گاندھی جینتی: گوہر جان ، طوائف جس سے گاندھی جی نے لی تھی مالی مدد

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-10-2022
گاندھی جینتی: گوہر جان, طوائف   جس سے  گاندھی جی نے لی تھی مالی مدد
گاندھی جینتی: گوہر جان, طوائف جس سے گاندھی جی نے لی تھی مالی مدد

 

 

بابائے قوم مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش پر خصوصی پیشکش


 منصور الدین فریدی : آواز دی  وائس

گوہر جان _ ایک طوائف، مگر آزادی سے قبل یہ نام اور اس کی آواز کا جادو ملک پر سر چڑھ کر کر بولتا تھا-وہ آواز جسے ملک میں گرامو فون پر سب سے پہلے ریکارڈ ہونے کا اعزاز حاصل تھا -مگر گوہر جان گو ایک اور اعزاز حاصل ہوا تھا - جو ان کے فن یا کلا کے لیے نہیں تھا بلکہ جنگ آزادی میں مہاتما گاندھی کی مالی مدد کرنے کا تھا، انگریزوں کے خلاف تحریک کو سانسیں عطا کرنے کے لیے اپنی آواز  کو بھنا نے کا تھا- دراصل مہاتما گاندھی نے سوراج تحریک میں مالی مدد کی اپیل کی تھی_گاندھی جی فنڈز کی اشد ضرورت تھی، اس لیے گاندھی جی کولکتہ کے سب سے مشہور طوائف گوہر جان کے پاس پہنچےتھے جن کی صلاحیتوں اور دولت کا ملک بھر میں چرچا تھا۔-

دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام کے بجائے خواص کے لئے گانے والی گوہر جان نے مہاتماگاندھی کے لئے ایک میوزیکل نائٹ کا اہتمام کیا تھا، بس شرط یہ تھی وہ محفل میں شرکت کریں گے مگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا ، مہاتما گاندھی سیاسی مصروفیات یا کسی اور وجہ سے نہیں آ سکے-

لیکن گوہر جان نے رات بھر محفل کو رونق بخشی, سماں باندھے رکھا-اس دوران ان کی نظریں سامعین میں مہاتما گاندھی کو تلاش کرتی رہیں-لیکن یہ تلاش ناکام رہی- گوہر جان ایک بڑا نام تھا ، ایک بڑی ہستی تھی اور ایک بڑی فنکارہ تھیں -اس لیے مہاتما گاندھی کا وعدہ کرنے کے باوجود اس محفل میں نہ پہنچنا اسے بہت ناگوار گزرا

گوہر جان کاانوکھا انتقام

اگلے دن گاندھی جی نے اپنے ساتھی مولانا شوکت علی کو چندہ لینے کے لیے بھیجا تو گوہر غصے سے بھری بیٹھی تھیں۔ جب اس نے پیسے مانگے تو گوہر نے صرف 12 ہزار روپے دیے اور کہا - تمہارے باپو جی ایمان کی بات کرتے ہیں، لیکن ایک معمولی طواف کا وعدہ پورا نہیں کر سکے۔ وہ خود نہیں آیا، اس لیے سوراج فنڈ اب صرف آدھی رقم کا حقدار ہے۔وہ اپنے وقت کی امیر ترین طوائف تھیں۔ 1910 میں، گوہر جان، جن کی مجموعی مالیت تقریباً ایک کروڑ تھی-

کون تھی اور کہاں سے آ ئی تھی 

کہتے ہیں  گوہر جان 26 جون 1873 کو اعظم گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ اس کا نام ایلین انجلینا تھا، اس کے والد آرمینیائی نژاد ولیم رابرٹ اور ہندوستانی نژاد ماں وکٹوریہ ہیمنگ  تھیں جو آئس فیکٹری میں کام کرتی تھیں۔ صرف 6 سالہ ایلین کے سامنے والدین کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد والدہ وکٹوریہ نے مسلم خورشید سے شادی کی اور اسلام قبول کیا۔ وکٹوریہ 1883 میں شادی کے بعد کولکتہ آگئیں، جہاں انہیں بڑی ملکا جان کے نام سے پہچانا گیا۔ اسی دوران بیٹی ایلین کا نام گوہر جان ہو گیا۔

