مولانا ظفر علی خان کی نظر میں شری رام تھے ہندوستانیت کی علامت

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 13-10-2021
  شری رام ہندوستانی تہذیب کی علامت:مولانا ظفر علی خان
شری رام ہندوستانی تہذیب کی علامت:مولانا ظفر علی خان

 

 

AWAZ

 ثاقب سلیم، نئی دہلی

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

اہل نظر سمجھتے ہیں اس کوامام ہند 

 اُردو کے مشہور شاعرعلامہ اقبال نے رام کی تعریف میں ایک نظم لکھی تھی۔ عام طورپرعلامہ اقبال پر دو قومی نظرے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ علامہ اقبال حقیقت میں پاکستان میں بابائے قوم کا درجہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے 1908 میں اپنی وہ مشہور نظم 'رام' لکھی تھی،جس کا ایک شعراوپر گزر چکا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تقسیم سے پہلے کے ہندوستان میں کئی مسلم مصنفین نے ہندو دیوتاؤں اور دیویوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر مصنفین مذہب کے بارے میں مغربی نقطہ نظر کے بجائے اپنے راسخ العقیدہ اسلام کے لیے مشہور تھے۔

مولانا ظفرعلی خان کا شماراُردو صحافت کے بانین میں سے ہوتا ہے، وہیں وہ ہندوستان کے معروف مجاہد آزادی تھے۔ ایک اُردو روزنامہ زمیندار کے ایڈیٹر کی حیثیت سے، انہوں نے جدوجہد آزادی کی حمایت میں بڑے پیمانے پر لکھا اور پانچ سال قید کی بھی سزا کاٹی۔

مولانا ظفر علی خان ابتدائی سالوں میں کانگریس کے حامی رہے، پھر وہ بعد کے دنوں میں مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔

سن 2021 میں ہمیں یہ بات ناقابلِ فہم لگتی ہے کہ ایک شاعر، ایک مسلم اور ایک عالم دین جس نے اپنی سیاست کو مسلمانوں سے وابستہ کردیا ہو، وہ ہندو نظریے اور ہندو دیوتاؤں کی تعریف میں لکھ سکتا ہے۔

مولانا ظفرعلی خان نے شری رام کی تعریف کی جب کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ظفرعلی خان پر لکھی گئی شری رام چندر کی نظم، اردو زبان میں شری رام پر لکھی گئی بہترین نظموں میں سے ایک ہے۔ان کے خیال میں شری رام ایک زندہ ہندوستانی تہذیب کی علامت ہیں۔ وہ شری رام کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

نہ تو نقوش سے ہے اور نہ اصنام سے ہے

ہند کی گرمی ہنگامہ تیرے نام سے ہے

مولانا ظفرعلی خان کا ماننا تھا کہ شری رام کے سکھائے گئے اصول ، نظریات اور فلسفے ہندوستانی نوآبادیاتی پروپیگنڈے کی وجہ سے لوگ بھول گئے ہیں۔ جب کہ ہندوستانیوں نے اس کے لیے جدید زمانے کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے، جوانہیں نہیں کرنا چاہئے۔ مولانا ظفرعلی خان نے لکھا:

تیری تعلیم ہوئی نذر خرافت فرنگ

برہمن کو تم گلہ گردشِ ایام سے ہے

 ظفرعلی خان نے لکھا کہ ہندوتہذیب صرف نوآبادیات کے حملے سے بچ گئی تھی کیونکہ لوگ شری رام ، دیوی سیتا اور لکشمن کو نہیں بھولے ہیں۔  انہوں نے زوردیتے ہوئے کہا

نقشِ تہذیب ہنود اب بھی نمایاں ہے اگر

تو سیتا سے ہے، لکشمن سے ہے اور رام سے ہے

طفر علی خان کے چند اشعار یہاں اشتراک کیے گئے ہیں ، صرف یہی ایک مثال نہیں ہے، جہاں ظفر نے شری رام کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ سن 1917 میں لکھی گئی ایک  تحریر میں انہوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں سے محرم منانے اور دسہرہ ہم آہنگی سے منانے کی اپیل کی، مولانا ظفرعلی خان نے دسہرہ کے ذریعے شری رام کی تعلیمات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے لکھا:

 فسانہ رام چندر جی کا سب کو یاد ہے ازبر

انہوں نے کس ترا بنیادِ حق وصدق محکم کی

شادیاد اور مصائب میں نہ رہے وہ مبتلا

برسوں کسی تکلیف کی اس راہ میں پرواہ بہت کام کی

 ایک اور نظم 'ہندو تہذیب' میں، ظفر نے ایک مبلغ کا کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے خطابی انداز میں کہا:

وہ تہذیب اے ہندووں ہو گئی کیا

بجا جسکا ڈنکا تھا دنیا کے اندر

مذکورہ نظم میں انہوں نے موجودہ دور کے ہندوؤں کے کئی مسائل کی بھی نشاندہی کی ہے۔ مولانا ظفرعلی خان نےاس بات پرافسوس کا اظہار کیا کہ ارجن کی بہادری مر چکی ہے، کاشی کی عظمت اور چمک ختم ہو گئی ہے، یہ دولت کہاں چلی گئی، کہ لوگ اپنے ہندو دیوتاؤں کا مذاق اڑاتے ہیں۔

ہندومعاشرے کی مختلف برائیوں کی فہرست شمارکرنے کے بعد انہوں نے ایک شعر میں اس کا حل بھی پیش کیا ہے اور اتفاق سے یہ حل بھی شری رام کی تعلیمات سے اخذ کردہ ہے۔ انہوں نے لکھا تھا۔

حقیقت شناسی کی غار جستجو ہے

سبق تم کو دیں گے شری رام چندر

ایک اور نظم میں مولانا نےان ہندوستانیوں راون کا پیروکار قرار دیا ہے، جو انگریزوں کے ساتھ مل گئے تھے۔ انہوں نے لکھا:

کوئی لیتا ہے منھ سے رام کا نام

مگر کہتا ہے راون ہی خدا ہے

ظفر کو ہندو مذاہب کے بارے میں معلومات زبانی روایات کے ذریعے نہیں ملی تھی، وہ خود ایک تعلیم یافتہ شخص تھے، انہوں نے ذاتی طور پر نہ صرف پنڈت سے والمیکی کی رامائن پڑھی بلکہ اس کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔ اس کےعلاوہ انہوں نے رامائن کے ایک ایکٹ کا ترجمہ منظوم کیا تھا۔ یہ منظوم ترجمہ ان کی شائع شدہ کتاب میں موجود ہے۔

مولانا ظفر علی خان نے یہ تمام تحریریں اپنے وقت کے معروف اردو اخبارات میں شائع کیں اور یہ کبھی بھی ایک مسلم مفکر کی شبیہ سے متصادم نہیں ہوئی۔ ان کے خیال کے مطابق ہندوستان ایک قدیم تہذیب ہے اور جہاں بے شمار علماء ، مفکرین و مصلحین اور حکمران پیدا ہوئے ہیں، جن کا یقینی طور پر احترام کیا جانا چاہیے۔

شاید اسی لیے مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا کہ ہندوستان کے لوگوں کو یہاں کی تنگ نظر سیاست سے درو رکھا جائے ،رام کی تعلیمات کو موجودہ تناظر میں اپنایا جائے اور مذاہب کا باہمی احترام کیا جائے، اس کے بعد ہی ہندوستان سنہری ماضی کی شان واپس لا سکتا ہے۔

نوٹ: ثاقب سلیم مصنف و تاریخ نگار ہیں۔