بائیڈن کے لئے بھی ہندوستان سے دوستی کی بے حد اہمیت ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-02-2021
بائیڈن انتظامیہ اور ہندوستان۔امریکہ تعلقات
بائیڈن انتظامیہ اور ہندوستان۔امریکہ تعلقات

 

   پرویز حفیظ ۔۔ کولکتہ   Parwez Hafeez

 وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے بے حد قریبی ذاتی رشتوں کے سبب، ڈیموکریٹ رہنما جو بائیڈن کے 46 ویں صدر منتخب ہونے کے بعد سے یہ قیاس آرائیاں ہونے لگی تھیں کہ اب ہندوستان اور امریکہ کے رشتوں کی نوعیت کیا ہوگی۔ لیکن پچھلے چند ہفتوں میں خصوصاً بیس جنوری کو نئی امریکی انتظامیہ کی حلف برداری کے بعد وائٹ ہاؤس نے یہ واضح کردیا ہے کہ اگلے چار سالوں میں دونوں ممالک کے مضبوط اور خوشگوار رشتوں میں کوئی ڈارامائی تبدیلی نہیں ہونے جارہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ مودی اور ٹرمپ جگری دوست بن گئے تھے تاہم دو ممالک کے تعلقات کا تعین ان کے باہمی مفادات کرتے ہیں ان کے سربراہوں کے نجی رشتے نہیں۔

یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کے تئیں بائیڈن کا رویہ کبھی بھی مخاصمانہ نہیں رہا ہے۔ اس کے برعکس انہوں نے اپنے طویل سیاسی کیریر میں ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو گہرا اور مزید مستحکم کرنے کی حمایت کی ہے۔ جب بائیڈن سینیٹ فارن ریلشنز کمیٹی کے چیرمین تھے اس وقت سے وہ ہندوستان اور امریکہ کو قریب تر لانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور حکومت میں جب بھارت نے جوہری دھماکہ کیا تھا تو امریکہ نے سزا کے طور پر اس پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔ 2001 میں ان امریکی پابندیوں کو ہٹوانے میں بائیڈن نے بے حد اہم کردار اد ا کیا تھا۔ اسی طرح من موہن سنگھ کی یو پی اے سرکار کے ساتھ ہندوستان۔امریکہ جوہری معاہدہ کو سینیٹ سے پاس کروانے میں بھی ان کی خدمات کچھ کم نہیں تھیں۔

جب واشنگٹن نے ہندوستان کو’بڑے دفاعی ساجھے دار‘ کا رتبہ دیا اس وقت بائیڈن، براک اوبامہ کابینہ میں نائب صدر تھے۔ پچھلے سال انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہندوستان کو امریکہ کا " فطری پارٹنر" قرار دیا تھا۔ جو بائیڈن انتظامیہ میں نئے امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن نے اپنے عہدے کی توثیق کے موقع پر یہ نہایت اہم بات کہی کہ ہندوستان مختلف امریکی حکومتوں کے Bipartisan Consensus (دوطرفہ) اتفاق کی کامیاب مثال ہے۔ ایسے کئی پالیسی امور ہوتے ہیں جن پر حکومت اور اپوزیشن دونوں فریق یکساں طور پر اتفاق رائے رکھتے ہیں انہیں ٰ Issues Bipartisan کہتے ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات امریکی فارن پالیسی کا ایک ایسا موضوع ہے جس پر ڈیمو کریٹ اور ریپبلیکن دونوں پارٹیوں کے درمیان کوئی تفرقہ نہیں ہے۔ ہندوستان۔ امریکہ تعلقات اور خصوصاً ان کے مابین جاری دفاعی تعاون ایسے ہی امور ہیں جن پر مکمل طور پر دوطرفہ اتفاق رائے سکریٹری خارجہ ہرش شرنگلاکے مطابق خواہ واشنگٹن اور نئی دہلی میں کسی بھی پارٹی کی حکمرانی ہو دونوں ممالک کے آپسی رشتے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں اور ہونے جائیں گے کیونکہ ہندوستان کو امریکہ میں غیرمعمولی دو طرفہ حمایت حاصل ہے۔شرنگلا امریکہ میں ہندوستانی سفیر رہ چکے ہیں۔

ماضی میں ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات میں سرد مہری تھی۔ لیکن تیس سال قبل سویت یونین کے زوال کے بعد اور خصوصاً ڈیموکریٹ صدر بل کلنٹن کے دور اقتدار میں دونوں ممالک کی دوریاں ختم ہوئیں اور وہ ایک دوسرے کے کافی قریب آگئے۔ ان رشتوں میں مزید بہتری جارج بش کے دور صدارت میں آئی اور اسی معیاد میں تاریخ ساز جوہری معاہدہ کیا گیا۔ بش کا تعلق ریپبلیکن پارٹی سے تھا۔ اوبامہ کے وائٹ ہاؤس میں قیام کے دوران یہ رشتے مزید مستحکم ہوئے اور ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد یہ نئی بلندیوں کو چھونے لگے۔ قارئین کو یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اوبامہ ڈیموکریٹ تھے اور ٹرمپ ریپبلیکن۔ غور طلب بات یہ ہے کہ گذشتہ تین دہائیوں میں واشنگٹن میں ہر امریکی صدر کے دور اقتدار میں ہندوستان اور امریکہ کے رشتوں میں نہ صرف استقامت اور پائیداری قائم رہی بلکہ وہ مزید پروان چڑھے۔

آج سیکورٹی ہو یا دفاع، سرمایہ کاری ہو یا تجارت، صحت ہو یا آئی ٹی میں باہمی تعاون، امریکہ اور ہندوستان اور امریکہ کے رشتوں میں مسلسل وسعت ہورہی ہے۔ ہندوستان اور امریکہ دنیا کی دو سب سے بڑی جمہوریتیں ہیں اور دونوں مختلف بین الاقوامی امور پر ہم خیال بھی ہیں اور ہم نوا بھی۔ امریکہ میں ہندوستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ خود بائیڈن انتظامیہ کے اندر بیس سے زیادہ ہندوستانی نژادامریکی اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ اس سے بڑی بات اور کیا ہوگی کہ ایک ہندوستانی ماں کی بیٹی کملاہیرس آج امریکہ کی نائب صدر ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تنگ نظر، نسل پرستانہ اور آمر انہ روش کے حامل ٹرمپ کے برعکس بائیڈن لبرل، روادار، ترقی پسنداور جمہوری اقدارکے علمبردار ہیں۔ بائیڈن اور ہیرس کے لئے رنگ، نسل یا مذہب کی بنیاد پر انسانوں میں بھید بھاؤ یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ناقابل بر داشت ہیں۔ اسی لئے پچھلے سال جون میں اپنی انتخابی مہم کے دوران بائیڈن نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے، وادی میں طویل لاک ڈاؤن اور سی اے اے اور این آری سی جیسے متنازع شہری قوانین کی تنقید کی تھی۔ بائیڈن نے نئی دہلی سے کشمیریوں کے حقوق بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور کملا ہیرس نے کشمیریوں کو تسلی دی تھی کہ وہ خود کو تنہا نہ سمجھیں۔ اسی لئے کچھ لوگوں کو یہ خدشہ تھاکہ شاید بائیڈن ہندوستان کے لئے اچھے امریکی صدر ثابت نہ ہوں اور اگلے چار سالوں میں ہندوستان اور امریکہ کے رشتوں میں سر دمہری آجائے۔

میری رائے یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ مودی اور ٹرمپ کے رشتوں میں جو گرم جوشی اور والہانہ پن تھا وہ مودی اور بائیڈن کے تعلقات میں نظر نہ آئے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہندوستان میں جمہوری حقوق یا آزادیء اظہار رائے کے ایشوز مثلاً کسانوں کے احتجاج پر بائیڈن انتظامیہ خاموش تماشائی بنی نہ رہے اورکوئی بیان جاری کردے۔ پچھلے چند سالوں میں دونوں ممالک کے درمیان ’جامع عالمی اسٹریٹجک شراکت داری‘ قائم ہوچکی ہے۔ اس لئے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا دونوں کے رشتوں پر کوئی خاص اثر پڑے گا۔

حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے عسکری رشتے بہت آگے جاچکے ہیں۔ امریکہ ہندوستان کو بیچے جانے والے جنگی سازو سامان کا حجم بڑھانے کے لئے کوشاں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اہم انٹلی جنس شئیر کررہے ہیں اور مشترکہ ملٹری تربیت میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ ویسے بھی عالمی منظرنامے پر چین کی روزافزوں جارحیت کے پیش نظر اس پارٹنر شپ کو برقرار رکھنا دونوں ممالک کے مفا د میں بھی اور دونوں کی مجبوری بھی۔ انڈو۔پیسیفک خطے میں چین کے بڑھتے فوجی دبدبے اور سیاسی اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے کی خاطر امریکہ، ہندوستان، جاپان اور آسٹریلیانے ایک مشترکہ محاذ بنارکھا ہے۔ ان چاروں ممالک کی نیوی نے نومبر میں سمندر میں مشترکہ بحری طاقت کا عدیم المثال مظاہرہ کیا تھا جس سے بیجنگ کافی پریشان ہوگیا تھا۔ اس نے تو اس مشترکہ محاذ کو ایشیا کا نیٹو کا لقب دے دیا تھا۔ اگر کسی کو ہندوستان کے تئیں نئی امریکی انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کے متعلق کچھ تحفظات تھے تو وہ اس وقت دور ہوگئے ہوں گے جب وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایملی ہوم نے ایل اے سی پر ہندوستان کی سر زمین پر چین کی جارحانہ شورشوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ کی اپنے ہم سایہ ممالک پر د ھونس جمانے کی کوششیں لگاتار جاری ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کا یہ بیان کہ امریکہ انڈو پیسیفک خطے میں مشترکہ سلامتی اور اقدار کی حفاظت کے لئے اپنے دوستوں اور پارٹنرز کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑا رہے گا اس بات کا ثبوت ہے کہ بائیڈن کے لئے بھی ہندوستان سے دوستی کی بے حد اہمیت ہے۔