ڈاکٹر شبانہ رضوی
حسرؔت موہانی، آزادی کے مجاہد، اردو شاعری کے درخشاں ستارے، اور انقلاب صحافت کے بانی تھے۔ ان کی شخصیت محبت اور انقلاب کے جذبات کا حسین امتزاج تھی۔ "انقلاب زندہ باد" کا نعرہ دینے والے اس عظیم شاعر نے اپنی شاعری اور جدوجہد سے آزادی کی تحریک کو جِلا بخشی۔
حسرت موہانی ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے ادب، سیاست، اور صحافت کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ حسرتؔ موہانی کا اصل نام سید فضل الحسن تھا۔ وہ 1 جنوری 1875 کو موہان، ضلع اوناؤ (اتر پردیش) میں پیدا ہوئے۔بطور شاعر، ان کا شمار اردو کے ممتاز غزل گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری محبت، انقلاب، اور آزادی کے جذبات سے لبریز ہے۔آزادی کے متوالے کے طور پر، انہوں نے انگریز سامراج کے خلاف آواز بلند کی اور ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ صحافی کی حیثیت سے، انہوں نے "اردوئے معلیٰ" جیسا مشہور رسالہ جاری کیا جو اردو ادب اور سیاسی شعور کے فروغ میں سنگ میل ثابت ہوا۔
تعلیمی پس منظر:
حسرت موہانی نے اپنی اعلیٰ تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی۔
ابتدائی عمر سے ہی انہیں ادب اور سیاست سے گہری دلچسپی تھی۔ علی گڑھ کے تعلیمی ماحول نے ان کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا اور وہ قومی شعور اور آزادی کی جدوجہد میں شامل ہوگئے۔
تعلیم کے دوران ہی انہوں نے شاعری کا آغاز کیا اور علی گڑھ تحریک کے ساتھ اپنے سیاسی سفر کی بنیاد رکھی۔ ان کا ادبی اور سیاسی شعور دونوں علی گڑھ کے اساتذہ اور ساتھیوں کی صحبت سے پروان چڑھا۔
شاعری میں خدمات:
حسرتؔ موہانی اردو شاعری کے ان چمکتے ہوئے ستاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے غزل کو نہ صرف رومانویت بلکہ انقلابی جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان کا شاعرانہ انداز منفرد اور دلکش ہے، جس میں محبت کی نرمی اور آزادی کے ولولے کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔
ان کی مشہور غزل "چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے" اردو ادب کا لازوال سرمایہ ہے، جس نے انہیں ایک لازوال مقام عطا کیا۔حسرتؔ موہانی نے غزل کی روایتی رومانوی بنیادوں کو قائم رکھتے ہوئے اس میں انقلاب اور آزادی کے جذبات کا رنگ بھرا۔ ان کی شاعری میں نہ صرف عشق کی کیفیت بلکہ وطن کی آزادی کے لیے قربانی کا جذبہ بھی نمایاں ہے۔انہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی روح عطا کی، جس کے باعث وہ نہ صرف محبت کے شاعر بلکہ آزادی کے شاعر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کے اشعار ہر دور میں دلوں کو گرمانے کا ذریعہ بنے رہیں گے۔حسرؔت موہانی کا مجموعۂ کلام ان کی شعری صلاحیتوں اور جذباتی گہرائی کا آئینہ دار ہے۔ ان کی تخلیقات نے اردو ادب میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ ان کا دیوان "کلیاتِ حسرتؔ" کے نام سے مشہور ہے، جس میں ان کی تمام غزلیں، نظمیں، اور اشعار شامل ہیں۔
مجموعۂ کلام کے نمایاں پہلو:
غزلیات:
حسرتؔ موہانی کی غزلیں محبت، جدائی، اور انقلاب کے جذبات کو بیان کرتی ہیں۔ ان کی غزلوں میں کلاسیکی روایت کے ساتھ جدید خیالات کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔
نظمیں:
ان کی نظموں میں آزادی اور انقلاب کے جذبات نمایاں ہیں۔ وہ اپنے وقت کے سیاسی اور سماجی مسائل پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔
تصوف:
حسرتؔ کی شاعری میں تصوف کی جھلک بھی ملتی ہے، جہاں روحانی موضوعات اور عشقِ حقیقی کی باتیں نظر آتی ہیں۔
حسرتؔ موہانی کے مشہور اشعار:
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضا مند کر گئی
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
شوق ہمیں کسی کا ستم بھی قبول ہے
شوق ہمیں کسی کا کرم بھی قبول ہے
یہ اشعار حسرتؔ موہانی کے منفرد اندازِ بیان اور گہرے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں، جو ان کی شاعری کو آج بھی زندہ جاوید رکھتے ہیں۔حسرتؔ موہانی کے کلام نے اردو ادب کو نہ صرف رومانویت بلکہ انقلابی روح سے بھی مالامال کیا۔ ان کا دیوان آج بھی قارئین کے لیے محبت اور جدوجہد کا ایک لازوال خزانہ ہے۔ وہ صرف محبت کے شاعر نہیں تھے بلکہ آزادی اور انقلاب کے شاعر بھی تھے۔ ان کی شاعری میں تحریک آزادی کا جوش اور قربانیوں کا جذبہ نمایاں ہے۔ یہ شعر ان کی انقلابی سوچ کی عکاسی کرتا ہے:
ہے مشقِ سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
یہ شعر ان کے سخت حالات اور انقلابی عزم کو بیان کرتا ہے۔ ان کے قید و بند کے تجربات کو بیان کرتا ہے۔
سیاسی کردار:
حسرتؔ موہانی نے تحریک آزادی میں ایک سرگرم کردار ادا کیا۔ وہ انقلابی نظریات کے حامل تھے اور ہمیشہ سامراجی تسلط کے خلاف برسرپیکار رہے۔ کانگریس میں شمولیت کے بعد انہوں نے سیاسی شعور کو عام کرنے کے لیے بھرپور کام کیا۔انہوں نے خلافت تحریک میں فعال کردار ادا کیا اور مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ مل کر برطانوی حکومت کے خلاف جدوجہد کی۔ ان کی قربانیاں اور انتھک محنت آزادی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے تھیں۔حسرتؔ موہانی کے سیاسی کردار کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے "انقلاب زندہ باد" کے نعرے کو متعارف کرایا، جو بعد میں ہندوستان کی تحریک آزادی کا ایک مشہور شعار بن گیا۔ان کی جدوجہد، قید و بند کی صعوبتیں، اور آزادی کے لیے ان کا عزم آج بھی نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہیں۔
قید و بند کی صعوبتیں:
حسرتؔ موہانی نے اپنی زندگی میں آزادی کی جدوجہد کے لیے بے شمار مشکلات اور قربانیاں دیں۔ برطانوی حکومت کی مخالفت اور انقلابی نظریات کے پرچار کی وجہ سے انہیں بارہا جیل کی سزائیں دی گئیں۔1916 میں انہیں غداری کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور قید کی سخت ترین صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ اس دوران انہوں نے اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور ہمیشہ حق اور سچائی کا پرچم بلند رکھا۔ان کی قید و بند کی زندگی عزم و استقامت کی ایک بے مثال داستان ہے۔ جیل میں بھی انہوں نے نہ صرف اپنی شاعری اور تحریری کام جاری رکھا بلکہ دیگر قیدیوں کے لیے بھی ایک مثال بنے۔ ان کی یہ قربانیاں ہندوستان کی تحریک آزادی کے سنہری باب میں شامل ہیں، جو آج بھی آزادی کی قدر و قیمت کا احساس دلاتی ہیں۔
صحافتی خدمات:
