اخیر عشرہ میں کس طرح رہیں !

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 22-04-2022
اخیر عشرہ میں کس طرح رہیں !
اخیر عشرہ میں کس طرح رہیں !

 

 

صاحبزادہ ڈاکٹرقاری عبد الباسط

دیکھتے ہی دیکھتے رمضان کا دوسرا عشرہ بھی گزر گیا ۔ شروع رمضان میں ہم نے جس طرح نماز و اذکار اور تلاوت و عبادت میں سرگرمی دکھائی تھی، ہمیں اس سے کہیں زیادہ اس آخری عشرہ میں سرگرم ہونا چاہئے۔ ہمیں اﷲ کا شکر بجالانا اور اس کی اس عظیم نعمت پر احسان مند و ممنون ہونا چاہئے ۔ ہمیں یاد کرنا چاہئے کہ یہ ایسی نعمت ہے ، جسے اﷲ تعالیٰ نے ہمارے لئے ہی مختص کردیا ہے۔

اس سے ایمان والے ہی مستفید ہوتے ہیں ،عام بندے نہیں ۔ بارش ، ہوا ، پانی ، دھوپ ، سردی ، گرمی اوراس جیسی بے شمار اﷲ کی نعمتیں ایسی ہیں جو سب کے لئے عام ہیں ، اس میں اﷲتعالیٰ مومن و کافر کے درمیان تفریق نہیں کرتا مگر رمضان کی برکتوں کی نعمت ایسی ہے جو ہر ایک کے لئے نہیں ، صرف بندۂ مومن کے لئے ہے ، جو اس کے حکم کے مطابق روزہ رکھتا ہے ۔

اﷲ تعالیٰ نے ہمیں رمضان تک پہنچایا ، پہلے و دوسرے عشرے میں عبادت کرنے کی توفیق دی اور اپنی رحمت و مغفرت کی چادریں ہمارے اوپر دراز کیں اور اب ہمیں جہنم سے خلاصی کے عشرہ کا صحت و سعادت کے ساتھ استقبال کرنے کی توفیق دی ہے ، جو بلا شبہ اﷲ کی بڑی نعمت اور احسان عظیم ہے ۔ اس پر اﷲ کا جس قدر شکر بجالایا جائے اور اس کی جتنی حمد و ثناء بیان کی جائے کم ہے : -۔۔

مرحبا اہلا و سہلا بالصیام ، یا حبیبا زار نا فی کل عام

 فاغفر اللہم ربی ذنبنا ، ثم زدنا من عطایاک الجسام

 خوش آمدید اے ماہِ صیام ، ہر سال ہماری زیارت کرنے والے اے محبوب، تو اے اﷲ اے میرے پروردگار میرے گناہوں کو بخش دے اوراپنے بھرپور عطیے میں اضافہ فرما ۔

بہت سے دل ایسے تھے جنھیں اس ماہ مبارک کی ملاقات کا اشتیاق تھا مگر اس کی آمد سے قبل ہی وہ عالم دنیاسے عالم برزخ چلے گئے، ہم ان سب کے لیے مغفرت اوردرجات کی بلندی کی دعاکرتے ہیں ، بہتوں نے تمنا کی اور اس ماہ میں روزہ رکھنے اور تلاوت و اذکار میں مشغول رہنے کا ارادہ کیا مگر توفیق خداوندی ان کے شامل حال نہیں رہی اور آج وہ بیڈ پر پڑے اور حسرت وندامت کے ساتھ اس کے شب و روز کا نظارہ کررہے اور اپنی سابقہ کوتاہیوں پر کف افسوس مل رہے ۔ -= ان کے شب و روز طبی آلات کے زیر سایہ کٹ رہے اور ان کے دلوں کو تسکین پہنچانے والے کلمات اذکار و ادعیہ و تلاوت و تسبیح کے بجائے ڈاکٹروں و نرسوں کے نصائح بن رہے ہیں ۔ اﷲ کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے ہمیں رمضان کا استقبال کرنے والا بنایا ، اس کے ابتدائی دو عشروں میں عبادت کی توفیق دی اور اب تیسرے عشرے میں صحت و سلامتی کے ساتھ داخل کردیا ہے ۔ ہمیں اس نعمت کبریٰ پر اس لئے بھی شکر گزار ہونا چاہئے کہ شکر سے نعمتیں باقی رہتی اور اس میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اس آخری عشرہ میں بطور خاص ہمیں جن اُمور پر توجہ دینے اور اسے پورے اہتمام سے گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے ، اس میں سرفہرست یہ ہیں : --۔

