موہن بھاگوت کا تاریخی بیان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
موہن بھاگوت کا بیان ایک سنگ میل
موہن بھاگوت کا بیان ایک سنگ میل

 

 

awazurdu

ایم ودود ساجد / نئی دہلی 

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت ہمیشہ سے ہندوستانی مسلمانوں اور خاص طورپر ہندو اور مسلمانوں کے تعلق سے مختلف بیانات دیتے ہی رہے ہیں۔ان کے بعض بیانات پر نہ صرف مسلمانوں بلکہ دوسرے طبقات کو بھی اعتراض رہا ہے۔لیکن گزشتہ 4 جولائی کو انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے جو بیان دیااسے تاریخ ساز اور تاریخی بیان نہ کہنا سخت ناانصافی ہوگی۔انہوں نے یہ پہلی بار کہا ہے کہ ماب لنچنگ ہندوتوا کے خلاف ہے۔ یہ بھی پہلی بار کہا ہے کہ جو مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑنے کیلئے کہے وہ ہندو نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندو اور مسلمانوں کو ڈوائڈ (تقسیم) کی نہیں ڈائیلاگ (مذاکرات) کی ضرورت ہے اور یہ کہ ہندوستان سب کا ہے اور یہ کہنا کہ ہندؤں کا زیادہ ہے یا مسلمانوں کا زیادہ ہے' غلط ہے۔

موہن بھاگوت کے اس بیان کا نہ صرف مختلف طبقات نے بلکہ خود ہندوستانی مسلمانوں نے بھی عمومی طورپرخیر مقدم کیا ہے۔انہوں نے اس بیان میں کسی اگر مگر سے کام نہیں لیا بلکہ اپنے اس بیان کے ذریعہ بالواسطہ طورپرانتہائی صاف گوئی کے ساتھ تسلیم کیا کہ ہندوستان میں ماب لنچنگ اپنی ہیبت ناکی کے ساتھ موجود ہے۔دوسرے انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی کو بھی تسلیم کیا ہے اور یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے وجود کے بغیر ہندوستان کے وجود کا کوئی معنی نہیں ہے۔

اگر آرایس ایس کی طرف سے یہ بیان آرہا ہے تو اس بیان کی ایک اہمیت ہے۔آر ایس ایس ایک بہت بڑی بلکہ دنیا بھر کی سب سے بڑی منظم اور نظم وضبط کی پابند جماعت ہے۔اس جماعت کے کروڑوں متحرک وفعال ممبران ہیں۔وہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔آر ایس ایس سربراہ جب کوئی بات کہتے ہیں تو سنگھ کا پورا کیڈر اس پر عمل آوری کو فرض گردانتا ہے۔یہی نہیں آر ایس ایس کا بی جے پی قیادت پر بھی بڑا اثر ہے۔ایسے میں ان کے تازہ بیان سے یہ امید بڑھی ہے کہ مٹھی بھر شرپسندوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے طوفان پر اب کوئی موثر قدغن لگے گی۔بہت سے مسلم دانشوراور سماجی رضاکار موہن بھاگوت کے بیان کا غیر مشروط خیر مقدم کرتے ہوئے ان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے بیان کی روشنی میں حکومت سے کہیں کہ وہ ماب لنچنگ کے خلاف ایک سخت قانون بنائے' متاثرین کو معاوضہ ادا کرے اور مجرموں کو سزا دلوائے۔

علی گڑھ کے دانشورارشد غازی کہتے ہیں کہ ستّر سال میں مسلط کی گئی نا پختہ فکر نے ہندوستانی مسلمانوں کو ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں سے آگے کا راستہ بند ہے۔ ہم نے سر سید احمد خان کے اس سبق کو بھلا دیا کہ حکومت ِوقت سے مفاہمت کے ساتھ چلا جاتا ہے۔ سیاست کے کچھ طے شدہ بنیادی اصول ہیں جو، اب ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو چکے ہیں۔4 جولائی کو ڈاکٹرموہن بھاگوت، ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد کی تین زبانوں میں شائع شدہ کتاب دی میٹنگ آف ماینڈز کی رسم اجرا ء میں شرکت کے لئے خود اپنی مرضی اور خوشی سے وہاں پہنچے۔ وہاں انھوں نے مسلمانانِ ہند کے لئے جو کچھ کہا وہ یقینا حیرت انگیز تھا، وہ جو کہہ رہے تھے اس کا گواہ انھوں نے بیک وقت کئی کروڑ انسانوں کو بنادیا۔

