عصمت اُسامہ
کچھ کردار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں !اگرتاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھئے تو پتہ چلے گا کہ انگریزوں کے تسلط سے ہندوستان کو نجات دلانے کے لیےبے شمار ہندوستانیوں نے اپنی جانوں کو قربان کیا ہے۔انگریزی حکومت کے خلاف ہندوستانیوں کی جدوجہد میں بڑے بڑے نام اور کردار سامنے آئے ہیں۔ مثلاً تیتو میر، بیگم حضرت محل،جعفر تھانیسری،شہید اشفاق اللہ خان، مولاناحسین احمد مدنی،بہادرشاہ ظفر اور نہ جانے کتنے نام ہماری نظروں میں گھوم رہے ہیں۔ ان میں ایک اہم نام شیر میسور ٹیپو سلطان کا بھی ہے۔ جنہوں نے انگریزوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے بجائے جام شہادت نوش فرمایا تھا۔، تاریخ کے اوراق پلٹیں تو قدم قدم پہ کوئی پر شکوہ شخصیت اپنے جلال و جمال کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے- ان عظیم شخصیات نے تاریخ میں سنہرے ابواب رقم کئے ہیں جو آج بھی مشعل راہ ہیں۔
سلطان حیدر علی کے بیٹے سلطان فتح علی ٹیپو کی پیدائش 20 نومبر 1750میں دیوانہالی میں ہوئی۔آپ کو تقریبا سات زبانیں آتی تھیں اور سائنسی علوم میں مہارت رکھتے تھے، یہ امر خوشگوار حیرت کا سبب ہے کہ دنیا میں راکٹ سازی اور میزائل ٹیکنالوجی کا موجد ٹیپو سلطان ہے جس نے 1792 میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے دشمن کو شکست دی _اتنی طاقت حاصل ہونے کے باوجود ظاہری چمک دمک سے دور تھے اور سادہ زندگی بسر کیا کرتے تھے _بادشاہ ہونے کے باوجود زمین پر کھدر بچھا کے سو جایا کرتے تھے!
سلطان فتح علی ٹیپو کی سلطنت 80 ہزار مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی جبکہ فوجیوں کی تعداد 88 ہزار تھی _آپکی ایک اور نایاب خوبی یہ تھی کہ اپنے نام اور ذات کا پرچار کرنے سے گریز کرتے تھے _خود نمائی سے بچنے کے لئے اپنے نام کا سکہ بھی جاری نہ کروایا _سلطان نے سرنگا پٹم میں ایک یونیورسٹی “جامع الامور “کے نام سے قائم کی جہاں دینی و جدید علوم سکھائے جاتے تھے۔
.webp)
ٹیپو سلطان کا اسکیچ
ایک پرنٹنگ پریس بھی لگوایا جہاں سے ایک ہفت روزہ اخبار اردو زبان میں چھاپا جاتا تھا، یہ اخبار افواج کو پڑھایا جاتا تھا _ٹیپو سلطان کی لائبریری میں تقریبا 45 ہزار کتابیں تھیں ، انکے میر منشی زین العابدین شوستری نے “سلطان التاریخ ” نامی کتاب تصنیف کی تھی جس کا پہلا حصہ “سلطان حیدر علی “اور دوسرا ” ٹیپو سلطان “کے عہد حکمرانی (1789 )کے واقعات پر مشتمل تھا -مصنف زین العابدین نے یہ تاریخی واقعات ٹیپو سلطان سے سن کے قلمبند کئے تھے_
سلطان بہت سمجھدار اوردور اندیش حکمران تھاوہ اس حقیقت کو جان چکا تھا کہ انگریز برصغیر میں صرف تجارت کی غرض سے نہیں آئے بلکہ وہ یہاں کے سیاہ و سفید کے مالک بننا چاہتے ہیں ،اس خطرے کو بھانپتے ہوئے اس نے ہندوستان کی ہر ریاست کو اتحاد کی دعوت دی لیکن وہ حاکم اس حکمت عملی کو سمجھنے میں ناکام رہے اور مشترکہ دشمن کے خلاف متحد نہ ہوسکے _دوسری طرف دشمن جو بہت عیار اور چوکنا تھا، اس نے ٹیپو سلطان جیسے سچے اور خداترس انسان کے خلاف افواہوں کا بازار گرم کردیا ، سنی سنائی باتیں بغیر تحقیق کے آگے بڑھتی گئیں اور ریاستوں کے حکمران ٹیپو کے خلاف ہوتے گئے۔