ہم اپنے اور اپنے خالق کائنات کے درمیان کئے گئے عہد وفاء کی تجدید کریں ، اپنے عزم و ارادوں میں پختگی پیدا کریں اورطاعت و بندگی ، عبادت و ریاضت اور نیکی و بھلائی کے راستے پر قدم آگے بڑھاتے رہیں ، ہمیں کچھ اندازہ نہیں کہ ہماری زندگی کتنی ہے اور کل ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے ، اگر ہم کل نہ بھی رہے اور رمضان کی آئندہ شب جس میں شب قدر کا بھی غالب امکان ہے ، نہ پاسکے تو محض نیت کی وجہ سے ہمیں ان راتوں کی نیکیوں کا ثواب مل جائے گا ، بشرطیکہ ہماری نیت خالص اور ہمارا ارادہ سچا و پختہ ہو ۔

 آخری عشرہ کے شب و روز رمضان کے بقیہ دنوں سے زیادہ بابرکت و عظمت والے ہیں ، اس لئے ہمیں قیام لیل اور تہجد کا خاص اہتمام کرنا چاہئے ، سیدہ عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے ، وہ فرماتی ہیں : -۔۔

 رسول اﷲ اخیر عشرہ میں اتنی کوشش کرتے ( عبادت کرتے ) جتنی کوشش دیگر ایام میں نہیں کرتے تھے ‘‘۔(مسلم) سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ ہی کی ایک دوسری روایت ہے : --۔

- جب آخری عشرہ داخل ہوتا تو رسول اﷲ تہبند کس لیتے ، رات کو زندہ کرلیتے اور گھر والوں کو جگادیتے تھے۔ (بخاری، مسلم)

صحیح روایتوں کے مطابق اسی عشرے میں شب قدر کا امکان ہے جو ایک ہزار ماہ سے افضل ہے ۔

- سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا : رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرو ۔(بخاری)

 آخری عشرہ میں ہمیں اعتکاف کرنے کا بھی اہتمام کرنا چاہئے کہ یہ بہت بڑی عبادت ہے ، اعتکاف میںبندہ سراپا عبادت کے اندر ہوتا ہے ، اس کی نیند اور بیداری ، نشست و برخواست اور ہر نقل و حرکت ، عبادت میں شمار کی جاتی ہے ۔ نبی کریم نے اپنی زندگی میں اس کی پابندی کی اور اُمت کو خاص اہتمام کے ساتھ اس کی طرف توجہ دلائی ہے : ۔۔

سیدہ عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم رمضان کے آخری عشرہ میں اپنی وفات تک اعتکاف فرماتے رہے ، آپ کے وصال کے بعد آپ کی ازواج مطہرات بھی ( ہمیشہ رمضان کے آخری عشرہ میں ) اعتکاف فرماتی رہیں۔(بخاری ومسلم) 

اس عشرہ میں ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہماری زبان سے وہی نکلے جس سے اﷲ خوش ہو ، ہمارے اعضاء و جوارح سے وہی افعال صادر ہوں جو اﷲ کی مرضی ہو ، ہماری زبان بے کار و لا یعنی باتوں سے محفوظ رہے ، یہاں تک کہ اگر کوئی گالی دے ، برا بھلا کہے ، یا اشتعال انگیزی کرے تو بھی وہ اس کی باتوں کا ترکی بترکی جواب دینے سے گریز کرے اور اپنی زبان سے یہی نکالے کہ میں تو روزے سے ہوں ۔ روزہ صرف کھانے پینے اور جنسی خواہشات سے رکنے کا نام نہیں بلکہ افضل ترین روزہ وہ ہے جس میں لا یعنی باتوں سے بھی رکا جائے اور اسے صرف خیر میں ہی استعمال کیا جائے ۔

اس اخیر عشرہ میں ہمیں اﷲ کی طرف رُجوع کرنا اور وقت گزر جانے سے پہلے تمام گناہوں سے تو بہ کرلینا چاہئے ، رمضان میں بھی اگر ہمیں توبہ و استغفار کی توفیق نہیں ہوسکی تو پھر کب اس کی توفیق ہوسکتی ہے۔

سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رمضان جب داخل ہوا تو رسول اﷲ نے فرمایاکہ یہ مہینہ تمہارے پاس آچکا ہے ، اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے ، جو اس سے محروم رہا وہ پورے خیر و بھلائی سے محروم رہا اور اس کے خیر سے محروم رہنے والا وہی شخص ہے جو بالکل ہی محروم و تہی دست ہے۔(ابن ماجہ)

اس کے علاوہ بھی بہت سی عبادتیں اور بہت سے حقوق ہیں ، جنھیں فوراً ادا کرنے کی فکر کرنی چاہئے ، مثلاً اس مبارک مہینے کے ان آخری ایام میں بطور خاص وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے ، فقیروں ، مسکینوں ، بیواؤں ، یتیموں ، مطلقہ خواتین ، نادار افراد ، قید خانوں میں بند افراد کے خاندان والوں اور غریب خاندان کی بچیوں کی شادی کرانے کے لئے ہمیں آگے بڑھنا چاہئے ، دین کی حفاظت کے قلعے اور اشاعت اسلام کے ستون سمجھے جانے والے دینی مدارس کی اعانت کی جانی چاہئے اور صرف فرض زکوٰۃ کی ادائیگی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ نفلی صدقات و خیرات بھی سخاوت کے ساتھ کرنی چاہئے کہ رسول اﷲ یوں تو سخی تھے ہی مگر رمضان میں آپ کی سخاوت بے مثال اور آخری عشرہ میں تیز و تند آندھی کے مانند ہوجاتی تھی ،سیدناعبد اﷲ بن عباس ؓسے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ لوگوں میں سب سے زیادہ خیر کے اندر سخاوت کرنے والے تھے اور آپ سب سے زیادہ سخی رمضان میں ہوتے تھے ، جبریل ؑ رمضان کی ہر رات میں آپ سے ملتے تھے تو آپ ان کے سامنے قرآن پیش کرتے تھے ( سناتے تھے ) اور جب آپ کی ملاقات جبریل ؑسے ہوتی تو خیر کی چیزوں میں آپ کی سخاوت تیز و تند آندھی کے مانند ہوجاتی تھی ۔(بخاری ومسلم)

ہمیں چاہئے کہ اس عشرہ میں ہم سماج کے غریب طبقہ کے دلوں میں فرحت و انبساط پیدا کریں ، عام لوگوں کے ساتھ محبت وہمدردی کے جذبات کو فروغ دیں ، اسلامی اقدار کو رواج دیں ، مالداروں اور غریبوں کے درمیان تعلقات کی استواری و بہتری کی مثال قائم کریں ، اس عشرہ میں ہماری یہ کوشش بھی ہونی چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ ہم انفرادی افطار کرانے کا اہتمام کریں اور اجتماعی بھی ، غریبوں میں عید کے کپڑے تقسیم کریں اور قبل از وقت صدقۂ فطر محتاجوں تک پہنچادیں اور نام و نمود کے لئے افطار پارٹیوں کا اہتمام کرنے یا اس میں شرکت سے اجتناب کریں ۔

جہاں مالداروں اور صاحب حیثیت و منصب افراد ہی کو مدعو کیا جاتا اور ناداروں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کیونکہ اﷲ کے نبی نے ایسی پارٹیوں کو بدترین دعوت قرار دیا ہے جس میں مالداروں کو مدعو کیا جائے اور محتاجوں کو نظر انداز کردیا جائے جبکہ ہمیں اندازہ نہیں کہ مدعو کئے جانے والے معتوب خداوندی ہوں اور نظر انداز کئے جانے والے ہی محبوب و مقرب بارگاہ ہوں : نگاہ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو یہ بے کلاہ ہے سرمایۂ کلہ داری اس عشرہ میں ہمیں صلہ رحمی اور عائد حقوق کی ادائیگی پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ، ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے نفس کا محاسبہ کریں ، اﷲ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں ، زیادہ سے زیادہ ثواب کمانے کے متلاشی رہیں اور عمل صالح کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں ۔

