پروفیسر اخترالواسع
کیسا وقت آیا ہے کہ غیر تو غیر خود اپنے بھی اسلام اور اس کے بتائے ہوئے قوانین کے خلاف محاذ آرائی میں لگے ہوئے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں ایک محترم مسلم خاتون نے سپریم کورٹ میں یہ عرضی داخل کی کہ اسلام میں عورتوں کو وراثت میں مردوں سے کم حق کیوں دیا گیا ہے اور ان کے نزدیک اس غیرمساوی قانون کو ختم کیا جائے اور عورت و مردکو وراثت میں مساوی حقوق حاصل ہونے چاہیے۔
جب کہ میراث کے سلسلہ میں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ مرنے والے شخص کی وفات کے بعد جو اس کے وارثین اس کے ترکہ کے مستحق بنتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ میراث تقسیم ہو جانے کے بعد ہی وہ اپنے اپنے حصہ کے مالک ہوں گے؛ بلکہ شریعت کی رو سے وہ اپنے مورث کی وفات کے ساتھ ہی اس کے ترکہ میں اپنے حصوں کے مطابق مالک ہو گئے، اب وہ مال ان وارثین کی ملکیت ہے۔
اس لئے صحیح شرعی طریقہ یہی ہے کہ مورث کی وفات کے بعد جلد ہی اس کی میراث تقسیم کرکے تمام مستحقین کو ان کے حصے سونپ دیئے جائیں، جب تک تقسیم نہیں ہوتی جو شخص مورث کے ترکہ پر قابض ہو گا، یہ سمجھا جائے گا کہ وہ شخص تمام مستحقین کے حصوں اور ان کی ملکیتوں پر قابض ہے، اس کے پاس مستحقین کے حصے بطور امانت رکھے ہیں اور چونکہ مستحقین نے اپنی مرضی سے امانت نہیں رکھوائی ہے اس لئے اس کی ذمہ داری ہے کہ بعجلت ممکنہ حق داروں کو ان کا حق سونپ دے۔
میراث کی بابت ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ مرنے والے شخص کے مال وجائیداد ہی نہیں بلکہ اس کے تمام مالی منفعت رکھنے والے حقوق بھی اس کا ترکہ ہیں، جیسے اس کی کوئی رائلٹی ہو جو وقفہ وقفہ سے ملتی ہو، اس کی دوکان اور کمپنی کا نام اور ٹریڈ مارکہ ہو جسکی مارکیٹ میں ویلو اور مالیت ہو، یا اس کے شیرز اور دوسرے مالی حصے ہوں، یہ تمام چیزیں اس کا ترکہ قرار پائیں گی اور اس کی وفات کے بعد ان تمام حقوق، مال اور کاروبار وغیرہ میں اس کے تمام وارثین کی ملکیت اور حق ثابت ہو جائیں گے۔
شریعت کی نظر میں میراث کی تقسیم کا مسئلہ کتنی اہمیت رکھتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن وحدیث میں عام طور پر اصولی ہدایات دی گئی ہیں، چھوٹی چھوٹی تفصیلات طے نہیں کی گئی ہیں؛ لیکن صرف چند مسائل میں قرآن نے خود ہی پوری تفصیل بتا دی ہے اور واضح ودو ٹوک انداز میں طے کر دیا ہے۔میراث کی تقسیم بھی انہی مسائل میں سے ہے،
اللہ نے اس میں کسی انسان کو کوئی اختیار نہیں دیا؛ بلکہ خود ہی طے فرما دیا کہ کون کون لوگ وارث ہوں گے اور کن کن کو کتنے کتنے حصے ملیں گے؟ وارثین کی تعیین اور ان کے حصوں کی مقداد دونوں چیزیں اللہ رب العالمین نے خود طے فرما دیں اور ساتھ ہی قرآن میں یہ بھی بتا دیا کہ میراث کی یہ تقسیم اللہ کے حدود ہیں، اور ان حدود سے تجاوز کرنے والوں کے لئے اللہ نے عبرتناک سزا رکھی ہے۔
عورت کا میراث میں حصہ اللہ نے متعین کیا ہے، باپ کی میراث میں بیٹی کا حصہ اور بھائی کی جائیداد میں بہن کا حصہ اللہ کا دیا ہوا مال ہے؛ جب تک وہ مال انہیں دے نہ دیا جائے، ان کا حق برقرار رہے گا اور نہ دینے والا اس مال پر غاصب قرار پائے گا۔
لہٰذا اگر ہم نے خود اپنے والد کی جائیداد میں اپنی بہن کو حصہ نہیں دیا ہے، یا اپنے دادا یا دادی کی جائیداد میں اپنی پھوپھی کو حصہ نہیں دیا ہے، یا ہمارے والد نے اپنی بہن کو حصہ نہیں دیا تھا، تو یاد رکھئے کہ یہ مال ناجائز ہے، یہ دوسرے کا حق ہے جس سے فائدہ اٹھانا اس کی اجازت کے بغیر نا جائز رہے گا۔ اگر ہماری پھوپھی، یا ہماری بہن آج زندہ نہیں رہی تو بھی ان کا وہ حق ختم نہیں ہوگا؛ بلکہ ان کا حصہ اسی طرح باقی رہے گا اور ان کے وارثین اس حصہ کے مالک ہوں گے۔
