جارہا ہے۔ اس سے نئی نسل کو اردو کی تاریخ اور مستقبل میں اس کی اشاعت و فروغ کے بارے میں عزم کرنے کے مواقع ملیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اردو سے سچا محبت کرنے والے بنیں۔

دوسرے لفظوں میں گفتار اور تقریر کے نہیں بلکہ کردار کے غازی بنیں۔ مثلاً ہم جس شعبۂ حیات سے تعلق رکھتے ہیں خواہ انتظامیہ، عدلیہ، تعلیم، صحافت، تجارت ہو؛ غرض جو جہاں ہے وہ اپنی مادری زبان اردو کو اپنی زندگی میں شامل کریں تاکہ آنے والی نسل بھی اس امانت کی پاسداری کرسکیں۔

اگر ایسا نہیں ہوا تو ہمیں جاننا چاہیے کہ کسی قوم کو اگر ختم کرنا ہو تو اسکی زبان کو ختم کرنے والے اصول کی وجہ سے کہیں اپنی شناخت اور یکائی والی حیثیت بھی ختم نہ ہوجائے! کیوں کہ آج کل اس قسم کا ماحول بنایا جارہا ہے کہ۔ ۔ ۔ بس!!! اس بات کا خیال رہے کہ ہم غیر محسوس طریقہ سے اس کا شکار نہ ہوجائیں۔ آج کا زعفران ماحول ان مقاصد کے لیے تمام حربے کا استعمال ہی نہیں کر رہی ہے بلکہ اس ضمن میں شدت پسندی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔

قابل تشویشناک ہے کہ اس منہ زوری پر نہ قانونی کاروائی ہے نہ سماج کی پابندی! ایسے پراگندہ ماحول میں ہم اردو والے اپنی تہذیب و شناخت کو محفوظ کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہم مرکزی قانونِ حق تعلیم کی تکمیل و تعمیل کے لیے آگے آئیں۔ اس لیے کہ ریاستی حکومت  ہی نہیں حکومتِ مقامی کو لازم ہے کہ وہ چھ سے چودہ سال والے بچوں کے لیے مدارس کا آغاز کریں لیکن دفتر شاہی اور حکو مت کے بیروکریٹس اس سے غفلت و کوتاہی برت رہے ہیں۔ اس لیے کہ ہم خود غفلت و عدمِ معاملات کا شکار ہیں۔

بقول شاعر

 اگر تم چاہتے ہو اردو کو بچانا

میاں اپنے بچوں کو اردو پڑھانا

  ازل سے ظاہر کہ اردو ذریعہ تعلیم میں مذہبی سرمایا سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے اس ذریعہ ہی سے اپنا معاشرہ، ماحول اور اپنی تہذیب از سرِ نو مہذب ہوسکتی ہے اور اب اردو کی شیریں لطافت جو صرف نغموں اور مشاعروں میں سمٹ کر رہ گئی ہے وہ اپنی نئی نسل کی زندگی میں آجائے تو ہماری نئی نسل اس طرح ہوسکتی ہے کہ

وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے

ایسی بولی وہی بولے، جسے اردو آئے

اردو کے تحفظ اور بقا ہی نہیں بلکہ ترویج و اشاعت کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو صرف اسی بات سے مطمئن نہ ہونا چاہیے کہ آج بھی موجودہ تنگ نظر و متعصبانہ ماحول میں ہندی،  تیلگو اور مراٹھی زبان والے اردو کو فیشن سمجھ کر استعمال کرتے ہیں لیکن جب تک اردو زبان سے ذریعہ تعلیم زیادہ سے زیادہ نہ ہوگا اس وقت تک اردو والے اپنی زبان سے بے بہرہ ہی رہیں گے۔ اس کے علاوہ دیگر زبانوں سے تعلیم پانے والے نو نہالوں کے لیے مہارت حاصل کرنا دشوار ہپی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ فکر کا تقاضا ہی نہیں بلکہ دنیا کے سارے ماہرین تعلیم کا مسلمہ و متفقہ فیصلہ ہے کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہی ہونا چاہیے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس پر عمل کریں اور مقامی و ریاستی حکومت کو اس سلسلے میں مستعد بھی رکھے۔ بقول شاعر

میری اردو کے تحفظ کے لیے

ہر گلی میں ایک مدرسہ چاہیے

یہاں مدرسہ سے مطلب ہر محلے میں اردو میڈیم اسکول لیا جاسکتا ہے۔ لہذا پہلی فرصت میں بذریعہ اردو میڈیم والی درسگاہوں کو آباد کرنے اور انہیں فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

  بہرحال اردو ایک عظیم زبان ہے اور اس کا ضمیر و خمیر  ہی ہے کہ اس نے غیر معمولی عظمتوں کو جنم دیا ہے اور یہی اس امر کی دلیل ہے کہ اردو صرف زبان یا تہذیب ہی نہیں بلکہ ایک تحریک اور طرزِ حیات کا بھی نام ہے۔ آئیے اس عالمی یومِ اردو کے دن عہد کریں کہ ہم سب اس تہذیب اور ثقافتی ورثہ کی حفاظت کرنے اور فروغ دینے کے عمل کا حصہ بنیں جو ہماری اپنی پہچان ہے، اور جس کی بدولت بھی ہمارا عزیر ملک دنیا میں پہچانا جانا جاتا ہے۔ بقول شاعر

 ایک ایک حرف کی رکھنی ہے آبرو مجھ کو

 سوال دِل کا نہیں ہے،  میری زبان کا ہے

علی شاہد دلکش۔ شعبہ کمپیوٹر سائنس اینڈ انجینئرنگ، کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج