رنگوں کا تہوارعیدِگلابی:تاریخ،تہذیب اورادب

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 16-03-2022
رنگوں کا تہوارعیدِگلابی:تاریخ،تہذیب اورادب
رنگوں کا تہوارعیدِگلابی:تاریخ،تہذیب اورادب

 

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

ہولی کے تہوار کا تعلق ہندوستان کی تہذیبی وثقافتی روایات سے بہت گہراہے۔یہی سبب ہے کہ لوک ادب سے اردو شاعری تک پر اس کے اثرات دکھائی پڑتے ہیں۔نظیراکبرآبادی سے لے کربیکل اتساہی تک نے اس موضوع پرنظمیں لکھی ہیں۔

جب ہندوستانی تیج تیوہاروں کے حوالے سے اردو شاعری پر گفتگو ہوتی ہے تو ذہن میں سب سے پہلا نام نظیر اکبرآبادی کا آتا ہے۔ نظیر ایسے شاعر ہوئے ہیں جنھیں پہلا عوامی شاعر کہاجاتا ہے۔ جب اردو شاعری کی قندیل بادشاہوں کے محلوں اور نوابوں کی محفلوں کو منور کر رہی تھی،اسی دوران نظیر اردو زبان وادب کو عوام الناس میں مقبول بنا رہے تھے۔جس دور کے شعراء،بادشاہوں اور اہلِ منصب کی مدح میں قصیدے تحریر کررہے تھے، نظیراکبرآبادی عوامی موضوعات پر شاعری کر رہے تھے۔

بعد کے دور نے یہ ثابت کیا کہ مال وزر کی لالچ میں کہے گئے قصیدے کبھی کلیات سے باہر نہیں نکل سکے مگر عوامی موضوعات نے اس ملک کے لوگوں کے دلوں کو چھوا اور یہی سبب ہے کہ مدت گزرنے کے بعد بھی وہ مقبول ہیں۔

awaz

مغل دربارمیں ہولی کے تہوارکی منظر کشی کرنے والی ایک پینٹنگ

ہولی کب؟

آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان ایک قدیم ملک ہے،جہاں آئے دن مختلف تیج تیوہار منائے جاتے رہتے ہیں۔انھیں تیوہاروں میں سے ایک ہولی بھی ہے۔

ہولی موسم بہار میں منایا جانے والا ایک اہم  تہوار ہے. یہ تہوار ہندو تقویم کے مطابق پھاگن ماس کی پورے چاند کو منایا جاتا ہے۔ رنگوں کا تہوار کہا جانے والا یہ تہوار روایتی طور پر دو دن منایا جاتا ہے۔

کہاں کہاں بکھرتے ہیں ہولی کے رنگ؟

ہندوستان اور نیپال میں یہ زیادہ اہمیت سے منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار بہت سے دیگر ممالک جن میں اقلیتی ہندو لوگ رہتے ہیں وہاں بھی دھوم دھام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔پہلے دن کو الائو جلائی جاتی ہے، جسے الائو دہن یا ہولیکا دہن کہتے ہیں۔جب کہ دوسرے دن لوگ ایک دوسرے پر رنگ، عبیر، گلال وغیرہ پھینکتے ہیں، ڈھول بجا کر ہولی کے گیت گائے جاتے ہیں اور گھر گھر جا کر لوگوں کو رنگ لگایا جاتا ہے۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ ہولی کے دن لوگ پرانی تلخی کو بھول کر گلے ملتے ہیں اور پھر سے دوست بن جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو رنگنے اور گانے ،بجانے کا دور دوپہر تک چلتا ہے۔ اس کے بعد غسل کر کے آرام کرنے کے بعد نئے کپڑے پہن کر شام کو لوگ ایک دوسرے کے گھر ملنے جاتے ہیں، گلے ملتے ہیں اور مٹھائیاں کھلاتے ہیں۔

راگ،رنگ کا یہ مقبول تہوار موسم بہار کا پیامی مانا جاتا ہے۔ پھاگن ماہ میں منائے جانے کی وجہ اسے پھگوا بھی کہتے ہیں۔ہولی کا تہوار وسنت پنچمی سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اسی دن پہلی بار گلال اڑایا جاتا ہے۔ اس دن سے پھاگ اور دھمار کاگانا شروع ہو جاتا ہے۔

