ہندوستان : عابد حسن صفرانی کی نگاہ میں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 11-08-2021
جرمی میں نیتاجی سبھاش چندر بوس کے ہمراہ عابد حسین صفرانی کی ایک یادگار تصویر
جرمی میں نیتاجی سبھاش چندر بوس کے ہمراہ عابد حسین صفرانی کی ایک یادگار تصویر

 


ثاقب سلیم،  نئی دہلی 

عابد حسن صفرانی کا شمار اگرچہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں شامل ہونے والے رہنماؤں میں بہت کم ہوتا ہے؛ تاہم وہ اس کہانی کا ایک ناگزیر حصہ ہیں، جس کے ہیرو نیتا جی سبھاش چندر بوس ہیں تھے۔

سنہ 1941 میں سبھاش چندر بوس جب انگریزوں سے چھپ کر جرمنی پہنچنے تو ان کی ملاقات عابد حسن صفرانی سے ہویی جو کے انجینئرنگ کے طالب علم تھے۔

عابد حسن صفرانی ان سے مل کر بہت متاثر ہوے اور وہیں نیتاجی نے بھی عابد حسن صفرانی پر پورا اعتماد کیا۔

جرمنی میں عابد نیتاجی کے ذاتی سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگے۔اس کے علاوہ وہ برلن سے تین ماہ کے سمندری سفرکے دوران نیتا جی کے ساتھ  تنہا رہے۔

آزاد ہند فوج کی تشکیل کے بعد انھوں نے امپھال جنگ کے دوران فوج کی قیادت بھی کی۔

ہم سب آزاد ہند فوج کے بارے میں جانتے ہیں کہ اس نے  جنگ کے ساتھ ساتھ شکست کا بھی سامنا کیا۔

ہم جانتے ہیں کہ عابد کی زیر قیادت فوج نے امپھال میں لڑائی کی اور تبدیل شدہ منظر نامے کے تحت نیتا جی کے حکم سے پیچھے ہٹے۔

فوج کی لچک اور بہادری اب لوک داستانوں کا حصہ بن چکی ہے لیکن بحیثیت قوم ہم اس شخص کو بھول گئے جس نے اس دوران نیتا جی کے سائے کی طرح کام کیا۔

سن 1970 میں عابد نے ہندوستان کی آزادی کے بارے میں تقریر کرتے ہوے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

عابد کا خیال تھا کہ فوج کا ہر یونٹ متحدہ ہندوستان کا نمونہ ہے۔ اس میں بلوچستان ، پنجاب ، آسام ، کشمیر ، تمل ناڈو ، گجرات اور ہر علاقے کے فوجی تھے۔ فوجی مختلف مذہبی گروہوں سے تعلق رکھتے تھے۔اس میں مسلمان ، ہندو ، سکھ اور عیسائی سبھی شامل تھے۔ وہیں اس میں ہر ذات اور ہر زبان کی نمائندگی بھی ہویی تھی۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ فوج کی ہریونٹ قومی یکجہتی کا ایک زندہ نمونہ تھی۔

عابد نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہمارے اپنے مختلف نجی عقائد تھے اور ہماری اپنی مختلف زبانیں تھیں لیکن اپنے مقصد اور اپنے سیاسی عقیدے میں ہم ایک اچھے ، پرعزم اور ناقابل تقسیم تھے۔

عابد کا خیال تھا کہ مذہبی ، علاقائی ، لسانی ، ذات پات اور روایتی اختلافات کو ملک کے چھوٹے چھوٹے سیاسی رہنماؤں نے استعمال کیا۔ایسے لیڈران اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور بڑے قومی مقصد کو کمزور کرتے ہیں۔ لیکن ، جب ان گروہوں نے ایک نظریہ یعنی قومی نظریہ اپنایا تو وہ ایک اکائی بن گئے تھے۔

عابد یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی نے ہم سے تاملین یا ڈوگرہ، پنجابی مسلمان یا بنگالی برہمن ، سکھ یا آدیواسی بننے کو نہیں کہا تھا۔ اس میں کویی شک نہیں کہ ہم وہ سب تھے اور شاید پہلے سے زیادہ سخت تھے، لیکن یہ ساری چیزیں ذاتی تھیں۔

ہم نے اس طرح کے ذاتی گروہوں سے تعلق ختم کر دیا کیونکہ ہندوستان ہمارا مقصد بن گیا تھا اور ہم نے ہندوستان کو عظمت پر قائم کرنے کی کوشش کی۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت ہم ایک دوسروں کو الگ الگ گروہوں میں شمار نہیں کیا کیوں کہ ہم سب متحد ہوگئے ہمیں ہمارا مقصد مل گیا تھا کیوں کہ ہم نے ملک کو گلے لگایا۔ اس کے بدلے میں ملک نے ہمیں اپنا ایک وجود دیا۔ہماری شناخت بن پائی بلکہ بیشتر افراد کے لیے یہ پہلی شناخت بنی تھی۔

عابد کا خیال تھا کہ ہندوستانی ہمیشہ سے انگریزوں سے لڑنا چاہتے تھے اور ملک کو آزاد کرانا چاہتے تھے لیکن ایک مخلص رہنما کے صدا کی ضرورت تھی۔

جیسے ہی نیتا جی کی طرف سے صدا دی دی گئی، ہندوستانیوں نے جو اس وقت تک مذہب ، ذات ، زبان وغیرہ میں بٹے ہوئے تھے، متحد ہو گئے اور اپنا بہت کچھ نیتا جی کی قدموں میں لاکر رکھ دیا۔

ہندوستان، ہندوستان کا خیال ، ہندوستانیت ، متحدہ ہندوستان کا خواب اور ہندوستان کی آزادی کسی بھی فرقہ وارانہ شناخت سے بہت بڑی تھی۔  اور ہماری خواہش یہ تھی کہ دنیا پر یہ ثابت کیا جائے کہ جیسا کہ انگریزوں نے پروپیگنڈا کیا تھا کہ ہندوستان تقسیم شدہ لوگ نہیں ہیں۔

ہندوستان کے مختلف خطے میں بسنے والے افراد یکجا ہوگئے اور دنیا کو یہ ثابت کرنے کے لیے پرجوش تھے کہ یہ 'مختلف' لوگ ایک متحد قوم ہیں۔

ایک قومی نظریہ اور مخلص رہنما ہندوستانیوں کو ایک قوم میں جوڑنے کے لیے کافی تھا۔

ہندوستان کی مٹی میں جنمے عظیم بیٹے اور نیتا جی کے لیے کی تربیت میں رہنے والے عابد حسن کی باتیں ہمارے لیے نہایت قیمتی ہیں۔

آخر میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ہندوستان ہمیشہ متحدہ ریاستوں کا مجموعہ ہمیشہ بنا رہے گا۔ ہمیں ان چھوٹے چھوٹے سیاسی رہنماؤں کو مسترد کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں تقسیم کرتے ہیں ۔

ان کے مقابلے میں اور نیتا جی جیسے مخلص رہنماؤں کی بات پر لبیک کہیں جو اتحاد کی طرف ہمیں بلائیں۔

نوٹ: ثاقبل سلیم مصنف اور تاریخ نگار ہیں۔