اس طرح رائے سازی کر کے سلطان کے ارد گرد نفرت کا جال بن دیا گیا- ایک طرف سلطان کو اس کے ممکنہ حلیفوں سے دور کردیا گیا اور دوسری جانب سلطان کی صف میں غداروں کو پروان چڑھایا گیا ، مؤرخین لکھتے ہیں کہ انگریز افواج کی کثرت ، سلطان ٹیپو کے جزبہ ، جرات و شجاعت کے سامنے ٹک نہ سکتی تھی اگر اندرونی غداروں (میر صادق ، معین الدین ، غلام راجہ خان ، میر قاسم علی ، میر غلام علی ، دیوان پورنیا )نے گھر کی بنیادیں نہ ڈھائی ہوتیں!
ٹیپو سلطان کے الفاظ تاریخ کے سنہرے اوراق میں ہمیشہ محفوظ رہیں گے ، جب 4 مئ 1799 کی نماز فجر کی ادائیگی کے بعد سلطان کے پرائیویٹ محافظ نے انگریز کے حملے سے بچنے کے لئے دب کے صلح کی تجویز پیش کی تو سلطان ٹیپو نے جواب دیا ہم سالوں سے اس سلطنت خداداد کو جو ہماری رعایا با لخصوص مسلمانوں کی ملکیت ہے بچانے کی فکر کر رہے ہیں لیکن وزرا و افسران سلطنت ہی درپردہ اسکی تباہی کے درپے ہیں ، انسان کو صرف ایک دفعہ موت آتی ہے ، اس سے ڈرنا لا حاصل ہے ، اسکی کوئی اہمیت نہیں کہ وہ کب آئے اور کہاں ائے ، میں اپنی ذات کو مع اپنی اولاد کے ، دین _محمدی ، علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام پر نثار کرنے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔

ٹیپو سلطان کا مزارا
انگریزوں نے جنرل بیرڈ کی قیادت میں سرنگا پٹم کے قلعہ پر کئی اطراف سے دھاوا بول دیا _ٹیپو سلطان کے متعین کردہ حفاظتی دستے (سیکیورٹی )کو ایک سازش کے تحت پہلے ہی ہٹادیا گیا تھا ، چنانچہ دشمن کو اندر داخل ہونے میں کوئی چیز مانع نہ ہوسکی _ٹیپو سلطان نے اپنے وفاداروں کے ساتھ مردانہ وار مقابلہ کیا ، جن میں مردو خواتین سب شامل تھے ۔
عین گھمسان کی جنگ میں جب ایک خادم نے آپ کو دشمن سے صلح کی ترغیب دینا چاہی تو سلطان نے اس نازک موقع پر یو ٹرن لینے سے انکار کردیا ، آپ جلال میں آگئے اور اپنا تاریخی جملہ کہا : شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ! اور چومکھی لڑائی لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا -جنرل ہیرس نے ٹیپو سلطان کے شہید جسم کو دیکھا تو بے اختیار نعرہ لگایا،آج سے ہندوستان ہمارا ہے !۔
اس معرکہ میں سلطان فتح علی ٹیپو کے کم و بیش بارہ ہزار مردو خواتین نے اپنے سلطان کے وقار اور دھرتی کے ناموس کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا _ملت اسلامیہ کا یہ بطل _جلیل سرنگا پٹم کے لال باغ میں آرام فرما ہے ,اور ہر سچے و نڈر انسان کے دل میں زندہ ہے!
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جان کی تو کوئی بات نہیں!