حکیم اجمل خان ۔ جنہوں نےحکیموں اورویدوں کے تحفظ کیلئے انگریزوں سے لوہا لیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-02-2021
حکیم اجمل خان کو خراج عقیدت
حکیم اجمل خان کو خراج عقیدت

 

 ۔ ہندوستان کی آزادی کی لڑائی میں صف اوّل کے مجاہد تھے حکیم اجمل خان۔ 

۔ برطانوی سامراج سے ان کا پہلا براہ راست ٹکراؤ طِبّوں اور ویدوں کے تحفظ کیلئے ہوا تھا۔ 

                                       ۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے پرجوش حامی تھے۔

منصور الدین فریدی / نئی دہلی

 حکیم حافظ اجمل خان۔صرف ایک طبیب ہی نہیں بلکہ سیاسی مفکّر اور قومی رہنما بھی تھے۔ایک دور اندیش اور حقیقت پسند انسان۔جنہوں نے ایک جانب آزادی سے قبل فن طب یونانی کوبدلتے وقت اور انگریزوں کی پالیسوں  کے حصار سے بچایابلکہ طب یونانی کو باقاعدہ نصاب بنایا۔ساتھ ہی ہندوستان کی آزادی کی لڑائی میں بھی صف اوّل کے مجاہدین میں شامل رہے۔طب یونانی کی تاریخ میں بے شمارطبیب پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے کارناموں سے نہ صرف اپنا اور اپنے خاندان کا نام روشن کیا بلکہ ان کے کارناموں کی وجہ سے طب کی دنیا میں طب یونانی کو نئی بلندی عطا کی۔ ان کارناموں اور طب یونانی کی اہمیت کو دوبالا کرنے میں حکیم حافظ اجمل خان صاحب کا نام صف اول میں آتا ہے۔

میدان طب یونانی میں حکیم اجمل خان کو جتنے انعامات اعزازات ملے ہیں، ا تنی کسی اور طب یونانی کی شخصیت کو نہیں ملے ہیں۔وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں سے ایک تھے۔جنہوں نے ملک کی ہندو مسلم ایکتا کو ہمیشہ ترجیح دی تھی۔11فروری کو ملک میں یوم طب یونانی منایا جاتا ہے جس میں ان کی خدمات کو سلام کیا جاتا ہے۔ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ وہ بہت ہی روشن خیال انسان تھے۔مزاج میں عصبیت اور تنگ نظری کو ذرا بھی دخل نہیں تھا۔ ملک میں ان کی ہر دلعزیزی کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا وہ ایک وسیع القلب انسان تھے۔ان کے نزدیک امیر غریب سب برابر تھے کسی کے اعلیٰ عہدے کو کوئی فوقیت نہیں دی جاتی تھی۔ آپ دہلی کے بے تاج بادشاہ کہلاتے تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کے پرجوش حامی تھے۔ ملکی سیاست میں آپ کی رائے خاص اہمیت رکھتی تھی۔حکیم اجمل خان کے دادا  شہنشاہ بابر کے ساتھ ہرات سے ہندوستان آئے تھے۔ اکبر کے عہد میں ان کا خاندان دربار شاہی سے وابستہ ہوا۔ اجمل خان کے والد حکیم محمود خان شاہ عالم کے طبیب خاص حکیم محمد شریف خان کے پوتے تھے۔

ٹھوکر میں تاج

حکیم اجمل خان واحد وہ شخص ہیں جوکہ انڈین نیشنل کانگریس،مسلم لیگ،آل انڈیا خلافت کمیٹی اور ہندو مہا سبھا کے صدر رہے۔19مارچ 1920کو پورے ملک میں یوم خلافت منایا گیا۔ اس وقت  سب سے پہلے حکیم اجمل خان نے اپنا خطاب حاذق الملک، قیصر ہند طلائی تمغہ اور انگلستان اور ہندوستان مین تاجپوشی دربار میں عطا کردہ دو نقرئی تمغے واپس کردیئے۔ان کے جرات مندانہ اقدام سے ملک کی عوام نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے حکیم صاحب کو مسیح الملک کے خطاب سے نوازاتھا۔

