امیر خسرو کے کلام میں ہندوستانی تہذیب

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 08-09-2022
امیر خسرو کے کلام میں ہندوستانی تہذیب
امیر خسرو کے کلام میں ہندوستانی تہذیب

 

 

آبیناز جان علی

ابو الحسن امین الدین دہلوی جنہیں دنیا امیر خسرو کے نام سے جانتی ہے سات سو سال پہلے کے ایک زبردست اور بے مثال ہندوستانی شاعر ہیں۔ وہ ایک عظیم شخصیت کے مالک ہیں۔  ان میں صوفی شاعر اور موسیقار ایک ساتھ سانسیں لیتے ہیں اور ان کے کلام سے ایک ایسا لاثانی حسن سامنے آتا ہے جو ہندوستا ن کی مشترکہ تہذیب کا خاصا ہے۔ 

امیر خسرو نے فارسی اور ہندوستانی زبانوں کی آمیزش سے ایک نئی زبان کی پرورش کی۔  طبلہ اور ستار کو بھی ان کی ہی ایجاد ماناجاتا ہے۔  شاعروں میں ان سے بڑا مورخ کوئی نہیں گزرا۔  آج تک تاریخ لکھنے والوں میں ان سے بڑا شاعر نہیں ہوا۔  انہوں نے صرف شاعری نہیں کی، اپنے زمانے کی تاریخ نہیں لکھی بلکہ ہندوستانی موسیقی اور سازوں کو بھی ملا کر مالامال کیا ہے۔ 

وہ موسیقی کے مانے ہوئے استاد تھے۔  ان کی شاعری کو موسیقی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔  استادوں اور گائوں کی گوریوں نے اپنی پسند کے راگ میں امیر خسرو کا کلام گایا۔  خسرو کے جیتے جی انہیںشیر مقال، طوطی ہند اور شاعر شیرین بیان مان لیا گیا تھا۔  وہ دربایوں میں درباری، رئیسوں میں رئیس، امیروں میں امیر، شاعروں میں شاعر، صوفیوں میں صوفی، عام آدمیوں میں عام آدمی تھے۔

خسرو کی پیدائش بارہ سو ترپن یعنی تیرھویں صدی کے بیچ میں اور انتقال تیرہ سو پچیس میں ہوا۔  کبیر،تلسی،  میرا بائی اور بابا فرید کو آنے میں ایک صدی اورلگے۔ امیر خسرو کے زنامے میں نہ اردو کا نام اردو تھا اور نہ ہندی کا نام ہندی تھا۔  ان کی ماں راجپوتنی تھیں اور ان کے والد ترک تھے۔  وہ ایٹہ ضلع، قصبہ پٹیالی میں پیدا ہوئے۔  برج بھاشا ان کے زمانے میں رائج عام تھا۔امیر خسرو کی تیسری بڑی مثنوی نہ سپہر میں ہندوستان کی بارہ زبانوں کا ذکر ہے۔  اسی مثنوی میں کہتے ہیں : ہندوستان میرا وطن بھی ہے۔  میری پیدائش کی جگہ بھی ہے۔ یہی وہ ملک ہے جس کی مٹی سے میں پیدا ہوا ہوں۔

مرزا غالب جو ہندوستان کے کسی فارسی شاعر کو نہیں مانتے تھے، امیر خسرو کے آگے سر جھکاتے ہیں اور ان کے پائوں دھو دھو کر پینے میں اپنی شان جتاتے ہیں۔  فرماتے ہیں 

غالب میرے کلام میں کیوں کر مزہ نہ ہو

پیتا ہوں دھو کے خسروِ شیریں سخن کے پائوں

غالب اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے امیر خسرو کے فارسی اور ہندوی کلام میں چھان بین کر کے شاعری کا رنگا رنگ گلدستہ تیار کیا۔ فارسی میں خسرو نے چار لاکھ سے زیادہ شعر لکھے۔  ان میں سے ایک چوٹھائی آج موجود ہے۔  بادشاہوں اور درویشوں نے انہیں سنبھال کر بچایا ہے۔ 

دنیا کے کتب خانوں نے انہیں محفوظ کر رکھا ہے۔  ہندوستانی زبانوں میں ان کے گیت اور بول گائوں گائوں گھوم کر ایسے بکھرے کہ ان کا اصلی حلیہ میں پھر سے جمع ہونا ممکن نہیں۔  امیر خسرو نے ہندوستان کی الگ الگ زمینوں کی سیر کی تھی۔  جہاں رہے، وہاں کی بولی سے، وہاں کے رسم و رواج سے متاثر ہوئے۔  اسی میں نیا قلم لگا کر راگوں میں جوت جگائی اور ’’  گیتوں میں قوالی، قول، قلبانہ، ترانہ، خیالہ، سہیلہ اور بسیط، اور راگوں میں ایمن، سازگیری، عشاق، باخراز اور صولِ فاختہ جیسی تالیں‘‘ شامل ہیں۔

