عیدالفطر:انعام کا دن

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
عبادت کے بعد انعام
عبادت کے بعد انعام

 

 

 پروفیسر اخترالواسع

قوموں کے تہوار دراصل ان کے عقائد و تصورات، تاریخ و روایات اور ان کے قومی مزاج کے آئینہ دار ہوتے ہیں رسول اللہﷺ نے قدیم تہواروں کی جگہ دو تہوار عید الفطر اور عید الاضحی اس امت کے لئے مقرر فرما دئے۔ جو اسلام کے توحید مزاج اور اصول و طرز حیات کے عین مطابق ہیں اور اس کی تہذیبی روایات کی عکاسی کرتی ہیں۔

عید الفطر ”عود“ سے مشتق ہے جس کے معنیٰ لوٹنے کے ہیں۔ چنانچہ اس دن کو عید اس لئے کہتے ہیں کہ وہ دن بار بار لوٹ کر آتا ہے۔ بعض علماء کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عود کرتا ہے۔ یعنی بندوں پر اپنی رحمت اور بخشش کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے۔

عید دراصل انعام کادن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک ماہ تک کھانے، پینے اور شہوت رانی سے روکے رکھا۔ دنیا میں اس کا انعام عید کی خوشیوں اور شادمانیوں کی شکل میں دیا گیا۔ البتہ اس کا اصل انعام روزہ داروں کو آخرت میں دیا جائے گا۔ عید کا دن یوم شکر بھی ہے۔ بندہ اس دن اللہ کی طرف سے کھانے پینے کی چھوٹ اور اجازت حاصل ہونے پر شکر ادا کرتا ہے۔ بندگی کا مفہوم بھی یہی ہے کہ بندہ اللہ کے حکم کا پابند ہوتا ہے۔ وہ زبانِ حال سے کہتا ہے کہ: میری نماز، میری قربانیاں، میرا جینا اورمیرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے(سورۃ الانعام)۔

عید خوشیوں کے اظہار کا دن ہے۔ مسلمانوں کو اجازت دی گئی ہے کہ بھر پور اپنی خوشیوں کا اظہار کریں۔ اسلام کی روح یہ ہے کہ خوشی کا موقعہ ہو یا غم کا انسان کو تہذیب و شرافت کے دائرے سے متجاوز نہیں ہونا چاہئے۔ عید خوشیوں کا دن ضرور ہے۔ لیکن مسلمانوں کی سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ ان سے ان کا رب راضی ہو جائے۔ اس کی خوشنودی اسے حاصل ہو جائے۔ تمام تر عبادات اور کوششوں کا ماٰل یہی ہے۔ راگ و رنگ اور زیب و زینت اور تفریحات کی رونقوں میں کھو کر اگر خدا کی یاد دل میں محسوس ہو جائے تو ایک قلبِ سلیم رکھنے والے مسلمان کو وہ روحانی شادمانی میسر نہیں آسکتی جو اس عید کے منانے کا فطری تقاضہ اور اس کا مطلوب ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ عید کے موقعہ پر آج بکثرت ایسے مظاہرے نظر آتے ہیں جو اسلام کی روح کے منافی اور اس کے تقاضوں کو پامال کر دینے والے ہیں۔ عید کے بنیادی تقاضوں میں یہ بات شامل ہے کہ اپنی خوشی میں دوسروں کو بھی شامل کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کو صبر اور مواسات یعنی غم خواری کا مہینہ قرار دیا ہے۔ روزے سے مطلوب ہے کہ انسان کے اندر دوسرے غریب، کمزور، نادار اور پریشان حال بھائیوں کے تعلق سے غم خواری کا جذبہ پیدا ہو۔ ان کے اندر اپنے پڑوسیوں اور اپنے غریب رشتہ داروں کے تعلق سے تعاون اور ہمدردی کا احساس بیدار ہو۔ عید کا دن اس احساس اور جذبے کی آزمائش کا پہلا دن ہوتا ہے۔ اسلام میں اس جذبہ کی پرورش کے لئے ”صدقۃالفطر“ رکھا گیا ہے۔ جسے عید گاہ جانے سے پہلے غرباء، مساکین، ضرورت مندوں اور مستحقین تک پہونچانا ضروری ہے۔ اس لئے اہلِ اسلام کو عید کے موقعہ پر اپنے دل کو غرباء، مساکین اور پڑوسیوں کے لئے کھول دینا چاہئے۔ یہ واضح رہنا چاہئے کہ پڑوسی میں مسلم اور غیر مسلم سب شامل ہیں۔ غیر مسلم پڑوسی بھی ہماری ہمدردی اور تعاون کے اتنے ہی مستحق ہیں جتنا مسلم پڑ وسی ہیں۔

امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے عید کے تہوار اور اس کے فلسفے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ”عید اگر شعائر اسلام کو قائم رکھتی ہے۔ مذہبی روح کو زندہ کرتی ہے۔ مذہب کے کارنامہئ اعمال کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے۔ عہد محبت اور میثاق الٰہی کی تجدید کرتی ہے۔ تمام مسلمانو ں کے درمیان سفارت کا کام دیتی ہے تو بلاشبہ عید ہے۔ ورنہ وہ صرف کھجور کی ایک گٹھلی ہے جس کو ایک سنت کے احیاء کے لئے ہم علیٰ الصبح کھا کر پھینک دیتے ہیں۔ عید محض سیر و تفریح، عیش و نشاط، لہو لعب کا ذریعہ نہیں ہے۔ وہ تکمیل شریعت کا ایک مرکز ہے۔۔۔۔وہ توحید و وحدانیت کا منبع ہے۔ وہ خالص نیتوں اور پاک دلوں کی نمائش گاہ ہے۔ اس کے ذریعہ ہر قوم کے مذہبی جذبات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر وہ اپنی حالت میں قائم ہے توسمجھ لینا چاہئے کہ مذہب اپنی پوری قوت کے ساتھ زندہ ہے۔ اگر وہ مٹ گئی ہے یا بدعات و خرافات نے اس کے اصل مقاصد کو چھپا دیا ہے تو یقین کر لینا چاہئے کہ مذہب کا چراغ بجھ رہا ہے “۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)