وہ 1892میں نواب رام پور کے طبیب مقرر ہوئے۔ 1906ء میں طبی کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ اسی سال مسلم لیگ کے قیام کی تائید کی۔ 1908ء میں حکومت ہند نے حاذق الملک کا خطاب دیا۔ انہوں نے دو  مرتبہ یورپ کا سفر کیا اور طب یونانی کی فروغ اور اس کو ایک باقاعدہ نصاب کی شکل دینے کیلئے بہت کچھ سیکھا تھا۔جس کے بعد 1912ء میں طبیہ کالج قائم کیا اور 1920ء میں جامعہ ملیہ کے منتظم اعلٰی مقرر ہوئے۔ کانگرس کی مجلس عاملہ نے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک آپ ہی کی صدارت میں منظور کی تھی۔ 1921میں خلافت کانفرنس کی صدارت کی۔

سوچ کا جواب نہیں

حکیم اجمل خان بنیادی طور پر ایک طبیب تھے۔ ان کے آباء و اجداد طبیب تھے۔ان کی آنکھ ایک ایسے خاندان میں کھلی تھی جہاں اس فن کے بڑے بڑے مہارتھی تھے۔اہم بات یہ تھی کہ حکیم اجمل خان نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا،وہ اس غرور میں نہیں رہے کہ سب کچھ وراثت میں مل گیا ہے۔بلکہ انہوں نے اس فن کو ہر پہلو سے ترقی دے کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

در اصل ان کے عہد میں طِبِّی تعلیم افراد اور خاندانوں تک محدود تھی۔ اس لئے باقاعدہ کالجوں اور مدرسوں کا رِواج نہیں تھا۔ قدیم نظامِ تعلیم میں دیگر علوم کے ساتھ طِب بھی پڑھائی جاتی تھی۔ خاندانی اور رِوایتی طبیبوں کے مطب مریضوں کے علاج کے مرکز ہوتے تھے۔

AJMAL KHAN

حکیم اجمل خان کی یاد میں جاری ہندوستانی ڈاک کا ایک ٹکٹ

انگریزوں کا کھیل

در اصل حکیم اجمل خان کے دور میں ہی جب جدید میڈیکل سائنس کا رِواج شروع ہو رہا تھا تو حکیموں کیلئے  ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ جدید میڈیکل سائنس کو انگریزوں کی بھرپور سرپرستی حاصل ہورہی تھی۔ انگریز ایک پالیسی کے تحت ہندوستان کیفنی اور تہذیبی ورثوں کو مٹاتے جا رہے تھے۔ وہ دیسی طِبّوں کو پسند نہیں کرتے تھے،انہیں غیر سائنٹِفِک طریقے قرار دیتے تھے،اس کو مشکوک بنانے کی کوشش کرتے تھے۔اسی کھیل کے سبب بمبئی پر یزیڈینسی میں ایک قانون پاس ہوا جس کے ذریعہ ملک کے دیسی معالجین پر پابندی لگا دی گئی۔ اس قانون نے ملک کی یونانی برادری کو ہلا کر رکھ دیا۔

حکیم اجمل خان آئے حرکت میں

انگریزوں نے ایک سازش کے تحت یہ قدم اٹھایا تھا۔جس نے حکیم اجمل خان کو بے قرار کردیا تھا۔انہوں نے ملک بھر کے ویدوں اور طبیبوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔متحد ہوکر قانون کے خلاف جدو جہد شروع کی۔ برطانوی سامراج سے ان کا پہلا براہ راست ٹکراؤ دیسی طِبّوں کے تحفظ کیلئے ہوا۔انہوں نے1910میں آیورویدک اینڈ یونانی طبی کانفرنس کی بنیاد ڈالی۔

اس مشن میں  حکیم اجمل خان کو کامیابی ملی۔ انہوں نے آیوروید اور یونانیطب کی تعلیم کی جدید میڈیکل سائنس کے پیشِ نظر معیار بندی کا کام شروع کیا مدرسہ طِبِّیہ تو بہت پہلے قائم ہو چکا تھا لیکناسے باقاعدہ کالج بنانے کا عمل اب شروع ہوا۔حکیم صاحب نے طِبِّی تعلیم کے لئے باقاعدہ نصاب مرتب کرائے۔یورپ کا دورہ کر کے وہاں کی میڈیکل ایجوکیشن اور اسپتالوں کا قریب سے جائزہ لیا۔

