سن 1857: مرزا غالب کی زبانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 14-03-2021
غالب 1857 کے دوران   دہلی میں ہی مقیم تھے
غالب 1857 کے دوران دہلی میں ہی مقیم تھے

 

 

ثاقب سلیم/ نئی دہلی

مروجہ بیانئے میں مرزا اسداللہ خان غالب کو سیاسی دلچسپی سے عاری ایک رومانوی شاعر سمجھا جاتا ہے۔ یہ تاثر اس حد تک جازم اور مضبوط ہو چکا ہے کہ ہم اپنے علمی مشاغل کے دوران اکثر اس حقیقت کو صرف نظر کر دیتے ہیں کہ غالب 1857 میں لڑی گئی پہلی جنگ آزادی کے دوران دہلی میں ہی مقیم تھے ۔ اور یہ بات تقریباً وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ اس سے لا محالہ متاثر ہوئے ہوں گے ۔

مرزا غالب اس دوران بلی ماران میں حکیم محمود خان کے گھر میں رہائش پذیرتھے جب انگریزوں نے ہندوستان کے مجاہدین آزادی سے دہلی کو واپس اپنے قبضہ میں لیا تھا ۔ دو دن تک ، اس دوران غالب اپنی بیوی کے ساتھ کھانے اور پانی کے بغیر گھر میں ہی بند رہے ۔ پٹیالہ کے مہاراجہ کے بھیجے ہوئے فوجیوں کی مدد  سے  وہ تیسرے دن اس آفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے لیکن   تمام قیمتی سامان اور زیورات برطانوی فوجی لوٹ کر لے گئے ۔ ان کے زیادہ تر دوست یا رشتہ دار یا تو مارے گئے تھے یا قید کر لئے گئے ۔

ایک دوست کو لکھے گئے خط میں غالب نے لکھا ہے کہ یہاں اس شہر میں میں اپنی اہلیہ کے ساتھ خون کے سمندر میں غرق ہوں۔ میں نے اپنی دہلیز سے باہر قدم نہیں رکھا ہے۔ نہ ہی میں پکڑا گیا ہوں ، نہ کسی نے باہر پھینکا یا جیل میں ڈالا اور نہ ہی میں ہلاک کیا گیا۔ دہلی کے مخدوش حالات کے باعث وہ ہندوستان کی تحریک آزادی کی کھل کر حمایت نہ کر سکے بلکہ انہوں نے انگریزوں کے تئیں وفاداری کا مظاہرہ کیا۔ لیکن نجی خطوط میں وہ ہندوستان کے مجاہدین آزادی کی ’شکست‘ پر ​​افسوس کا اظہار کیا کرتے تھے ۔

غالب نے حکیم غلام نجف خان کو 26 دسمبر 1857 کو خط لکھا "میرے حالات کے بارے میں سوچو۔ میں لکھنا تو چاہتا ہوں لیکن میں کیا لکھوں؟ کیا میں واقعی میں کچھ لکھ سکتا ہوں اور کیا یہ لکھنا مناسب بھی ہے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ اور میں اب بھی زندہ ہیں۔ ہم میں سے کسی کو بھی اس سے زیادہ کچھ اور نہیں کہنا چاہئے۔ ہم یہاں غالب کی لکھی ہوئی ایک نظم پیش کر ہے ہیں جس میں برطانوی فوج کے ہاتھوں ہندوستانی مجاہدین آزادی کی شکست پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس نظم کو انہوں نے اپنے بہنوئی علاؤالدین احمد خان کو لکھے گئے خط میں لکھا ہے ۔ نظم کچھ یوں ہے۔

بس کہ فعال ما یرید ہے آج

ہر سلح شور انگلستاں کا

گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے

زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا

چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے

گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا

شہر دہلی کا ذرہ ذرہ خاک

تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا

علاؤالدین احمد خان کو لکھے گئے ایک اور خط میں وہ لکھتے ہیں ، "اے میرے پیارے ، یہ وہ دہلی نہیں ہے جہاں آپ پیدا ہوئے تھے نہ ہی وہ دہلی ہے جہاں آپ مجھ سے شعبان بیگ کے مکان پر ٹیوشن لیتے تھے یہ وہ دہلی نہیں ہے جسے میں نے سات سال کی عمر میں دیکھا تھا ۔ یہ تو ایک آرمی کیمپ ہے۔ شاہی خاندان کے زندہ بچ جانے والے مرد افراد کو پانچ روپے ماہانہ پنشن مل رہی ہے ۔ عمر رسیدہ خواتین خادمہ بن گئیں جبکہ اور نوجوان دو شیزہ لڑکیاں طوائف بن چکی ہیں"۔