خواتین کے لیے مسجد کی راہ میں رکاوٹ اسلام نہیں سماجی فتنہ ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 12-03-2022
خواتین کے لیے مسجد کی راہ میں رکاوٹ اسلام نہیں سماجی فتنہ ہے
خواتین کے لیے مسجد کی راہ میں رکاوٹ اسلام نہیں سماجی فتنہ ہے

 

 

awazthevoice

پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی

 آٹھ مارچ ہر سال دنیا بھر میں بین الاقوامی یومِ خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس کا مقصد دنیا بھر میں عورتوں کے تئیں غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا، ان کو عطا کردہ حقوق کی وضاحت کرنا اور انسانی سماجوں میں جنسی تفریق اور خاص طور پر مردوں کی عورتوں پر بلا وجہ کی بالادستی کو ختم کرنا ہوتا ہے۔

 ہندوستان ہی نہیں دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کی جو گھیرابندی کی جاتی ہے، ان پر تنقیدیں کی جاتی ہیں، ان میں ایک وجہ مسلم معاشرے میں عورتوں کے ساتھ نامناسب سلوک بھی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ذمہ دار اور مہذب معاشرے کی طرح مسلمانوں میں بھی عورتوں کے بارے میں ہر طرح کے رویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مسلمانوں کا عام طور پر یہ احساس ہے کہ بیوی رحمت ہے، بیٹی نعمت ہے اور ماں جنت ہے۔

یہ اسلام ہی تھا جس نے سب سے پہلے مرد اور عورت کی مساوات کو قرآن کے لفظوں میں بیان کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لئے لباس قرار دیا۔ سراپا رحمت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبل رحمت پر کھڑے ہوکر اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں عورتوں کو مردوں کے ہاتھوں میں خدا کی امانت قرار دیا اور ان سے بہتر سلوک کی تلقین کی۔

یہ اسلام ہی تھا جس نے بچیوں کو پیدا ہوتے ہی شرمسار ہوکر ان کے والدوں کے ذریعے ان کو زندہ قبر میں دفنا دینے کی روایت کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کو ہمیشہ کے لئے ختم کرا دیا۔ اس کے علاوہ یہ اسلام ہی تھا جس نے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ عورتوں کو وراثت میں حصے دار بنایا۔ شادی کے لئے عورت کی پسند کی ترجیح دی گئی اور اس کی اجازت کے بغیر نکاح کو جائز ہی نہیں رکھا۔ women empowermentیعنی خواتین کے بااختیار ہونے کے جتنے بھی امکانات ہو سکتے ہیں وہ سب اسلام میں اس کے زمانہ آغاز سے خود جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی خواتین میں موجود تھے۔

مثال کے طور پر ام المومنین حضرت خدیجہؓ، اکانومک ایمپاورمنٹ کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ اسی طرح ایجوکیشنل ایمپاورمنٹ کی علامت حضرت عائشہ صدیقہؓ ہیں۔ پالیٹیکل ایمپاورمنٹ کا بہترین نمونہ ام المومنین حضرت ام سلمیٰؓ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی سیدہ زینبؓ ہیں۔ جہاں تک روحانی رفعت اور مرتبے کی بات ہے تو نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی تربیت یافتہ تمام صحابیات اس کا چلتا پھرتا نمونہ تھیں اور بعد میں بھی رابعہ بصری جیسی عظیم المرتبت صوفی خاتون نے اس کو اور زیادہ بلندیاں بخشیں۔

آج کل کچھ دنیا کو بھی ایسا شوق ہے کہ وہ مسلمانوں کے حوالے سے نان ایشوز (non-issues) کو ایشو بنانے پر لگ جاتے ہیں اور ہم مسلمان بھی بلاوجہ اس کو اپنی اَنا اور مذہبی غیرت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مسئلہ مسجدوں میں عورتوں کے داخلے سے متعلق رہ رہ کر اٹھایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں اگر نصوص شرعیہ کا جائزہ لیا جائے یعنی قرآن و حدیث کا اس باب میں مطالعہ کیا جائے تو قرآن مجید میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ عورتیں مسجد میں نہیں جا سکتیں۔

عبادات سے متعلق جو احکام ہیں وہ عمومی ہیں یعنی ان میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ اس لئے قرآن مجید میں جو بھی احکامات دیے گئے ہیں وہ دونوں کے لئے یکساں مانے جائیں گے۔ جب تک کہ کوئی ایسی نہ ہو جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ یہ حکم خاص مردوں یا عورتوں کے لئے ہے۔