حقیقت پسند تھے حکیم اجمل خان

حکیم اجمل خان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ حقیقت پسند تھے، وقت کے ساتھ چلنا جانتے تھے۔ ہر نازک وقت میں ان کی کشادہ ذہنی کا ایک بڑا مظہر یہ تھا کہ انہوں نے مغرب سے آنے والی میڈیکل سائنس کو مسترد نہیں کیا تھا بلکہ طب یونانی کی صدیوں قدیم روایتوں تعلیم و تربیت کی تجدید پر بھی خاص توجہ صرف کی۔انہوں نے نہ صرف ملک میں دیسی طبوں کے تحفظ اور ترقی کے لئے ایک بڑی تحریک چلائیبلکہ  طرف انہوں نے انگلستان، فرانس اور دوسرے ممالک کا دور ہ کر کے جدید میڈیکل سائنس کی تعلیم و تحقیق کے معیاری ادارے اور  ان کا طریق کار مطالعہ کیا۔

ہندوستانی دواخانہ کا قیام

یورپ کے دورے سے واپس آنے کے بعد حکیم اجمل خان نے  اپنی تمام ترتوجہ طب یونانی کی معیار بندی، ریسرچ اور دوا سازی پر صرف کی۔انہیں اس بات کا احساس تھا کہ یونانی علاج کے نظام کو منظم کرنا ہوگا اور جدید اصولوں پر قابل قبول بنانا ہوگا۔ حکیم اجمل خان نے طب یونانی اور آیو روید کا وہ تعلیمی اور تحقیقی ادارہ قائم کیا۔جسے آج بھی دنیا آیو ویدک اینڈ یونانی طبی کالج کے نام سے جانتی ہے۔ حکیم اجمل خان نے  ”ہندوستانی دواخانہ“کے نام سے دوا سازی کا وہ عظیم الشان ادارہ قائم کیا جو پورے ملک میں لاثانی ہے۔ اس دواخانہ کو ۱1930میں قائم کیا گیا۔

کالج کی تاریخ

حکیم اجمل خان نے آزادی سے قبل کے حالات میں اس مسئلہ کو انتہائی ہوشیاری سے سنبھالا تھا۔ 29مارچ 1916انہوں نے  لارڈ ہارڈنگ کے ذریعہ باضابطہ طور سے آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھوایا تھا۔ تاکہ انگر یز و ں کی سازشیں دیسی طبوں کو نقصان نہ پہنچا پائیں اور یہ سبھی فنون ہمیشہ کیلئے امر ہوجائیں۔

کالج کے سنگ بنیاد کے ساتھ ہی وہاں طب کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا۔ کالج کے مصارف کے مستقل انتظام کیلئے انہوں نے ”ہندوستانی دوا خانہ دہلی“ کی آمدنی کو  کالج کیلئے وقف تھی۔

گاندھی جی نے کہا تھا

مہاتما گاندھی نے آزادی کے جد وجہد اور ہندو مسلم اتحاد کے اس عظیم رہنما کے موت کے بعد کہا تھا ”کہ اس نازک گھڑی میں یہ ہمارا بہت بڑا نقصان ہے۔وہ ہندوستان کے سچے سپوت تھے ہندو مسلم ایکتا کے سلسلے میں تو ان کی حیثیت ایسی تھی کہ اس کی قدر و قیمت کا کوئی اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ میں تو بس یہ آس لگائے بیٹھا ہوں کہ ہم لوگ جو ان کے جیتے جی نہیں سیکھ پائے وہ اب ان کے مرنے کے بعد سیکھنے کی کوشش کریں گے مجھے امید ہے کہ ان کے مرنے سے دلی میں دوستی اور بھائی چارے کی جو فضاء پیدا ہوئی ہے وہ برقرار رہے گی اور پورے دیس میں سرایت کر جائے گی اور میرے لئے تو حکیم صاحب کا دنیا سے اٹھ جانا ایک نجی سانحہ ہے۔