عید:مذہبی اور سماجی یگانگت کا استعارہ

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 08-04-2024
عید:مذہبی اور سماجی یگانگت کا استعارہ
عید:مذہبی اور سماجی یگانگت کا استعارہ

 

                                                                                                                                                            ڈاکٹر عمیر منظر

                                                                                 شعبۂ اردو

                                                 مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس ۔لکھنؤ

ماہ رمضان کے اختتام پریکم شوال کو عید منائی جاتی ہے ۔اسے مسلمانو ں کے مذہبی تیوہار کی حیثیت حاصل ہے ۔پوری دنیا میں مسلمان عقیدت ومحبت کے ساتھ اس دن کو اپنے اپنے انداز میں مناتے ہیں اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ہندستان میں یہ دن اپنی بعض سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے مزید اہمیت کا حامل ہوگیا ہے ۔یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ تیوہار کسی بھی سماجی زندگی کے لیے ایک توانائی کا درجہ رکھتے ہیں ۔اس سے اخوت ومحبت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے ۔اپنائیت اور یگانگت کی ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔عید کے موقع پر جس طرح ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے اور گلے ملتے ہیں وہ اپن آپ میں ایک مثال ہے ۔اردو نظم کے مشہور شاعر نظیر اکبرآبادی نے اپنی نظم کے ایک بند میں عید کی خوشی کے مختلف پہلوؤں کو کس خوب صورتی کے ساتھ نظم کیا ہے ۔

ہے عابدوں کی طاعت و تجرید کی خوشی

 اور زاہدوں کی زہد کی تمہید کی خوشی

 رند عاشقوں کو ہے کئی امید کی خوشی

 کچھ دل بروں کے وصل کی کچھ دید کی خوشی

 ایسی نہ شب برات، نہ بقرعید کی خوشی

 جیسی ہر ایک دل میں ہے اس عید کی خوشی

عید انسانی اخوت و یگانگت کی ایک اہم مثال ہے کیونکہ عید محض خوشی منانا نہیں بلکہ ایک دوسرے کی خوشی میں شامل ہونا ہے ۔اور یہی شمولیت اس کے حسن کو دوبالا کرتی ہے ۔ ہندستان جو اپنی مذہبی ،ثقافتی اور لسانی تنوع کے سبب ایک الگ ہی پہچان رکھتا ہے یہاں کی سماجی زندگی میں تیوہاروں کی ایک الگ شناخت قائم ہوتی ہے ۔اور اس سیاق میں ہندستانی ادبیات خصوصاً اردو ادب میں اس خوشی کا اظہار شعرو نثر دوونوں صورتوں میں کیا گیا ہے ۔ عید کی سرگرمی چاند دیکھنے سے ہی شروع ہوجاتی ہے یعنی 29رمضان کو چاند دیکھنے کا خاصا اہتمام کیا جاتا ہے ۔مشہور داستان گو میر باقر علی نے دلی کی عید کا ذکر تے ہوئے لکھاہے :

نمازی کثرت سے مسجدوں میں جمع ہوئے ادھر جامع مسجد میں ہزاروں چاند دیکھنے آئے ،اس عرصہ میں توپوں پر بیتابی پڑیں۔محلوں میں بچوں نے غل مچایاچاند ہوگیا۔آپس میں لوگوں نے چاند کی مبارک باد دی ۔اب دلی والوں کی خوشی کے مارے تمام رات پلک سے پلک نہ جھپکی ۔گھڑیاں گنتے گنتے صبح ہوگئی ۔

عید کا چاند دیکھنے کا اہتمام ملک کے طول و عرض میں ہر خاص وعام کرتا ہے داستان گو میر باقر علی کے مذکورہ بالا اقتباس سے دلی کی جھلک سامنے آتی ہے ۔لکھنؤ میں بھی اہتمام کے ساتھ چاند دیکھا جاتاہے۔ یہ بات واضح رہے کہ چاند دونوں دن دیکھا جاتا ہے مگر 29کا چاند دیکھنے کے لیے زیادہ بے تانی اورجوش کی کیفیت رہتی ہے ۔جوش ملیح آبادی نے اپنی خود نوشت‘ یادوں کی برات’ میں عید کاچاند دیکھنے کاذکر ایک جگہ اپنے انداز میں خوب کیا ہے :

آہاعید....... اللہ اللہ رمضان کی انتیسویں تا تیسویں شام۔ صبح عید کا پیغام ، اور رویت ہلال کا اہتمام۔ ایک بلند چبوترے پر گھر کی تمام بیبیاں ، چاند دیکھنے کی تمنا میں جمع ہو جاتی تھیں اور چاند نظر آتے ہی سب کی سب جھٹ سے آنکھیں بند کرلیتیں درود پڑھتیں، ہاتھ اٹھا اٹھاکر، زیرلب دعائیں مانگتیں، دعائیں مانگ کر اپنے اپنے چہروں پرہاتھ پھیرتیں اور پھر، ایک دوسرے کے منھ پر ، چاند دیکھا کرتی تھیں ۔

