حضرت امام حسینؓ اور ہندوستان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-08-2021
حضرت امام حسینؓ اور ہندوستان
حضرت امام حسینؓ اور ہندوستان

 

 

AWAZURDU

پروفیسر اخترالواسع

تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں بڑے مقاصد کی خاطر ہزاروں لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے،عظیم مقاصد کی شہادت گہہ الفت میں نہ جانے کتنے عظیم لوگ قربان ہوگئے اور یہ سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے۔دنیاکی مختلف قومیں راہ عظیمت کے ان شہداء کو خراج عقیدت بھی پیش کرتی رہی ہیں اور بعض قربانیاں تو ایسی لازوال ہیں کہ ان کو بطور یادگار منایا جاتا ہے،ان کی برسی منعقد کی جاتی ہے۔

 لیکن سیدنا حسین ؓ کی شہادت ایسی عظیم شہادت ہے کہ دنیا کی کوئی دوسری یادگار شہادت اس درجہ کی نہیں ہے۔چودہ صدیاں پوری ہونے کو آئیں لیکن حضرت حسینؓ اسی طرح زندہ ہیں جیسے وہ اپنی حیات مستعار میں زندہ تھے۔

دوسرے شہداء کی برسی ایک دن کی ہوتی ہے سیدنا حسین ؓکی یادگار پورے چالیس دن چلتی ہے اور کسی نہ کسی شکل میں پورے سال ان کو یاد کیا جاتا ہے۔جب بھی حق کے لیے قربانی دینے کی کوئی مثال پیش کرنی ہو تو سب سے پہلے حضرت امام حسینؓ کا نام آتا ہے واقعہ یہ ہے کہ تاریخ انسانی حضرت حسینؓ کی قربانی سے بڑھ کر کوئی مثال پیش نہیں کر سکتی۔

حضرت حسین ؓکی قربانی کو پوری ملت اسلامیہ ایک عظیم قربانی کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔محرم کے مہینہ میں خاص طور پر ان کو یاد کیا جاتاہے اور ان کے یوم شہادت یعنی ۰۱/محرم کو سارا عالم یا حسینؓ کی صداؤں سے گونج اٹھتا ہے،کہیں ماتمی جلوس نکلتا ہے،کہیں تعزیہ داری ہوتی ہے۔

 مولانا محمد علی جوہر نے کہا ہے کہ

قتل حسین ؓاصل میں مرگ یزید ہے

 اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

 امام حسینؓ کی مظلومانہ شہادت اسلام کی سربلندی کے لیے تھی اس لیے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت حسین نے اسلام کی عظمت کو سربلند کرنے کے لیے جوقربانی دی اس لیے مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ ان کی قربانی کو یاد کریں اور ان کے یوم شہادت پر ماتمی جلوس اور تعزیہ نکالیں، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ حضرت حسین ؓکی عظمت جس طرح مسلمانوں میں مسلم ہے اسی طرح غیر مسلموں میں بھی ان کی عظمت کا اعتراف و اقرار کیا جاتا ہے۔

خاص طور پر ہمارے ملک میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو برادران وطن بھی امام حسینؓ کی عظمت و بزرگی کے قائل ہیں۔اس کی ایک وجہ تو غالبا یہ ہے کہ حضرت حسینؓ کی قربانی اتنی عظیم ہے کہ وہ زمان و مکان اور مذہب و ملت کی قید سے بلند ہوکر آفاقی ہوگئی ہے،ان کی عظمت کسی ایک مذہب کی تنگنائے میں محصور نہیں ہے بلکہ وہ ایک مذہب کی نہیں سارے ہی مذاہب کی روایت بن گئی ہے اور کسی بھی مذہب میں حق کے لیے جان دینے کی بات جب آتی ہے تو امام حسینؓ ہی اس کی سب سے بڑی علامت کے طور پر سامنے آتے ہیں۔

 اس کی دوسری وجہ بظاہر یہ سمجھ میں آتی ہے کہ خاص ہندوستان سے امام حسینؓ کو بھی قلبی وابستگی اور دلی لگاؤتھا۔ چناں چہ جب کربلا کے میدان میں ان کو یزید کی فوج نے گھیر لیا تو اس وقت انہوں نے دشمن فوج کے سامنے جو تین شرائط رکھی تھیں ان میں سے غالباً ایک شرط یہ بھی تھی کہ ان کو ہندستان کی طرف جانے دیا جائے۔گویا ہندستان کی سرزمین سے ان کو مہر و وفا کی ایسی امید تھی کہ انھوں نے عالم اسلام میں کسی جائے پناہ کو ڈھونڈنے کے بجائے ہندستان کی طرف جانے کو اپنے لیے منتخب کیا۔

ہندستان کی طرف جانے کی حضرت امام حسینؓ کی یہ خواہش تاریخ کے صفحات پر ثبت ہے اور شاید اسی خواہش کا عملی اظہار یہ ہوا کہ ہندوستان میں امام حسینؓ کی تعزیہ داری اور ان کے ماتم کی روایت پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔

گاؤں گاؤں،شہر شہر ان کے جلوس نکلتے ہیں ان کے امام باڑے میں ان کی نذر و فاتحہ ہوتی ہے اور بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ روایت صرف مسلمانوں کی نہیں ہے بلکہ بڑی تعداد میں ہندو برادران وطن اس میں پوری عقیدت اور پورے احترام کے ساتھ شریک ہو تے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہندوؤں میں برہمنوں کا ایک گوتر ”دت“ ہے۔دت برہمن اپنے آپ کو حسینی برہمن کہتے ہیں، ان کایہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کے بزرگوں میں سے کچھ لوگ ان بہتر لوگوں میں شامل تھے جو امام حسینؓ کے ساتھ میدان کربلا میں شہید ہوئے۔