لندن یونیورسٹی کے وحید مرزا کی تحقیق کے مطابق امیر خسرو اپنے بچپن کے بارے میں بتاتے ہیں کہ پانچ سال کی عمر میں جب لوگوں کے دودھ کے دانت بھی ابھی جھڑینہیں تھے، اس وقت سے میری زبان سے شعر ایسے نکلتے تھے جیسے پھول بھرتے ہیں اور سننے والے حیران تھے۔

آپ نے ملتان سے افغانستان کا سفر طے کیا۔  امیر خسرو نے کئی جنگوں میں شرکت کی اور ایسے ہندوستان کے عاشق تھے کہ جہاں جہاں وہ ہندوستان کا ذکر کرتے ہیں ان کی روح وجد میں آجاتی ہے اور ان کے منہ سے پھول جھرنے لگتے ہیں۔  ہندوستان کے باشندوں کی ذہانت، ان کے مذہبوں کے عقیدے، دھرم، جات پات، رسم و رواج، تمام زبانیں، پرندوں، موسموں، پھولوں، پھلوں ہر چیز کے بارے میں شدتِ احساس سے امیر خسرو نے شعر کہے ہیں۔  ایسی مثال کسی دوسرے شاعر میں تیرھویں اور چودھویں صدی میں نہیں ملتی۔

امیر خسرو ساڑھے چار سال ملتان میں رہے۔  وہاں عرب عراقی فنکاروں کی الاپ کو پنجاب سندھ کے لوگ گیتوں سے جوڑا۔ جن قول کو امیر خسرو نے سنگیت کے سانچے میں اور کلاسیکی روپ میں ڈھالا ،آج بھی سات سو سال گزرجانے پر وہ اسی طرز میں گایا جاتا ہے۔ 

وسطی ایشیا جہاں سے امیر خسرو کے باپ امیر صیف الدین لاچین منگول کے حملوں سے بچ کر پناہ لینے ہندوستان آئے تھے، وہاں صدیوں سے امیر خسرو کا کلام پڑھا اور گایا جاتا ہے۔  تاجکستان میں خسرو کے خاص گائک ایک کے بعد ایک نسل میں چلے آتے ہیں۔  شہروں اور قصبوں میں خسرو خوانی کے لئے حلقے بنے ہیں۔

غرہ الکمال ان کا فارسی میں اہم دیوان ہے۔  امیر خسرو نے فارسی کی شاعری میں غزل، مثنوی، قصیدہ، قطعہ اور ربائی کو پانی پانی کردیا۔  وہ ہندی اور اردو کا پہلا شاعر ہیں۔  فرماتے ہیں: ’’ میں ہندوستان کا ترک ہوں۔  میں پانی کی طرح ہندی بولتا ہوں۔  میرے پاس مصر کی مٹھاس نہیں ہے کہ میں تم سے عربی میں بات کروں۔‘‘  امیر خسرو کے کلام میں ایہام کی دلکشی ہے۔  انہوں نے معمولی لفظوں کا استعمال کیا ہے۔  فارسی لکھتے ہوئے بھی ہندوی کے ٹکڑے لے آتے ہیں۔  اسی کوریختہ کہا جاتا ہے۔  امیر خسرو نے سماجی زندگی کے عام پہلو پر پہیلیاں لکھیں۔

برصغیر میں جب تصوف کی بات ہوتی ہے تو ان کا نام فراموش نہیں کیا جاسکتا۔  انہوں نے جو لکھا لوگوں کے دلوں میں اتر گیا۔  امیر خسرو کی دنیا میں دل کو سکون ملتا تھا۔  یہ حضرت خواجہ نظام الدین کی خانقاہی فضا تھی۔  امیر خسرو نے اپنے کلام سے دین کے پیغام کو عام کیا اور دکھی روحوں کے لئے مرہم بنایا۔  خسرو اپنے پیر خواجہ نظام الدین کے ہمدم و ہمراز بھی رہے۔  وہ فرماتے ہیں ’’ایک یہ نظام الدین حسن و جمال کے بادشاہ ہے اور خسرو تمہارے در کا فقیر ہے۔‘‘

