قرآن و حدیث میں استاد کی اہمیت

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 06-09-2021
علامتی تصویر
علامتی تصویر

 

 

ثاقب سلیم، نئی دہلی

ہر برس 5 ستمبر کو ہندوستان کے اندر 'یوم اساتذہ' منایا جاتا ہے۔

یوم اساتذہ ہندوستان کے سابق صدر ڈاکٹر ایس رادھاکرشنن کی یوم پیدائش کے موقع پر منایا جاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ رادھا کرشنن کی یاد سے زیادہ اس دن کا مقصد اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنا ہے، جو ملک و قوم کے لیے نوجوان ذہنوں کی درست رہنمائی کرتے ہیں۔

ایک باروومنس کالج علی گڑھ کے بانی شیخ عبداللہ سے جب ان کے استاد نے انسان اور جانور کے درمیان فرق پوچھا تو انھوں نے اپنے استاد کو جواب دیا کہ ایک انسان دوسرے انسان کو وہ تمام علم و شعور کی چیزیں سیکھا سکتا ہے جو کہ اس نےخود سیکھا ہے، جب کہ جانور ایسا کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں تعلیم ہی انسانوں کو جانوروں کے مقابلے میں ممتاز کرتی ہے۔

شاید یہی سبب ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں اساتذہ کا مقام سب سے بلند گردانا گیا ہے۔

حدیث کے مطابق پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو اس کا پہلا جملہ یہ تھا کہ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے۔

اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پہلی وحی میں ہی علم پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔

قرآن کی ایک آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ نے انسان کو وہ کچھ سکھایا، جو وہ نہیں جانتا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پہلے قدرتی چیزوں کے بارے میں علم عطا کیا اور پھر اس کی تفصیلات اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ترسیل فرمائی۔

اس میں کوئی شک نہیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک معلم تھے۔

انھوں نے انسانوں کو اخلاقیات، تقویٰ اور صحیح طرز عمل کی تعلیم دی۔

رسول اللہ نے نہ صرف زبانی علم سکھایا بلکہ ان تمام باتوں کو اپنی زندگی میں عملی طور پر کرکے بھی دکھا دیا۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے مطابق تعلیم صرف کتابوں تک رسائی کا نام نہیں بلکہ ایک استاد کو علم دینے کے ساتھ ساتھ رول ماڈل بھی ہونا چاہئے۔

مغربی طرز تعلیم اس کے برعکس ہے، جہاں ایک استاذ کی ذاتی زندگی اس سے قدرے مختلف ہوتی ہے، جس کی وہ کلاس میں بچوں کو تعلیم دیتا ہے۔

اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ استاد کو وہ نہیں ہونا چاہئے جس کی تعلیم دینے سے وہ گریز کرتا ہے، یعنی ان کی زندگی اور ان کے علم میں تضاد نہیں ہونا چاہئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی زندگی میں ثابت کرکے دکھا دیا ہے۔

انھوں نے زبانی تعلیم دینے کے ساتھ مثالوں کے ذریعہ بھی اپنی باتوں کو واضح کیا تھا۔

رسول اللہ نے تعلیم کو سب چیزوں سے زیادہ فوقیت دی ہے۔

ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تھے، وہاں ایک صاحب نماز ادا کر رہے تھے، جب کہ دوسرے شخص لوگوں کو تعلیم دے رہے تھے۔ اس کو دیکھ کر پیغمبر نے کہا کہ وہ شخص اس سے بہتر ہے، جو لوگوں بالخصوں نہ جاننے والوں کو علم سکھا دے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں معلم یعنی استاد بناکر بھیجا گیا ہے۔

وہیں ایک اور روایت کے مطابق وہ لوگ بہتر ہیں جوعلم حاصل کرتے ہیں اور دوسروں کو سکھاتے ہیں۔

قرآن کہتا ہے کہ انسان خود علم حاصل کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے۔

قراآن میں ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے کہ  عالم اور جاہل ہرگز دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ عالم کے درجات بلند کرے گا۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تعلیم کی قرآن و حدیث میں کتنی زیادہ اہمیت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ علم کا حصول اور تبلیغ قرآن میں انتہائی تقدس کا سا درجہ رکھتا ہے۔