افغانستان کے معاملے میں اردگان کی ناکامی کے اسباب

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 11-09-2021
رجب طیب اردگان
رجب طیب اردگان

 

 

 ڈاکٹر شجاعت علی قادری،نئی دہلی

افغانستان میں اب طالبان کی اسلامی حکومت قائم ہو گئی ہے، جس کا ہر جگہ خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔

گذشتہ 20 برسوں کی بے فائدہ اور وحشیانہ جنگ کے بعد نقصان اٹھانے والے ممالک کی فہرست میں ترکی بھی شامل ہے۔

ترکی کا معاملہ بڑا عجیب ہے، جس مسلم ملک میں بھی کچھ تنازعات ہوتے ہیں، وہاں ترکی اپنے عظیم صدر رجب طیب اردگان کی قیادت میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اسی طرح ترکی کی جانب سے افغانستان میں بھی ہوشیاری کے ساتھ کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ اگرچہ اس کی فوج نیٹو افواج پر حملہ آور ہونے کا حصہ تھی۔

تاہم یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ترکی امریکہ، اس کے اتحادیوں یعنی حامد کرزئی اور اشرف غنی کی شمالی اتحاد کی قیادت والی حکومتوں اور یہاں تک کہ حال ہی میں طالبان کے تمام متحارب فریقوں کے ساتھ رابطہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ چھ برسوں سے ترک افواج کابل ہوائی اڈے کی سیکورٹی کی انچارج تھیں اور جس کے توسط سے وہ افغانستان میں رہتے ہوئے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی روابط میں تھے۔

تاہم جب کابل 15 اگست2021 کو طالبان کے قبضے میں آیا اور اس کے بعد افراتفری پھیل گئی تو ترک افواج نے خود کو کنارہ کر لیا تھا۔ وہیں امریکی اور برطانوی افواج نے اپنی سیکورٹی اور سول اہلکاروں کو افغانستان سے باہر نکالنے کا چارج سنبھال لیا۔

 بعد ازاں ترک افواج ہوائی اڈے کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے واپس آ گئی ہے۔ تاہم جن طالبان نے لاجسٹکس اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی معاونت کے بدلے ترک افواج کی موجودگی کو مشروط کیا ہےاس سے ترکی کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ 

طالبان نے ترکی سے یہ بات واضح طور پر کہا ہے کہ وہ صرف ہوائی اڈے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھیں گے، اس کے علاوہ انہیں کسی اور معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں ہوگی۔

افغان پناہ گزینوں کا بوجھ

ایسا لگتا ہے کہ ترکی کی خارجہ پالیسی خیالی دنیا میں جیتی ہے، جو کہ بڑی بڑی باتیں تو ضرور کرتی ہے، مگر جہاں کی بیان بازیاں کبھی بھی زمینی حقیقت سے میل نہیں کھاتیں۔

وہیں اب اگر ترکی طالبان حکومت کو تسلیم کرتا ہے تویہ قدم ان کے لیے مزید خطرناک ہو جائے گا۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ ترکی کے افغانستان کے تعلق سے جو منصوبے ہیں، ان میں رکاوٹ پیدا ہو جائے گی۔

سب سے پہلے اردگان کو ترکی کی مشرقی سرحد کی طرف جانے والے افغان پناہ گزینوں کے متوقع بھیڑ سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ترکی کے اندر داخلی طور پر بھی مسائل ہیں، جہاں شام کے پناہ گزینوں کی آمد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔  

یہ حقیقت ہے کہ ترکی کی، خارجہ پالیسی کی مہم جوئی، داخلی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ رہی ہے لیکن داخلی چیلنجوں کے جاری رہنے سے اس کی افادیت کم ہوتی جارہی ہے۔

کوروناوائرس اور ترکی کی معاشی حالت

ایک طرف بڑھتی ہوئی معاشی صورتحال اور کوویڈ 19 وبائی امراض اور جنوبی ترکی میں حالیہ جنگلات سے متعلق بہت سی پالیسی ناکامیوں کے بعد اب ایسا نہیں لگتا ہے کہ اردگان ایک اور خطرناک خارجہ پالیسی کی غلطی برداشت کر پائیں گے۔