گلوکاری کا شوق، تربیت اور محفل

اس دور میں گلوکاری کا شوق پورا کرنا اور تربیت حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن ملکہ جان اور ان کی بیٹی گوہر نے گلوکاری اور کلاسیکی رقص کی تربیت لی۔ پٹیالہ کے کالے خان، علی بخش، رام پور کے استاد وزیر خان، کولکتہ کے پیارے صاحب اور لکھنؤ کے عظیم مہاراج بندا الدین ان کے گرو تھے۔ 3 سال کے اندر ملکہ جان نے 24 چت پور روڈ (رابندر سرانی) میں 40 ہزار روپے میں ایک عمارت خریدی، جہاں وہ اپنی محفل سجاتی تھیں۔

رقص و موسیقی میں تربیت کے آٹھ سال گزارنے کے بعد بائی جی کہلوانے لگیں۔ اپنے معاصروں میں بہت سی ہم نام فنکاراؤں (مثلا ملکہ جان آگرے والی، ملکہ جان ملک پکھراج والی اور ملکہ جان آف چلبلی) میں ممتاز مقام کی وجہ سے اسے بڑی ملکہ جان کے نام سے پکارا جاتا تھا

مہاراجہ دربھنگہ پر چلا جادو

پہلی کارکردگی سے دربھنگہ کے بادشاہ کا دل جیت لیا۔ گوہرجان کی پہلی پرفارمنس 14 سال کی عمر میں ہوئی تھی۔  1896ء میں وہ کلکتے کے امرا کی محفلوں سے باقاعدہ متعارف ہوئیں اور اس کی مقبولیت عوام الناس تک پہنچنے لگی۔ گانے پر رقص کرتے ہوئے گوہر جان کولکتہ کی پہلی ڈانسنگ گرل بن گئی تھیں۔ دربھنگہ کے مہاراجہ کو اپنی اداکاری سے متاثر کرتے ہوئے، وہ ان کی محفل کی گلوکارہ بن گئیں۔

عام نہیں خواص کی گلوکارہ

 حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دور میں بھی گوہر جان عام گلوکارہ نہیں تھیں، وہ خاص لوگوں کے لئے گانا گایا کرتی تھیں- یعنی  محفلیں ہوتی تھیں مگر عام لوگ ان کے گانے نہیں سن سکتے تھے۔ گوہر جان کی حیثیت ایسی تھی کہ وہ صرف مہاراجاوں کی محفلوں میں گاتی تھیں، جہاں صرف شاہی خاندان کے لوگ ہی شریک ہوتے تھے۔ اس کا گانا سننا عام لوگوں کے لیے ایک خواب تھا،-

گوہر جان کا فن اور قدردان

گوہر جان نے راگداری سنگیت، ٹھمری، دادرا، بھجن، کجری، چیٹی اور ترانہ گائیکی میں کمال اور بے پناہ شہرہ پایا۔ انہوں نے پورے ہندوستان کا سفر کیا اور ملک کی سب سے مؤقر موسیقی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ 1911ء میں اسے1000 روپے کے عوض پریاگ سنگیت سمیتی میں شرکت کا دعوت نامہ ملا

بادشاہ جارج پنجم کی تاجپوشی کے موقع پر اسے دہلی دربار مدعو کیا گیا جہاں اس نے جانکی بائی الہ آباد والی کے ساتھ مل کر تاجپوشی کا مجرا گایا؛ یہ ہے تاجپوشی کا جلسہ، مبارک ہو، مبارک ہو۔ اس مجرے پر انہیں بادشاہ کی طرف سے بھاری انعامات سے نوازا گیا

پہلی ہندوستانی آواز جو گراموفون پر ریکارڈ ہوئی

گوہر جان کی آواز نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے لئے توجہ کا مرکز بن چکی تھی- بڑی ہستیوں اور بڑے دولت مندوں کی بڑی محفلوں کو رونق بخشنے کے لیے مشہور ہو چکی تھی- اس دوران یسویں صدی کے اوائل تک انگلستان، امریکا، فرانس اور جرمنی کی متعدد گراموفون کمپنیاں مقامی صنعتوں سے باہر ایشیائی اور خاص طور پر ہندوستان میں گراموفون ریکارڈ کی ممکنہ صنعت کی طرف متوجہ ہو رہی تھیں۔ 1898ء میں گراموفون کمپنی لندن نے اپنی پہلی مشرق بعید گراموفون ریکارڈنگ مہم کے آغاز کیا-