ارشد غازی کے مطابق بھاگوت کے نپے تُلے جملے کسی اچانک ردّعمل کا نتیجہ نہیں تھے۔ اس میں ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد کی اُن سے ایک سال کی مسلسل گفتگو اور اس تاریخی موقع پر ایک گھنٹے کی تقریر تھی جس کے جواب میں ڈاکٹر موہن بھاگوت کوکچھ نئی باتیں کہنے پر مجبور ہونا پڑا۔خواجہ افتخار احمد نے واضح کیا کہ مسلمانانِ ہند چاہیں تو ایک موثر قوت بن سکتے ہیں۔انھوں نے بہت درد مندی سے کہا کہ ہمارے پاس ریاستی سطح پر یا قومی سطح پر اس قیادت کا فقدان ہے جو مسلمانوں کو فکری بکھراؤ سے بچاسکے۔ آج کی سیاست کا درومدار مفاہمت پرہے۔

خواجہ افتخاراحمد نے آر ایس ایس کے کام کرنے کے طریقے اور سیاسی تدبر کی تعریف کی اور کہا کہ میں گفتگو (ڈائیلاگ) کی آج پہل کر رہا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ ہمارے اور آپ کے بیچ مفاہمت کا کوئی مثبت راستہ ضرور نکلے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانانِ ہند کو آر ایس ایس جیسے مسلم پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔ اگر وہ اپنے تشخص کی بقا چاہتے ہیں توانہیں موجودہ سیاست سے خودکو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔خواجہ افتخاراحمد نے کہا کہ مسلمان اپنے عقیدہ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ بعض جگہ ذرا سی لغزش سے بیوی حرام ہو جاتی ہے،لہذا حکومت مذہب کی ان باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمان اورعلماء قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ 1857میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

ایک اور مفکر‘ معروف عالم دین اور آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سیکریٹری مولانا عبد الحمید نعمانی نے کہا کہ موہن بھاگوت کا یہ بیان کئی جہات سے قابل توجہ اور ماب لنچنگ، فرقہ وارانہ تشدد،ہندو مسلم اتحاد کے تعلق سے قول و گفتار کی حد تک لائق خیر مقدم ہے۔م

موہن بھاگوت کے بیان کا تناظر سیاسی کم، تہذیبی، سماجی، تاریخی اور فلسفہ وجود پر مبنی روحانی زیادہ ہے، جو ہندو فلاسفی ادویت واد (تصور وحدت الوجود)کی بنیاد پر قائم ہے

خطاب کے اہم نکات یہ ہیں: (۱)تمام ہندستانیوں کا ڈی این اے ایک ہے،چاہے وہ کسی بھی دھرم کے ہوں۔(۲)جو لوگ ماب لنچنگ میں ملوث ہیں، وہ ہندوتو مخالف ہیں، ایسے افراد کو سزا ملنا چاہیے، اس کے لیے قانون اپنا کام کرے گا، (۳)ہندو مسلم اتحاد کی بات بھرم ہے کیوں کہ ہندو مسلمان تو پہلے سے ہی ایک ہیں، پوجا پاٹ کے طریقوں کے اختلافات کی بنیاد پر بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا،(۴)مذہب سے قطع نظرتمام ہندستانی ایک آباؤ اجداد کی اولاد ہیں، وجود واحد ہے اور وجود کی وحدت کاسچ ہے،(۵)ملک میں اتحاد کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔(۶)ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں یہاں ہندو یا مسلمانوں کا غلبہ نہیں ہوسکتا،صرف اور صرف ہندستانیوں کا ہی غلبہ ہوسکتا ہے اگر کوئی ہندو یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کو یہاں نہیں رہنا چاہیے تو وہ ہندو نہیں،(۷)ہم وطن مفاد کے حامی ہیں،(۸)سیاست لوگوں کو متحد نہیں کر سکتی ہے، سیاست لوگوں کو متحد کرنے کاہتھیار نہیں بن سکتی ہے لیکن سیاست ایکتا کو بگاڑنے کا ہتھیار ضرور بن سکتی ہے، (۹)ہندو ہیں تو ہندو راشٹر تو ہے۔