ترکی نے جہاں آنے والے افغان پناہ گزینوں کے بارے میں اپنی سرحدوں اور پناہ گزینوں کی پالیسی کو مضبوط کیا ہے وہیں یورپی یونین ترکی پر مالی مراعات کے ساتھ دباؤ ڈال رہی ہے تاکہ یورپی سرحدوں پر پناہ گزینوں کے کسی بھی بھیڑ پر قابو پایا جا سکے۔

اس کی وجہ سے رجب طیب اردگان کی قائم کردہ سیاسی جماعت اے کے پی(AKP) کی معاشی حالت اثرانداز ہو سکتی ہے۔ وہیں سنہ 2023 میں ترکی میں عام انتخآبات ہونے جا رہے ہیں۔ 

ترکی کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر، اردگان کے لیے ایک اور مدت حاصل کرنا یقیناً بہت بڑی بات ہوگی۔ اس وقت ترکی تقریبا تین لاکھ افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے اور افغانستان کے دو قریبی ہمسایہ ملک پاکستان اور ایران کی میزبانی کے بعد یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔

ترکی کے پاس پہلے ہی شامی پناہ گزینوں کا بہت زیادہ بوجھ موجود ہے۔ خارجہ پالیسی کی ناکامیوں سے ترکی اپنے آپ کو کم اتحادیوں اور دوستوں کے ساتھ پاتا ہے۔ شام، لیبیا اور آذربائیجان میں یک طرفہ اقدامات خارجہ پالیسی کی سمت کو اجاگر کرتے ہیں جو تیزی سے رد عمل اور موقع پرست ہے۔

ترکی کی خارجہ پالیسی

ترکی کا افغانستان میں مستحکم اور ثالثی کے کردار کا حصول اب محض ایک خواب لگ رہا ہے۔ عالمی برادری نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ طالبان کی نئی حکومت سے کیسے نمٹا جائے۔

اس لیے طالبان کے ساتھ ترکی کے تعلقات کو احتیاط سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یا تو ترکی خود کو ایک مہنگی فوجی مشغولیت میں گھسیٹتا ہوا دیکھ سکتا ہے یا وہ معاشی مواقع کی خاطر ایک بار پھر الگ تھلگ ہو سکتا ہے جیسا کہ اس سے قبل اس نے اتحادیوں اور دوستوں کے ساتھ کیا تھا۔

طالبان مخالف جنگجو دوستم پر داؤ

جب افغان اپنے عروج پر تھا اور طالبان نے بعض علاقوں سے فائدہ اٹھایا تو مشہور ازبک نژاد جنگجو اور افغانستان کے پہلے نائب صدر جنرل عبدالرشید دوستم جائے وقوع  سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

بعد ازاں انہیں ترکی میں دیکھا گیا اور وہ غیر اعلانیہ بیماریوں کا علاج کروا رہے تھے۔ حال ہی میں وہ ترکی کے ایک نجی ہوائی جہاز میں اپنے گھر مزار شریف میں اترے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی افواج نے طالبان کے حملے کے خلاف شدید مزاحمت کی ہے۔

بالآخر وہ اور دیگر ممتاز جنگجو نورعطا محمد جن کی حمایت ترکی نے بھی کی تھی، افغانستان سے بھاگ کر ایک پڑوسی ملک پہنچ گئے اور پھر بالآخر ترکی پہنچ گئے۔ان کی قسمت کا فیصلہ اس وقت کیا جائے گا جب ترکی طالبان کی نئی حکومت پر بات چیت کرے گا۔

دوستم کی ناکامی نے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ اردگان طالبان کو کابل ہوائی اڈے پر کنٹرول نہیں دے سکیں گے اور اسے افغانستان کے راستے وسط ایشیا میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ 

تاہم افغانستان میں مذکورہ بالا تمام ناکامیوں کے باوجود ترکی نے نیٹو کے تمام اتحادیوں کے برعکس کابل میں اپنا سفارت خانہ فعال رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ترک سفارت کار طالبان کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہیں۔ ممکنہ طور پر ترکی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والے اہم ممالک میں شامل ہوگا۔

نوٹ: مضمون نگار  مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آف انڈیا کے قومی صدر ہیں۔