کھیتوں میں سرسوں کھل اٹھتی ہے۔ باغوں میں پھولوں کی پرکشش چھٹا چھا جاتی ہے۔ پیڑ، پودے، جانور،پرند اور انسان سب مسرت سے بھر جاتے ہیں۔ کھیتوں میں گندم، مکئی اٹھلانے لگتی ہیں۔ کسانوں کا دل خوشی سے ناچ اٹھتا ہے۔ بچے، بوڑھے تمام افراد ڈھول، تاشے، جانجھ، منجیرے کی دھن پر رقص ورنگ میں ڈوب جاتے ہیں۔

تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ قدیم زمانے سے یہ تہوار منایا جارہا ہے لیکن مشرقی ہند میں یہ زیادہ جوش وخروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کا بیان کئی قدیم مذہبی کتابوں میں ملتا ہے۔پرانوں میں بھی اس تہوار کا ذکر ملتا ہے۔ سنسکرت ادب میں بسنت خزاں اور وسنت ا تسو متعدد شاعروں کے پسندیدہ موضوع رہے ہیں۔

مشہور سیاح البیرونی نے بھی اپنی تاریخی سفر ی یادداشتوں میں ہولی کاذکر کیا ہے۔ ہندوستان کے کئی مسلم شاعروں نے اپنی تخلیقات میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ہولی اتسو صرف ہندو ہی نہیں مسلمان بھی مناتے ہیں۔ مغل دور کی مستند تاریخی کتابوں میں اکبر کا اپنی بیوی کے ساتھ ہولی کھیلنے کا ذکر ملتا ہے، جب کہ جہانگیر بھی نورجہاں کے ساتھ ہولی کھیلا کرتا تھا۔ الور میوزیم کی ایک تصویر میں جہانگیر کو ہولی کھیلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

شاہ جہاں کے وقت تک ہولی کھیلنے کا انداز بدل گیا تھا۔تاریخ میں بیان ہے کہ شاہ جہاں کے زمانہ میں ہولی کو ”عید ِگلابی“ یا ”عید ِ آب پاشی“ (رنگوں کی بوچھارکا تہوار) کہا جاتا تھا۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بارے میں مشہور ہے کہ ہولی پر ان کے وزیر انہیں رنگ لگانے جایا کرتے تھے۔ قدیم پینٹنگز، اورپرانے مندروں کی دیواروں پر اس جشن کی تصاویر ملتی ہیں۔ وجے نگر اور احمد نگر کی ریاستوں میں بھی ہولی کھیلنے کی تاریخی رویات ملتی ہیں۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ شاہی محلات میں بھی رنگ کھیلنے اور خوشیاں منانے کا رواج تھا۔اس موقع پر تحفے تحائف کے تبادلے کی بھی روایت ملتی ہے۔

ہولی اوراساطیر

ہولی کے تہوار سے جڑی ہوئی متعدد اساطیری روایات ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ مشہور کہانی پرہلاد کی مانی جاتی ہے۔ہولی کے تہوار کی طرح اس کی روایتیں بھی انتہائی قدیم ہیں اور اس کا فارمیٹ اور مقصد وقت کے ساتھ بدلتا رہا ہے۔ قدیم دور میں یہ شادی شدہ خواتین کی طرف سے خاندان کی خوشی کے لئے منایا جاتا تھا اور مکمل چاند کی عبادت کرنے کی روایت تھی۔ ویدک دور میں اس تہوار کو نواتریشٹ یشتھ کہا جاتا تھا۔اس جشن کے بعد ہی چیت مہینے کا آغاز ہوتا ہے۔

ہولی کی روایتیں

ہندوستان میں ہولی کا تہوار الگ الگ علاقوں میں مختلف طریقے سے منایا جاتا ہے۔ برج کی ہولی آج بھی پورے ملک کی توجہ کا مرکزہوتی ہے۔

برسانے کی لٹھمار ہولی کافی مشہور ہے۔ اس میں مرد عورتوں پر رنگ ڈالتے ہیں اور خواتین ان کو لاٹھیوں اور کپڑے کے بنائے گئے کوڑوں سے مارتی ہیں۔ اسی طرح متھرا اور ورنداون میں بھی 15 دنوں تک ہولی کا تہوار منایا جاتا ہے۔

