گورکھپور:گورکھناتھ مندر کی سیکولربنیادیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 31-03-2021
گورکھناتھ مندر
گورکھناتھ مندر

 

 

بابا گورکھناتھ انسانیت نوازسنت تھے

باباکے عقیدت مندمسلمان جوگی آج بھی پائے جاتے ہیں

بابا کے عقیدت مندمسلمان بھی تھے

باباشاعر بھی تھے،ان کے کلام میں بھکتی رس ہے۔

ہیر۔رانجھاکے قصے سے باباکا تعلق تھا۔

غوث سیوانی ،نئی دہلی

گورکھ پور میں واقع گورکھ ناتھ مندر کو عالمی شہرت حاصل ہے۔ ان دنوں اسے سیاسی وجہوں سے بھی لوگ جاننے لگے ہیں مگراس تاریخ میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی بنیاد قومی یکجہتی اور انسانیت کے خطوط پررکھی گئی تھی۔ بابا گورکھ ناتھ خودایک انسانیت دوست شخص تھے اور ان کے عقیدت مندوں میں ہندووں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی شامل تھے۔

باباگورکھناتھ کون؟

بابا گورکھ ناتھ جن کے نام پر یہاں کا مندر ہے وہ کون تھے اور کس زمانے میں تھے؟ اس سوال کا جواب مشکل سے ملتا ہے، کیونکہ ان کے بارے میں جو معلومات ملی ہیں وہ نامکمل ہیں۔ البتہ جو کچھ پتہ چلتا ہے اس کے مطابق سنت گورکھناتھ کی پیدائش 9 ویں سے 11 ویں صدی کے درمیان مانا گیا ہے اور اس کے بعد گورکھ پور مٹھ اور شہر کا قیام عمل میں آیا۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ناتھ فرقہ کے بانی آچاریہ متسےندرناتھ کے شاگرد تھے۔ تاہم ناتھ فرقے کی توسیع کا کام گورکھناتھ نے ہی کیا۔

باباکی شاعری

ایک شاعر کے طور پر بھی گورکھناتھ کی شہرت رہی ہے۔ ان کی 40 چھوٹی موٹی رچناﺅں کا پتہ چلتا ہے۔ یہ شاعری قدیم ہندی اور بھوجپوری میں ہے۔ مختلف ذرائع سے ناتھ پنتھ کے یوگیوں، سادھوں اور آچاریوں کی جو فہرست ملتی ہے ، اس میں گورکھناتھ سے پہلے کسی بھی ناتھ نامدھاری یوگی کے لئے ”گرو“ لفظ کا استعمال نہیں ملتا ہے۔ گورکھناتھ کے لئے یہ اعزاز اس لیے تھا کہ ناتھ پنتھ میں میں ان کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ بابا گورھ ناتھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ابتدا میں ایک بدھسٹ تھے مگر بعد میں شیوازم کی طرف ان کا رجحان ہوگیا تھا۔

قومی یکجہتی میں وشواس

ان کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ نظریاتی اعتبار سے ان سنتوں میں تھے جو انسان کو مذہب ، ذات، اور رنگ ونسل سے اوپر سمجھتے ہیں۔ ان کے شاگردوں میں سبھی قسم کے لوگ شامل تھے، یہاں تک کہ مسلمان بھی تھے۔ ان کی شاعری کے جو چند نمونے ملتے ہیں، ان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سبھی مذاہب اور فرقوں کا احترام کرتے تھے اور انسانیت میں یقین رکھتے تھے۔

گورکھناتھ مندرکاکچھڑی میلہ

گورکھ پورکی تاریخ

سید احمدعلی شاہ کی لکھی کتاب ”محبوب التواریخ “ میں کہا گیا ہے کہ گورکھپور پہلے ایک ویران جگہ تھی، جہاں بڑی تعداد میں سادھو سنت رہتے تھے اور گورکھناتھ نے اسی لئے اسے اپنی تپسیا کے لئے چنا تھا۔ علاوہ ازیں دوسری کتابوں میں بھی گورکھ پور اور وہاں کے سادھووں نیز ناتھ پنتھیوں کا ذکر ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت کے علاوہ چین،بالی، جاوا، بھوٹان، پشاور اور نیپال میں بھی ناتھ پنتھ کے مندر ہیں۔