اسی نسبت سے وہ خود کو حسینی برہمنی کہتے ہیں۔ حسینی برہمنوں کا یہ دعویٰ اگرچہ تاریخ کے پیمانے پر پورا نہیں اترتا لیکن حسینی برہمنوں کو امام حسینؓ سے جو عقیدت اور والہانہ لگاؤ ہے وہ کسی طرح بھی اس تعلق سے کم نہیں ہے جس کا اظہار مسلمان کر تے ہیں۔

ویسے کہیں کہیں عقیدت تاریخ کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے اور جذبہئ دل تمام عقلی پیمانوں کو پار کر جاتا ہے۔ حسینی برہمنوں کی عقیدت بھی ایسی ہی ہے ان کو امام حسینؓ سے بے انتہا عقیدت ہے۔ وہ باضابطہ تعزیہ داری میں شریک ہوتے ہیں، یومِ شہادت کے وہ تمام کام کرتے ہیں جو مسلمان کرتے ہیں۔

 اردو زبان کے اصناف سخن میں ایک اہم صنف مرثیہ ہے یہ صنف دراصل امام حسینؓ کی یادگار ہے۔

واقعات کربلا کا ذکر جس طرح شعراء نے کیا ہے اس کو باضابطہ صنف قرار دے کر سرزمین ہند نے حضرت امام عالی مقام کی خدمت میں ایک اور نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

مرثیہ نگاری میں جس طرح مسلمان شعراء نے حضرت امام حسینؓ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اس طرح ہندو شعراء نے بھی مرثیہ نگاری کی ہے اور دیگر اصناف میں بھی حضرت امامؓ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔سرکشن پرساد شاد نے کیا خوب صورت انداز میں حضرت امامؓ سے اظہار عقیدت کیا ہے

:  حسینؓ ابن علی ہیں فرد یکتا

 کوئی مظلوم ایسا تھا نہ ہوگا ولائے سبط پیغمبر ہے نعمت

 یہ نعمت ہو عطا ہر ایک کو مولا لکھنؤ اور دہلی کے اور بھی بہت سے ہندو شعراء ہیں جنہوں نے مرثیہ نگاری بھی کی ہے اور منقبت کے اشعار بھی لکھے ہیں۔ تعزیہ داری کی روایت ہندوستان کی سرزمین میں اتنی پختہ اور اتنی استوار ہے کہ اس پر اجنبیت کا گمان نہیں ہوتا۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ ہندوستانی روایت ہے اور ایسا اس لیے ہوا کہ حضرت امامؓ سے عقیدت اور وابستگی ہندوستان کے مزاج بلکہ یہاں کی آب و گل میں رچ بس گئی ہے۔

 ہندوستان کے بہت سے دانشوروں نے بھی اپنے اپنے انداز میں امام حسینؓ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ منشی پریم چند نے لکھا ہے کہ ”معرکہ کربلا دنیا کی تاریخ میں پہلی آواز ہے اور آخری بھی جو مظلوموں کی حمایت میں بلند ہوئی اور جس کی صدائے بازگشت آج تک فضائے عالم میں گونج رہی ہے۔“

ڈاکٹر راجندر پرساد نے لکھا ہے کہ ”کربلا کے شہیدوں کی کہانی انسانی تاریخ کی ان سچی کہانیوں میں سے ایک ہے جن کو کبھی بھلایا نہ جائے گا اور ان کی اثر آفرینی میں کوئی کمی آئے گی۔“ ہندوستان میں امام حسینؓ کی یاد گار اور ان کا ماتم کوئی نئی روایت یا اجنبی روایت نہیں ہے بلکہ یہ مقامی روایت ہے اور مقامی انداز میں ہے۔

برادران وطن کی بڑی تعداد روایتی طور پر اس مقدس موقع کا اہتمام کرتی رہی ہے۔ مہارانی لکشمی بائی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دس محرم کو بڑی عقیدت کے ساتھ مناتی تھیں۔ اس طرح دیگر ہندو راجہ اور اصحاب ثروت بھی اس دن کا بلکہ اس مہینہ کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔

جوش ملیح آبادی نے شاید برادران وطن کی اس عقیدت کو دیکھتے ہوئے کہا تھا:

 انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

 ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ

 ہندوستان میں تعزیہ داری اور مرثیہ نگاری دو ایسے کام ہیں جن کی مثال عالم اسلام میں بھی اس پیمانے پر نہیں ملتی۔ اپنی وسعت کے اعتبار سے بھی یہ بات بڑی اہم ہے کہ ہندوستان کے کونے کونے میں امام حسینؓ کو یاد کیا جاتا ہے اور ان کے یوم شہادت کا تو نہایت خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔

ان کے جلوس کے خصوصی اداب ملحوظ رکھے جاتے ہیں، بعض شہروں اور قصبوں کے تعزیوں اسی طرح بعض قوموں اوربعض پیشوں سے وابستہ لوگوں کی انفرادیت ان کا مخصوص انداز تعزیہ داری ہے،یہ بھی ہندوستان کا امتیاز ہے۔ غرض اس ملک سے سیدنا حضرت حسینؓ کی شخصیت اور ان کی روایت پوری طرح وابستہ اور پوری طرح ہم آہنگ ہے۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں۔)