عورت کی میراث کے بارے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس کو عمر کے ہر مرحلہ میں میراث مل سکتی ہے، چاہے وہ چھوٹی بچی ہو یا بڑی عورت ہو، خاندان میں تنہا ہو یا کئی بھائی بہنوں کے ساتھ ہو، اسی طرح عورت کو میراث اپنے مائیکے سے بھی ملتی ہے اور سسرال سے بھی ملتی ہے، وہ صرف باپ اور شوہر ہی سے نہیں بلکہ ماں، بھائی اور بہن کی میراث میں بھی حصہ پا سکتی ہے۔
اس طرح اس کو یہ حصہ زندگی میں کئی بار مل جاتا ہے۔ میراث کا حصہ مرنے والے شخص کی صرف پراپرٹی میں نہیں بلکہ اس کے چھوڑے ہوئے تمام سامانوں اور تمام مالی حقوق میں بنتا ہے، خواہ زراعتی اراضی ہوں یا رہائشی مکان، بنک بیلنس ہو یا شیئرز اور ٹریڈ مارکہ ہو یا کسی بھی قسم کی مالی منفعت رکھنے والے حقوق۔
اسلام کے قانون میراث کی ایک بنیادی بات یہ ہے کہ کسی بھی وارث کا حصہ اس طرح متعین نہیں ہے کہ ہر حالت میں اس کو وہ متعین حصہ ملتا رہے؛ بلکہ ہر وارث کا حصہ اس بنیاد پر گھٹتا بڑھتا رہتا ہے کہ مرنے والے نے اپنے پیچھے کتنے وارث چھوڑے ہیں؛ البتہ یہ ضرور متعین ہے کہ کسی حالت میں کس وارث کو کتنا حصہ ملے گا۔
جہاں تک میراث میں عورت کے حصہ کی بات ہے تو عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کا حصہ مرد سے کم رکھا گیا ہے؛ لیکن حقیقت میں یہ بات غلط ہے۔
قانون میراث کا تجزیاتی مطالعہ اعداد وشمار کی روشنی میں جو نتیجہ ہمارے سامنے لاتا ہے وہ یہ ہے کہ مجموعی اعتبار سے عورت کا حصہ کمیت اور کیفیت (کوالٹی اور کوانٹیٹی) دونوں سے مرد سے بڑھا ہوا ہے؛ چنانچہ میراث پانے کی ممکنہ صورتوں کا احاطہ بتاتا ہے کہ اکثر حالتوں میں عورت کو مرد کے برابر اور مرد سے زیادہ حصہ ملتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں صرف چار حالتوں میں عورت کا حصہ مرد سے کم ہے اور وہ صورتیں یہ ہیں:
.حقیقی بھائی اور بہن ایک ساتھ ہوں تو بہن کا حصہ بھائی کے حصہ کا آدھا ہوتا ہے۔
ماں اور باپ ایک ساتھ ہوں تو ماں کا حصہ باپ کے حصہ کا آدھا ہوتا ہے۔
. علاتی (باپ شریک) بھائی بہن ہوں تو علاتی بہن کا حصہ علاتی بھائی سےآدھا ہوتا ہے۔
. بیوی کی میراث میں شوہر کا حصہ جتنا ہے، شوہر کی میراث میں بیوی کا حصہ اس کا نصف ہوجاتا ہے۔
میراث کے اول درجہ کے جن مستحقین کو قرآن نے متعین کیا ہے، ان میں مرد صرف چار ہیں جب کہ عورتوں کی تعداد آٹھ ہے، اور قرآن کے بتائے ہوئے چھ قسم کے حصوں میں سے دو تہائی، آدھا اور ایک تہائی جیسے بڑے حصے مرد کے مقابلہ عورتوں کو زیادہ دیئے گئے ہیں، ایسے حصے پانے والی عورتیں دس ہیں اور مرد صرف دو۔ اور ان چھ حصوں کا استحقاق رکھنے والے 23 افراد میں عورتیں 17 ہیں اور مرد صرف چھ عدد۔
میراث کے سلسلہ میں یاد رکھنے کی ضروری بات یہ ہے کہ اس کا گہرا تعلق اسلام کے قانون نفقہ کے ساتھ ہے؛ یعنی عورت کو ایک طرف میراث بھی ملتی ہے اور دوسری طرف اس کے اخراجات اور معاشی ضروریات کی ذمہ داری بھی مردوں پر ہے، اسلام نے ان دونوں کے درمیان توازن رکھا ہے، اس لئے جب عورت کا خرچ دینے والے افراد زیادہ ہوتے ہیں تو میراث میں اس کا حصہ کم ہو جاتا ہے اور جہاں اس کے خرچ کی ذمہ داری اٹھانے والے کم ہوتے ہیں وہاں میراث میں اس کا حصہ بڑھ جاتا ہے، اس متوازن قانون کے پیچھے دراصل یہ حکمت کام کر رہی ہے کہ عورت معاشی طور پر بے دست وپا اور مجبورنہ ہو جائے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)