پٹھان لڑکیوں نے لڑی تھی ہندوستان کی جنگ آزادی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 24-03-2022
پٹھان لڑکیوں نے لڑی  تھی ہندوستان کی جنگ آزادی
پٹھان لڑکیوں نے لڑی تھی ہندوستان کی جنگ آزادی

 

awazthevoice

 

 ثاقب سلیم،نئی دہلی

قومی جدوجہد اورتحریکیں اکثراس کی مرد قیادت سے پہچانی جاتی ہیں،جہاں یا توکوئی عورت ہی نہیں ہوتی یا پھران کو زیادہ ترحاشیہ پر رکھا جاتا ہے۔ہندوستانی جدوجہد آزادی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ پھر بھی ہمیں ان خواتین کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے جدوجہد آزادی کو تقویت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

 یہ1931کا سال تھا، گاندھی ارون معاہدے کے بعد زیادہ تر قوم پرست رہنما جیل سے باہر تھے، لیکن شمال مغربی سرحدی صوبے کے خدائی خدمتگار  کے رہنما خان عبدالغفار خان ابھی تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے اور ان کے پیروکار بھی جیل میں تھے۔ ہر جگہ قوم پرست رہنماوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

 خدائی خدمتگار نے برطانیہ کی جیلوں میں بند قوم پرست رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے اتمانزئی(Utmanzai) میں ایک میٹنگ بلائی تھی۔ اس میٹنگ کو روکنے کے لیے برطانوی فوج بھیجی گئی۔ فوجیوں نے  میٹنگ  روکنے کا حکم دیا لیکن خدائی خدمتگارسے وابستہ افراد نے اسے نہ مانا۔ توقع کے مطابق، فوجیوں نے نہتے مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔

 جب وہ بھاگنے لگے تو وہاں ایک نوجوان پٹھان لڑکی ملی، جو گولی چلانے والے سپاہیوں کی طرف چلنے لگی۔ ان کے مرد ساتھی اسے ایسی حماقت کرنے سے روکنے لگے۔ انہیں لگا کہ وہ ہلاک ہو جائے گی۔

اس لیے اس کے ساتھی نے انہیں اپنی جان بچانے کے لیے اپنے ساتھ بھاگنے کے لیے کہا۔مگراس وقت یہ لڑکی چیخ اٹھی۔

مجھے جانے دو پلیز، میں اسی طرف جا رہی ہوں کیوں کہ تم سب بھاگ رہے۔ مجھے جانے دو، مجھے گولی مار دو، میں مر جاؤں گی، ورنہ انگریز کہیں گے کہ پٹھانوں میں سے کوئی جان دینےکے لیے تیار نہیں ہے۔

ان الفاظ نے ایک بار پھر موجودہ پٹھانوں میں بہادری کی آگ بھڑکائی، وہ فوراً رک گئے اور لڑکی کے ساتھ سپاہیوں کی طرف چلنے لگے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ رائفلیں اٹھائے ہوئے سپاہی ان محب وطن غیر مسلح افراد سے خوفزدہ ہو کر فرار ہو گئے۔

شرم کی بات ہے کہ ہم اس محب وطن لڑکی کا نام نہیں جانتے اور ہمارے پاس سب سے زیادہ معلومات یہ ہے کہ اس کا بھائی رب نواز خان خدائی خدمتگار کا کارکن تھا۔

ایک اور موقع پر ایک پٹھان شخص پولیس کا تشدد برداشت نہ کر سکا اور سرکاری گواہ بن گیا۔ اسے رہا کر دیا گیا، جب کہ اس کے گاؤں کا ہر دوسرا شخص قید میں رہا۔ گھر پہنچ کر اس کی بیوی نے اس سے پوچھا کہ وہ کیسے واپس آ گئے، حالانکہ گاؤں میں کسی کو رہا نہیں کیا گیا تھا۔

اس نے اپنے انگوٹھے کو چیک کیا تو سیاہی کے نشان ملے جس سے ثابت ہوا کہ اس نے کچھ کاغذات پر انگوٹھے کے نشانات لگائے تھے۔

اس سے بیوی ناراض ہوگئی، اس نے ایک لکڑی سے اپنے شوہر کو مارنا شروع کردیا۔

بات مارنے تک ہی ہی نہیں رکی اور بلکہ اس کی بیوی نے اعلان کیا کہ وہ ایک غدار بزدل آدمی کو چھوڑ دے گی اور تنہا رہے گی۔ اس شخص کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ خود جیل واپس چلا گیا۔