مغربی بنگال میں گیندے کے پھولوں کی ہولی کا رواج ہے، جب کہ ہریانہ میں بھابھی کی طرف سے دیور کو ستائے جانے کی رسم ہے۔ اس کے علاوہ مہاراشٹر کی رنگ پنچمی میں خشک گلال کھیلنے، گوا کے شمگومیں جلوس نکالنے کے بعد ثقافتی پروگراموں کے انعقاد کا رواج ہے۔

جنوبی گجرات کے قبائلیوں کے لئے ہولی سب سے بڑا تہوار ہے۔چھتیس گڑھ کی ہوری میں لوک گیتوں کی حیرت انگیز روایت ہے اور مدھیہ پردیش کے مالوا انچل کے قبائلی علاقوں میں بے حد دھوم دھام سے منایا جاتا ہے

پھگوا

بہار کا پھگوا جم کر موج مستی کرنے کا موقع ہے اور نیپال کی ہولی پر مذہبی و ثقافتی رنگ دکھائی دیتا ہے۔

اسی طرح مختلف ممالک میں آباد تارکین وطن اپنے طریقے سے ہولی مناتے ہیں۔

اردو شاعری میں ہولی کا رنگ

ہولی کا تعلق جہاں ہندوستان کے کلچر سے ہے ،وہیں اسے پیار اور محبت کا تہوار بھی کہتے ہیں۔ ہولی میں تمام تکلفات ختم ہوجاتے ہیں اور جھجک کی دیواریں منہدم ہوجاتی ہیں۔ ارود زبان کے معروف شاعر حسرت موہانی نے کہا ہے:

مو پہ رنگ نہ ڈار مراری

بنتی کرت ہوں تہاری

پنیا بھرن کا جائے نہ دیہیں

شیام بھرے پچکاری

تھر تھر کانپن لاجن حسرت

دیکھت ہیں نرناری

ہولی ہمارے ملک کا ایک ایسا تیوہار ہے جس میں خوب دھوم دھڑکا ہوتا ہے۔ آدمی تمام حدودو قیود سے آزاد ہوجاتا ہے۔مہذب لوگ بھی اس دن تمام تکلف کے بندھنوں کو توڑ کر آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہولی کی ابتدا متھرا سے مانی گئی ہے لہذا اس دن یہاں زیادہ دھوم دھام سے ہولی منائی جاتی ہے اور یہاں دور دور سے ہولی منانے والے اور اس تماشے کو دیکھنے والے جمع ہوجاتے ہیں۔

اردو شاعری میں ہندوستانی تہذیب کے صدہا رنگ پوری قوت اور جاذبیت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ بے شمار شاعروں نے ہندوستانی تیوہاروں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے اور ان میں سب سے نمایاں نام نظیر اکبر آبادی کاہے۔

انھوں نے جس طرح سے شب برات، عید وغیرہ پر نظمیں کہیں اسی طرح ہولی اور دیوالی پر بھی نظمیں کہی ہیں۔ انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ بے مثال ہے۔

نظیر اکبرآبادی کی شناخت اردو کے ایک ایسے شاعر کے طور پر کی گئی ہے جو سب سے زیادہ عوامی موضوعات کو اپنی شاعری کے لئے منتخب کرتا ہے۔

انھوں نے ہولی اور دیوالی پر بہت سی نظمیں کہی ہیں،لیکن ایسا نہیں کہ اردو شاعروں میں صرف نظیر نے ہی ایسے موضوعات چنے ہیں،بلکہ دوسرے شاعروں نے بھی ہندوستانی تیج تیوہاروں پر نظمیں کہی ہیں۔

ہولی پر اردو میں خوب نظمیں لکھی گئی ہیں۔ ایسے شاعروں میں ایک قدآورشاعر گزرے ہیں بالمکند عرش ملسیانی۔ عرش پنجاب کے رہنے والے تھے اور راجدھانی دہلی میں ان کی رہائش تھی۔