 یہ ہم سب جانتے ہیں کہ اپنی کسی محبوب ترین ہستی کو الوداع کہتے ہوئے انسان کے جذبات کیا ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک کا یہ عظیم اور برکتوں والا مہینہ بھی اب ہم سے رخصت ہوا چاہتا ہے ۔ یہ مہینہ صالحین اور متقین کے نزدیک محبوب بلکہ محبوب ترین تھا ، یہ لوگ جب تصور کرتے ہیں کہ تراویح وتہجد کا مہینہ اب رخصت ہورہاہے ، روزے اور قرآن کامہینہ اب جارہا ہے ، وہ مہینہ جو تمام مہینوں کا سردار ہے جس کی تمنا رسول اکرم نے بھی کی ، صحابہ وتابعین اور سلف صالحین نے بھی کی اور جس مہینہ میں سب سے زیادہ لوگوں کی مغفرت ہوتی ہے ، اب یہ ہم سے جدا ہونے والا ہے تو اس تصور سے ہی آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں اور دل رونے لگتا ہے ۔

 اب یہ مبارک مہینہ اپنے اختتام پر ہے ، اگلے سال جب رمضان کی یہ رونقیں ہوں گی تو نہ جانے ہم کس حال میں ہوں ، دنیا میں صحت وعافیت کے ساتھ زندہ رہیں یا کسی اور عالم میں منتقل ہوجائیں تو آئیے اس محبوب ترین اور افضل ترین مہینہ ، رمضان المبارک کو اپنے آنسوئوں کے نذرانے کے ساتھ رخصت کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اے اللہ ! تو اس مہینہ کو ہمارے جق میں گواہ بنا ، ہمارے خلاف گواہ نہ بنا

 اس لئے کہ کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا اور کوئی جگہ بھی ایسی نہیں ہوتی کہ جس وقت اور جس جگہ انسان کوئی عمل کرے مگر یہ کہ قیامت کے دن یہ جگہ اور یہ وقت اس کے بارے میں گواہی دیں گے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں زمین کے بارے میں ارشاد فرمایا:۔۔

 اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی کیونکہ تیرے رب نے اس کو اس کا حکم دیاہے ۔(الزلزال4،5)

 قیامت کے دن زمین گواہی دے گی ، اپنی خبریں اللہ تعالیٰ کو سنائے گی اور رسول اللہ نے بتایا کہ اس کی خبریں یہ ہوں گی :۔

بے شک اس کی خبریں یہ ہونگی کہ وہ ہر بندہ اور بندی کے بارے میں گواہی دے گی کہ اس نے اس کی پشت پر کیا کارنامے انجام دیئے ، وہ کہے گی اس نے فلاں دن فلاں کام کیا ، پس یہی اس کی خبریں ہیں ۔(ترمذی)

 اسی طرح قرآن کے بارے میں صحیح مسلم میں رسول اللہ کا یہ ارشاد موجود ہے کہ : ۔۔

قرآن تمہارے حق میں گواہ ہوگا یہ پھر تمہارے خلاف ۔

 رمضان کا معاملہ بھی یہی ہے کیونکہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن قرآن اور روزے بندہ کے لئے شفاعت کریں گے ۔

 رمضان کا مبارک مہینہ ، اس کے دن اور اس کی راتیں یہ سب گواہ ہیں، بعض خوش نصیب وہ ہوں گے جن کے حق میں یہ رمضان گواہی دے گا اور ان کے لئے شفاعت کرے گا اور بعض بدنصیب وہ ہوںگے جس کے خلاف یہ گواہی دے گا کہ ان لوگوں نے میرے حقوق ادا نہیں کئے ، یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین یہ دعائیں کیا کرتے تھے : ۔۔

 اے اللہ ! رمضان کے مہینہ کو تو ہمارے حق میں گواہ بنا ، ہمارے خلاف گواہ نہ بنا ۔

 قرآن وحدیث سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر عبادت کے اختتام پر کچھ نہ کچھ کلماتِ استغفار ضرور پڑھ لیا کریں ، چاہے وہ عبادت ، فرائض وواجبات میں سے ہو یا سنن ونوافل اور مستحبات میں سے ، اس لئے کہ ان اعمال کی ادائیگی میں جو کمی واقع ہوجاتی ہے، اس کو استغفار کی کثرت سے پورا کردیا جاتا ہے ، تو آئیے ! اس مہینہ کو خلوص دل کے ساتھ استغفار کی کثرت سے رخصت کریں تاکہ اس میں جو کوتاہیاں ہم سے ہوگئی ہوں ، اللہ تعالیٰ استغفار کی برکت اور اپنے فضل وکرم سے انہیں معاف کردے۔