ہندوستان میں بھی ہردوار، سکم اور گجرات میں گورکھناتھ کے مندر ہیں مگر شمالی ہند، خاص طور پر مشرقی اتر پردیش میں اس کی اہمیت مذہبی اور سماجی طور پر ہی نہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ ہر سال مکر سنکرانتی کے تہوار پر منعقد ہونے والے ”کھچڑی میلے“ میں لاکھوں لوگ ایک ماہ تک یہاں آتے رہتے ہیں۔ گورکھ ناتھ مندر کی جانب سے سماجی کام بھی کئے جاتے ہیں ۔ اس کے تحت کچھ تعلیمی ادارے چلتے ہیں اور غریبوں کے لئے میڈیکل سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

رانجھا بھی ناتھ فرقہ سے تھا؟

ہیررانجھاکی ایک پینٹنگ

کہا جاتا ہے کہ پنجاب کا مشہور عاشق رانجھا بھی ہیر کی محبت میں بے خود ہونے کے بعد بابا گورکھناتھ کا شاگرد بن گیا تھا۔ایک وقت اس نے اپنے گرو سے کہا تھا کہ میں دنیا میں ایک عورت سے محبت کرتا ہوں، میں نے اس کے وصال کے لئے یوگ کا راستہ اپنایا ہے۔ اگر اس بات کا پتہ ہوتا کہ یوگی کے لئے محبت کرنا گناہ ہوتا ہے تو آپ کے ٹلےّ پر کبھی نہیں آتا۔گورکھناتھ مندر سے شائع ایک کتاب ” گورکھ چرت“ میں رانجھا کے یوگی بننے کا ذکر ہے۔

اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں جب تک چناب ندی کا پانی بہتا رہے گا، تب تک ناتھ یوگی رانجھا، اس کی محبوبہ ہیر اور گرو گورکھناتھ کی ان پرمہربانی کی کہانی زندہ رہے گی۔

وارث شاہ کی تخلیق

واضح ہوکہ ایک صوفی شاعر وارث شاہ نے ”ہیر رانجھا“ کی کہانی کو لکھ کر امر کردیا تھا۔اس کہانی کے مطابق 16 ویں صدی میں سلطان بہلول لودھی کے دور حکومت میں تخت ہزارہ میں معزالدین چودھری نام کا ایک امیر جاٹ تھا۔ اس کے بیٹے کا نام رانجھا تھا، جسے بانسری بجانے کا شوق تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد بھابیوں کی وجہ سے اس نے گھر چھوڑ دیا۔ اس کی ملاقات ہیر سے ہوئی اوردونوں محبت کرنے لگے۔

ہیر کے والد نےاس کی دوسری جگہ شادی کر دی اوررانجھا اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے کے لئے جوگی بن گیا۔کہا جاتا ہے کہ جھیلم ندی کے کنارے باباگورکھناتھ تپ کر رہے تھے، جہاں رانجھا نے پہنچ کر بانسری کی راگنی چھیڑ دی، جسے سن کر ان کا دھیان منتشر ہوگیا۔انھوں نے رانجھا سے کیفیت پوچھی تو اس نے تمام واقعہ بتایا اور کہا کہ میری ہیر کو مجھ سے الگ کر دیا گیا، اس کے لئے یوگی بننا چاہتا ہوں اور اس طرح وہ یوگی بن گیا۔

باباگورکھناتھ کے عقیدت مندمسلمان جوگی

باباگورکھناتھ کے مسلمان جوگی

گورکھپورضلع میں کچھ ایسے گائوں ہیں جہاں مسلمان جوگی پائے جاتے ہیں۔ یہ باباگورکھ ناتھ سے متاثرہیں اور ان کی عقیدت کے گیت گاتے ہیں۔ ان کے ہاں یہ  سلسلہ صدیوں سے چلاآرہاہے۔ یہ گیروالباس پہنے ہوئے،سرپرپگڑی باندھے،سارنگی کے ساتھ گومتے ہیں اور گیت گاکرلوگوں کو سناتے ہیں۔ اس کے بدلے میں انھیں کچھ لوگ اناج تو کچھ پیسے دیتے ہیں۔ یہ رہنے والے اگرچہ گورکھ پورضلع کے ہیں مگراترپردیش اور بہاروجھارکھنڈ سے لے کرمغربی بنگال تک نظرآتے ہیں۔اب ان کے اندربھی بیداری آرہی ہے اور بچوں کو پڑھانے لگے ہیں اور نئی نسل پرانی روایت کو آگے بڑھانے کو تیار نہیں۔