گوہر جان نے 3000 روپے کے معاوضے پر راگ جوگیا میں گائے گئے ایک خیال سے اس ریکارڈنگ کا آغاز کیا۔ 14 نومبر 1902ء کو کلکتے کے ایک ہوٹل میں صبح 9 بجے 30 سالہ گوہر جان قیمتی زیورات میں لدی پھندی، اپنے سازندوں کے ٹولے کے ساتھ پہلی ریکارڈنگ کروا ئی۔ بھیروی میں گائے گئے تین منٹ دورانیے کے اس ریکارڈ کے آخر پر وہ انگریزی میں یہ کہتی ہوئی سنائی دیتی ہے؛ "مائی نیم از گوہر جان"۔

ریکارڈ ز کا ٹوٹا ریکارڈ

دراصل1903ء میں ہی اس کے ریکارڈز نے مقامی خرایداروں کی ایک بڑی تعداد کو مائل کر لیا تھا۔ گوہر جان نے 1902 سے 1920 تک 600 کے لگ بھگ گانے ریکارڈ کروائے۔گوہر جان نے 150 کے قریب ریکارڈ چھوڑے ہیں۔

آزادی کے بعد دوبارہ ریکارڈز کی واپسی

پھر جنگ آزادی ، آزادی اور آزادی کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ گوہر جان کی کہانی بھی دھول اور گرد کے انبار میں گم چلی گئی لوگ ان ریکارڈز کو بھول گئے جو گراموفون کمپنی نے گوہر جان کی آواز کو محفوظ کرنے کے لیے تیار کیےتھے-

 ان تاریخی اہمیت کے حامل ریکارڈز کی بحالی اور دوبارہ اجرا کے لیے متعدد اقدام ہوئے ہیں۔ سارے گاما انڈیا (سابقہ گراموفون کمپنی آف انڈیا یا'ہز ماسٹر وائس' ایچ ایم وی) نے گراموفون کمپنی لندن کے تعاون سے ان ریکارڈز کے دوبارہ اجرا کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ 1994 میں گراموفون کمپنی نے گوہر جان کے 18 ریکارڈز 'چیئرمین وائس' کے نام سے آڈیو کیسٹ اور آڈیو سی ڈی میں جاری کیے۔ 2006ء میں جاری ہونے والے البم 'ونٹیج میوزک آف انڈیا'میں بھی ان ریکارڈز کو شامل کیا گیا

ذاتی  زندگی  اور المیے

گوہر جان نے ایک شاہانہ زندگی بسر کی، لیکن ان کی ذاتی تعلقات کے حوالے سے متعدد تلخیاں بھی زندگی کا حصہ رہیں۔ک ان کی شادی پشاور کے ایک جوان سید غلام عباس کے ساتھ ہوئی، جو اس کا سیکرٹری اور عمر میں ان سے دس برس چھوٹے تھے، لیکن یہ شادی کامیاب نہیں ہو سکی اور  عدالتی تنازعوں اور علیحدگی پر تمام ہوئی۔

گوشہ نشینی سے موت تک 

علیحدگی کے بعد ممبئی میں گجراتی تھئیٹر اداکارامرت کیشو نائک کے ساتھ رہنا شروع کر دیا تھا۔مگر امرت کی موت  گوہر جان کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ثابت ہوتی۔وہ کچھ عرصہ ریاست دربھنگہ میں قیام کے بعد میسور چلی گئیں، جہاں وہ مہاراجا کرشناراجہ واڈیار کے دربار سے وابستہ رہی۔ یہیں میسور میں مکمل تنہائی اور اداسی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہو گئیں۔

مگر آج بھی تاریخ میں گوہر جان کو مہاتما گاندھی کی مالی مدد کے لیے یاد کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہے گا- ایک طوائف کے قومی جذبے کی مثال بنی تھیں گوہر جان- جنہوں نے نے ملک کی آزادی کے لئے اپنے طور پر ہر ممکن مدد کی تھی

 

مضمون کے لیے انٹر نیٹ کے مواد کی مدد لی گئی ہے