حسرتؔ موہانی اردو صحافت کے ایک بے مثال رہنما تھے۔ انہوں نے 1903 میں "اردوئے معلیٰ" نامی ایک رسالہ جاری کیا، جو اردو ادب اور صحافت میں انقلاب برپا کرنے کا باعث بنا۔یہ رسالہ نہ صرف ادب کے فروغ بلکہ آزادی کی تحریک کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم ثابت ہوا۔ حسرت موہانی نے اپنے مضامین میں آزادی، عدل، اور مساوات کے جذبات کو اجاگر کیا اور عوام کو انگریز سامراج کے خلاف متحد ہونے کی دعوت دی۔"اردوئے معلیٰ" کے ذریعے انہوں نے اردو زبان و ادب کو ایک نئی جہت دی اور اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی تحریریں نہ صرف ادبی شاہکار تھیں بلکہ سیاسی شعور پیدا کرنے کا ذریعہ بھی تھیں۔ان کی صحافت اور تحریریں آج بھی اردو صحافت کے لیے مشعل راہ ہیں اور ان کے نقوش اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ہمیشہ روشن رہیں گے۔
تصوف اور روحانی زندگی:
حسرتؔ موہانی کی شخصیت میں تصوف اور روحانیت کا گہرا رنگ نمایاں تھا۔ ان کے نظریات اور شاعری میں تصوف کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ عشق حقیقی اور معرفت کے مضامین ان کے کلام کا خاصہ ہیں۔حسرتؔ موہانی مولانا روم اور دیگر صوفی بزرگوں کے نظریات سے متاثر تھے، جنہوں نے ان کی زندگی اور سوچ کو ایک گہرائی عطا کی۔ ان کی شاعری میں دنیاوی عشق کے ساتھ ساتھ الٰہی محبت اور روحانی پاکیزگی کے عناصر بھی دکھائی دیتے ہیں۔انہوں نے تصوف کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنایا اور صوفیانہ نظریات کو عوام میں پھیلانے کی کوشش کی۔ ان کی روحانی سوچ نے ان کی شخصیت کو ایک منفرد پہچان دی اور ان کے کلام کو دلوں کو چھو لینے والی گہرائی عطا کی۔
وفات:
حسرتؔ موہانی نے اپنی تمام زندگی اصولوں، جدوجہد، اور قربانیوں کے ساتھ گزاری۔ وہ 13 مئی 1951 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ان کا انتقال ہندوستان کی تحریک آزادی کے ایک سنہری دور کا خاتمہ تھا، لیکن ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ حسرت موہانی کی آخری آرام گاہ ان کے آبائی علاقے موہان میں ہے، جو آج بھی عقیدت مندوں کے لیے زیارت کی جگہ ہے۔
حسرتؔ موہانی کی میراث:
حسرتؔ موہانی کی میراث اردو ادب، شاعری، اور تحریک آزادی میں ان کی بے مثال خدمات پر مشتمل ہے۔ انہوں نے اردو زبان کو ایک نیا آفاق عطا کیا اور شاعری میں محبت، انقلاب، اور روحانیت کو یکجا کیا۔تحریک آزادی میں ان کی قربانیاں اور انقلابی نظریات آج بھی نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کی زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اصولوں پر قائم رہنا اور اعلیٰ مقاصد کے لیے قربانی دینا ہمیشہ کامیابی کا راستہ ہوتا ہے۔حسرتؔ موہانی کا پیغام آج بھی زندہ ہے، جو آزادی، مساوات، اور روحانی پاکیزگی کے نظریات کو فروغ دینے کا درس دیتا ہے۔ ان کی شاعری اور سیاسی جدوجہد ہمیشہ ایک مثالی ورثہ کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔
خلاصہ:
حسرتؔ موہانی کی زندگی اور شخصیت کئی جہتوں پر محیط ہے۔ وہ ایک عظیم شاعر، انقلابی رہنما، صوفی منش انسان، اور اردو صحافت کے علمبردار تھے۔ ان کی شاعری نے اردو ادب کو گہرائی اور وسعت عطا کی، جبکہ ان کی جدوجہد آزادی نے ہندوستان کے عوام میں آزادی کا شعور بیدار کیا۔حسرتؔ موہانی کی قربانیاں اور اصول پسندی آج بھی ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کو اعلیٰ مقاصد کے لیے وقف کیا اور کسی بھی قسم کی مشکل یا مخالفت کے آگے سر نہ جھکایا۔ ان کی میراث اردو ادب، روحانی سوچ، اور آزادی کے لیے جدوجہد کے میدان میں ہمیشہ یادگار رہے گی۔ان کی زندگی کا پیغام یہ ہے کہ اگر ہم اپنے نظریات پر مضبوطی سے قائم رہیں اور حق و انصاف کے لیے آواز بلند کریں تو دنیا میں بڑی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ حسرتؔ موہانی کا نام ہمیشہ تاریخ کے سنہری صفحات پر جگمگاتا رہے گا۔