ان کے والد جوش ملسیانی بھی ایک نامور شاعرتھے۔عرش کی ہولی پرایک بے حد خوبصورت نظم ہے جس کا عنوان ہے ”ہولی“۔

موجودہ دور میں اس قسم کے موضوعات پر نظمیں کہنے والے شاعر ہیں بیکل اتساہی۔

ہولی پرنظیر اکبرآبادی کی متعددنظمیں ہیں۔ایسی ہی ایک نظم کے چند مصرع یوں ہیں

پھر آن کے عشرت کا مچا ڈھنگ زمیں پر

اور عیش نے عرصہ سے کیا تنگ زمیں پر

ہر دل کو خوشی کا ہوا آہنگ زمیں پر

ہوتا ہے کہیں راگ کہیں رنگ زمیں پر

بجتے ہیں کہیں تال کہیں زنگ زمیں پر

ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں

یوں ہی عرش ملسیانی نے بھی ہولی کے موضوع پر کئی لاجواب نظمیں لکھی ہیں جن میں سے ایک  ہے’’پھردھوم مچائی ہولی نے‘‘

پھر خندہ ۂ گل کا شور ہوا

پھر موسم گل کا ساز بجا

پھر رنگ برنگ کے پھول کھلے

پھر دور خزاں کا مٹ کےرہا

پھر شورِ نوشا نوش اٹھا،

پھر دھوم مچائی ہولی نے

پھر ڈھول بجا ،پھر رنگ اڑا ،

پھر دھوم مچائی ہولی نے ہولی

عرش ملسیانی نے اس موضوع پر ایک دوسری نظم میں لکھا ہے

چہرۂ زندگی ہوا ہے لال

اڑرہاہے عبیر اور گلال

گرہِ دل آج رت نے کھولی ہے

ہر طرف شور ہے کہ ہولی ہے

جس کی پوچھو اسی کی آج ہے جیت

جس کو دیکھو وہ گارہا ہے گیت

 عرش ملسیانی نے ہولی پرایک نظم میں لکھاہے:

سحرِ موسیقی ہوا پھر گونج اٹھے گوکل کے بن

رقص فرمانے لگی پھر وادیٔ گنگ وجمن

پھر شبابِ مست نکلا مَل کے چہرے پر گلال

پھر نکھر آیا بہارِ لالہ سے حسنِ چمن

ہولی لوک ساہتیہ سے اردو ادب تک

ہولی، اس ملک میں سینکڑوں سال سے منائی جارہی ہے۔ یہ خالص ہندستانی تیوہار ہے۔اسی لئے ہولی پر بہت سے لوک گیت بھی مشہور ہیں،جو نہ جانے کب سے گائے جارہے ہیں۔ ان گیتوں کے علاوہ بہت سے گیت شاعروں نے لکھے ہیں جن میں سے بعض فلموں کے ذریعے مشہور بھی ہوئے ہیں۔جیسے ”ہوری کھیلے رگھوبیرا اودھ میں ہوری کھیلے رگھوبیرا“اور ”رنگ برسے بھیگے چنر والی رنگ برسے“ ۔

ان گیتوں کے علاوہ اردو کے شاعروں نے ایسے گیت بھی لکھے ہیں،جو کلیات کی زینت اور اردو شاعری کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ایسے گیتوں میں بیکل اتساہی کے لکھے گیت بھی شامل ہیں۔بیکل اردو،ہندی شاعری کا معتبر نام ہے۔ وہ ایسے شاعرہیں جس کے کلام میں بھارت کی گنگاجمنی تہذیب کی سوندھی خوشبو رچی بسی ملتی ہے۔ انھوں نے کئی ہولی گیت لکھے ہیں جن کا مطالعہ ایک خوشگوار احساس میں مبتلا کردیتا ہے۔

 بیکل کے ایک گیت کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے

ناچی ہے اتہاس کے آنگن میں ہولی کی یاد

جھول رہا ہے آگ کا جھولا پھول بنا پرہلاد

رُت آئی برات کی

رنگوں کے ساتھ آئی نغمے سنائے جا

موسم سہانا ہے

چہرے پر ماحول کے فطرت نے ماری پچکاری

دھرتی کی کوری چادرپرہے دلکش گلکاری