مراٹھ واڑہ سے سچائی کی تلاش میں نکلا ایک شہزادہ ہردیو دہلی پہنچا۔  امیر خسرو کی صحبت میں رہنے کے بعد حضرت نظام الدین کا مرید ہوگیا۔  وہ اپنی ڈائری میں لکھتا ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین صوفی مریدوں کو لے کرایک روز شہر سے باہر زیارت کی غرض سے سفر پر نکلے۔  دن ڈھل رہا تھا۔ 

قافلہ کھیتوں پر چل رہا تھا کہ دور سے کسی کسان کی لے سنائی دی جو کھیت کو پانی دیتے وقت پکارتا ہوگا۔ حضرت نے یہ نغمہ بے حد پسند فرمایا اور خسرو سے کہا ’’دیکھتے ہو یہ اپنی زبان میں کس پیار سے ذکر خدا کررہا ہے۔  تم کوئی آیت سنائو۔  خسرو نے فوراً ایک آیت سنائی۔ اـلابذکر اللہ تطمئن القلوب۔  خدا کی یاد سے دل کو اطمینان پہنچتا ہے۔  حضرت خواجہ نے دونوں کو ایک نغمے میں سننے کا شوق ظاہر کیا تو پہلے امیر خسرو نے اور پھر سب صوفیوں نے مل کر ایسا گایا کہ سما بندھ گیا۔  اس وقت تک یہ سازوں کے ساتھ گایا نہیں گیا تھا۔

فارسی، عربی اور ترکی میں شعر کہنے والا امیر خسرو جگہ جگہ کے لوک ریت اور کہانیوں کو اپنے سینے میںسمیٹے، اپنے ہنر کی طاقت دے کر پرندوں کی طرح آزاد فضا میں اڑنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔  یہ گیت ، یہ بول ساون کے بادلوں میں، گائوں کی چوپالوں میں، چکی کے زوروں میں، دوشیزائوں کی امنگوں میں لہراتے ہیں۔  امیر خسرو کی پہیلیاں اور کہہ مکرنیاں بھی بہت مشہور ہیں۔  مثال

وہ آوے تب شادی ہووے

اس بن دوجا اور نہ کوئے

میٹھے لاگیں وا کے بول

اے سکھی ساجن نا سکھی ڈھول

تہذیب انسانی تمدن کی شاعری ہے۔  انسانی تمدن جب ترقی کر کے اپنی شاعری سناتا ہے تو اس میں مختلف رنگ اور مختلف پہلو ضم ہوجاتے ہیں۔  امیر خسرو کی شاعری میں سیر و سفر، میدان جنگ اور محفل رنگ ہے۔  امیر خسرو کے زمانے میں فارسی کا رنگ اس طرح چھایا تھا جس طرح آج کے دور میں انگریزی زبان چھائی ہوئی ہے۔ 

اس لئے امیر خسرو کا کلام بیجاپور دکن سے ترکی تک مختلف زبانوں، زمینوں اور خاندانوں میں کاغذ پر نقل کیا جاتا رہا اور طرح طرح سے گایا سنایا گیا۔  افغانستان کے علمی و ادبی حلقوں نے خسرو کو اس قدر اپنالیا کہ امیر خسرو کا کلام وہاں بڑی محنت سے چھاپاگیا اور لکھا گیا۔  بڑے بڑے افغانوں کا کہنا ہے کہ امیر خسرو ان کی روزمرہ اندگی میں بس گئے ہیں۔  تاجکستان، ازبکستان، ایران اور پاکستان میں امیر خسرو کے لوک گیت، غزل اور قوالی بے حد مقبول ہیں۔

در اصل 1325 میں خواجہ نظام الدین کا انتقال ہوگیا۔ امیر خسرو بنگال سے کانپتے کانپتے دہلی پہنچے۔ شہر کے ہندو اور مسلمان کو اس غم میں ڈوبا پایا۔ اسی غم میں چھ مہینے بعد امیر خسرو بھی وفات پاگئے۔ ہندوستانی شاعری میں عورت اپنے درد بھرے لہجے میں اپنے عشق کا اظہار کرتی ہے۔ خسرو نے بھی اپنے گیتوں میں یہی ریت اپنائی تھی اور آخری دوہا اپنے روحانی رہنما سے جدائی کا نوحہ اسی راگ میں کہا۔ آج تک حضرت نظام الدین کے عرس پر یہی دوہا گایا جاتا ہے۔

گوری سووے سیج پہ مکھ پہ ڈالے کھیس

چل خسرو گھر آپنے، سانجھ بھئی چودیس