حدیث شریف سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ عورت عبادت کے لئے مسجد میں جا سکتی ہے۔ مثلاً حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ کی اہلیہ فجر اور عشا کی نماز باجماعت سے پڑھنے کے مسجد جاتی تھیں۔ ان سے کہا گیا کہ جب آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے شوہر آپ کا گھر سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتے تو آپ مسجد کیوں جاتی ہیں؟

وہ کہنے لگیں کہ اگر ان کو میرا مسجد جانا پسند نہیں ہے تو منع کیوں نہیں کر دیتے؟ ان کو جواب دیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان کہ اللہ کی بندیوں کو مسجد جانے سے مت روکو۔ ان کے لئے مانع ہے۔(بخاری شریف)

اسی مفہوم کی کئی احادیث بخاری شریف میں موجود ہیں اور صحاحِ ستہ کی دوسری کتابوں میں بھی ہیں۔ مثال کے طور پر مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ نے فرمایا کہ جب تمہاری عورتیں مسجد میں جانے کے لئے اجازت مانگیں تو تم ان کو منع مت کرو۔ تو وہاں موجود حضرت عبداللہؓ کے بیٹے حضرت بلالؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تو ان کو مسجد جانے سے ضرور منع کروں گا۔

راوی کا بیان ہے کہ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن عمرؓ اس قدر شدید ناراض ہوئے کہ اتنا کسی اور پر ناراض نہ ہوئے تھے اور فرمایا کہ میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تم اس کے باوجود کہہ رہے ہو کہ ہم ضرور منع کریں گے۔ یعنی حدیث کے مخالفت کر رہے ہو۔ اسی مفہوم کی احادیث میں مسلم شریف میں اور بھی کئی ایک روایتیں موجود ہیں۔ ان میں سے بعض کے ساتھ شرائط بھی عائد ہیں۔ مثلاً یہ کہ عورت خوشبو لگا کر مسجد میں نہ جائے۔ اسی طرح اگر فتنے فساد کا خطرہ ہو تو بالکل نہ جائے۔

خلفاء راشدین کے زمانے میں عورتیں مسجد میں جاتی تھیں اور وہاں جو معاملات سامنے آتے تھے ان پر پوری بے خوفی کے ساتھ اپنی رائے بھی دیتی تھیں۔ مثال کے طور پر مشہور واقعہ ہے کہ مردوں کی شکایت پر امیرالمومنین حضرت عمر ابن خطابؓ نے مہر کی رقم کو محدود کرنے کا اعلان کرنا چاہا، جب وہ یہ اعلان کرنا ہی چاہتے تھے تبھی ایک خاتون نے کھڑے ہوکر حضرت عمرؓ سے کہا کہ ہمارے جس حق کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے محدود نہ کیا اس کی تحدید کرنے والے آپ کو ن ہوتے ہیں؟ اور حضرت عمرؓ نے اپنا فیصلہ واپس لیا۔

یہ ایک واقعہ خود اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ خواتین کس طرح نہ صرف مسجدوں میں جاتی تھیں بلکہ وہاں ہونے والے فیصلوں پر اثر انداز بھی ہوتی تھیں۔

آج بھی عورتوں کے لئے مسجدوں میں جانا اور نماز میں شریک ہونا صرف عالم اسلام میں ہی نہیں خود ہندوستان میں بھی پوری طرح رائج ہے۔ دہلی کی تاریخی شاہجہانی مسجد جسے جامع مسجد کے نام سے پکارتے ہیں وہاں پر عورتیں اپنی صفیں الگ بنا کر امام کے پیچھے نماز ادا کرتی ہیں اور ایسا صرف دہلی میں ہی نہیں بلکہ دوسرے شہروں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

اب اگر عورتیں بڑی تعداد میں مسجدوں میں نہیں جا رہی ہیں تو اس کی وجہ اسلام کی طرف سے کوئی پابندی یا ممانعت نہیں بلکہ ہمارے سماج میں جو فتنہ اور فساد ہے اور جس طرح ہم عورت کو اپنی طرح ایک انسان نہیں بلکہ صرف جسم سمجھتے ہیں اس کی وجہ سے عورتیں نماز پڑھنے کے لئے مسجدوں کے بجائے گھروں کی چہار دیواری کے اندر ہی ان کی ادائیگی کو ترجیح دیتی ہیں۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)