مولانانعمانی نے مزید کہاکہ بھاگوت کے خطاب میں کئی باتیں اہم اور سنگھ کے تاریخی تسلسل سے کچھ الگ نظر آنے والی ہیں، کئی باتیں ذہانت اور گہری منصوبہ بندی پر مبنی ہیں کہ مذہبی تہذیبی شناخت کے حوالے سے دیگر کے الگ وجود کو واضح اور باقاعدہ طور سے تسلیم نہیں کیاگیا ہے۔ دیگر کی آزادی اور وجود تنوعات والے بھارت اور ایک جمہوری نظام میں ضروری ہے، بھارت میں کوئی ایک تہذیب، مختلف مذاہب اور روایات کے حامل باشندوں کے اتحاد کی مشترکہ بنیاد نہیں بن سکتی ہے ان کے لیے مشترکہ بنیا د، وطن ہی بن سکتا ہے، اس لحاظ سے ملک کے سارے باشندے ہندی ہیں، نہ کہ ہندو جیسا کہ ڈاکٹر موہن بھاگوت اور سنگھ والے کہتے ہیں، اس سلسلے میں مولانا آزادؒ، مولانا مدنی ؒ اور گاندھی، نہرو کا راشٹرواد بہتر رہ نمائی کرتا ہے۔

جہاں تک وجود کی وحدت کی سچائی کا مسئلہ ہے اسے اسلام اور اس کے ذی علم نمائندے بہتر طور سے حل کر چکے ہیں، قرآن تمام انسانوں کو مکرم قرار دیتے ہوئے بغیر کسی فرق و امتیاز کے ان کی تکریم کا اظہار و اثبات کرتا ہے، ایک بے قصور کے قتل کو تمام انسانوں کا قتل قرار دے کر وحدت وجود کے سچ کو واضح انداز میں جتلا دیا ہے۔رسول کائنات ﷺ نے کلکم بنو آدم کہہ کر تمام انسانوں کو ایک ماں باپ کی اولاد کا اعلان و اظہار کر دیا ہے، ایسی حالت میں مسلم ملت کے لیے دنیا کے کسی بھی ملک یا خطے میں ڈی این اے کے حوالے سے کوئی بھی رائے و تحقیق وحدت بنی آدم کے لیے سرے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہندستانی فکرو فلسفہ کے تناظر میں ادویت واد (تصور و حدت وجود) کے سلسلے میں وجود کی وحدت کا مسئلہ صرف نظریاتی حد تک ہے، عمل تک آج تک نہیں آسکا ہے، جس کی وجہ سے طبقاتی نظام کے تحت، سماج برہمن، چھتری،ویش اور شودر میں تقسیم ہو گیا اور اس کی بنیاد میں دھرم شامل ہوگیا۔

مولانا نعمانی نے مزید کہا کہ ہمیں گرو گولولکر اور ڈاکٹر بھاگوت کے وجود کی وحدت کے نظریے سے کوئی دقت نہیں ہے، البتہ اس کی تعبیر و تشریح قابل بحث ضرور ہے، جس کی بھارت کی طویل روایات و تواریخ میں بڑی گنجائش ہے۔ڈاکٹر بھاگوت کے خطاب کے ضروری نکات کے پیش نظر ڈائیلاگ کا اچھا آغاز ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر محمد منظور عالم نے کئی بار باہمی ملاقات و مذاکرات کی ضرورت کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے، گزشتہ دنوں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی ڈاکٹر بھاگوت سے ملاقات کر کے عوامی سطح پر امن و اتحاد کی کوشش اور بات کہنے پر توجہ مبذول کراچکے ہیں۔

اس تناظر میں ڈاکٹر بھاگوت نے جو باتیں کہی ہیں ان کو بات چیت کر کے عمل تک لانے کی باہمی جدو جہد ملک و ملک کے حق میں ہونا چاہیے،معاملہ سیاسی کے بجائے انسانی تکریم کے پس منظر میں سماجی، تہذیبی اور سب کی آزادی اور وجود کا اقرار اور جیو اور جینے دو سے زیادہ ہے۔ اسے ڈاکٹر بھاگوت دہلی میں دو روزہ،17، 18 ستمبر 2018 کے تفصیلی خطاب میں اعلان و اظہار کر چکے ہیں۔

بہرحال اگر سب تسلیم کرتے ہیں کہ موہن بھاگوت کا یہ بیان تاریخی اور غیر معمولی ہے تو میرا خیال ہے کہ اس بیان کا ردعمل بھی تاریخی ہونا چاہئے۔اگر ہم ہمت کرکے کوئی تاریخی قدم اٹھاتے ہیں تو یہ ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں ایک خوشگوار انقلاب ثابت ہوسکتا ہے۔