چانددیکھنے کی خوشی کو شعرا نے مختلف کیفیت اور احساس کے ساتھ باندھا ہے ۔اس میں زبان و بیان کا لطف اور مضمون آفرینی دونوں کمال شامل ہیں ۔

چاند جب عید کا نظر آیا

حال کیا پوچھتے ہو خوشیوں کا

آپ ادھر آئے ادھر دین اور ایمان گئے

عید کا چاند نظر آیا تو رمضان گئے

عید کے بعد وہ ملنے کے لیے آئے ہیں

عید کا چاند نظرآنے لگا عید کے بعد

عید کے چاند کو دیکھے نہ کئی میرے سوا

اس کے دیدار کو اک سال گذارا میں نے

چاند پر ان اشعار کے علاوہ ایک شعر اس سے مختلف ہے یعنی اس میں معاشی پس منظر شامل ہے ۔ چاند کے حوالے سے کہا گیا یہ شعر بہت مشہورہوا ۔

کل اگر عید کا دن ہوگا تو کیا پہنیں گے

چاند سے کہہ دو کہ تیار نہیں ہیں ہم لوگ

عید دراصل اجتماعی خوشی کا اظہار ہے ۔رمضان ختم ہونے پر یکم شوال کی صبح دورکعت نماز عید گاہ میں ادا کی جاتی ہے ۔عید کی صبح مسرت وخوشی کی ایک الگ ہی کیفیت سے دوچار کرتی ہے ۔چھوٹے بڑے سب لوگ نئے اور صاف و شفاف کپڑو ں میں ملبوس ہوکر عید گاہ کی طرف رواں دواں ہوجاتے ہیں ۔اور وہاں پہنچ کر دورکعت نماز شکرانہ ادا کرتے ہیں ۔

آج یاروں کو مبارک ہو کہ صبح عید ہے

راگ ہے مے ہے چمن ہے دل ربا ہے عید ہے

تیوہاروں کی اپنی الگ دنیا ہوتی ہے ۔انتظام وانصرام سے لے کر اس کے اہتمام تک کیسے کیسے جتن کیے جاتے ہیں ۔اس موقع پر بچوں کی خوشیوں کے کیا کہنے ۔چاند رات سے عید گاہ تک جانے کا ایک ایک پل انتظار وخوشی کا نادر اور سنہری موقع ہوتا ہے اور اس موقع کو بچے کسی طرح گنوانا نہیں چاہتے ۔پریم چند کا مشہور افسانہ عید گاہ دراصل ایک تخلیقی شاہ کار ہے ۔جس کا مرکزی کردار ایک بچہ حامد ہے ۔

رمضان کے پورے تیس روزوں کے بعد آج عید آئی۔کتنی سہانی اور رنگین صبح ہے ۔بچے کی طرح پر تبسم ...گاؤں میں کتنی چہل پہل ہے ۔عیدگاہ جانے کی دھوم ہے ...لڑکے سب سے زیادہ خوش ہیں ۔کسی نے ایک روزہ رکھا ہے وہ بھی دوپہر تک ،کسی نے وہ بھی نہیں لیکن عیدگاہ جانے کی خوشی ان کا حصہ ہے ۔روزے بڑے بوڑھوں کے لیے ہوں گے ،بچوں کے لیے تو عید ہے۔

عید کی خوشی میں بچوں کی بیتاتی اور نہ ختم ہونے والے انتظار میں ان کی دلی کیفیت اور جذبات کی شدت کو ملاحظہ کریں :

عید کی خوشی میں نیند کسے آتی تھی ،بس ذراسی جھپکی سی آتی، اور بار بار آنکھ کھل جایا کرتی تھی۔ بار بار اپنی سنہری ٹوپی کے ایک ایک پھول کو دیکھتا، جی میں آتا کہ ابھی ٹوپی پہن لوں، خیال آتا کہ جھوٹی ہو جائے گی۔ پھر، تہ کیے جوڑے پر، بڑی آہستگی کے ساتھ، بار بار ہاتھ پھیرتا ، اس کی نرمی کا لمس ، تمام بدن میں جھر جھری بن کر دوڑ جاتا پھر جوتے کی، نظر کو پھسلا دینے والی چکنائی پر، انگلیاں دوڑاتا، اور اْس کو سونگھ بھی لیا کرتا تھا۔

علامہ اقبال کے صاحب زادے جاوید اقبال نے اپنی خود نوشت ‘اپنا گریباں چاک’میں عید کا احوال لکھا ہے ۔اس دن صبح سے نماز عید تک کس کس طرح تیاری ہوتی اور واپس آکر کیا مصروفیت رہتی ۔اپنے بارے میں بھی اور علامہ اقبال کے سلسلے میں بھی ۔ وہ لکھتے ہیں :

جب عید کا چاند دکھائی دیتا تو گھر میں بڑی چہل پہل ہو جاتی۔ میں عموماً والد کو عید کا چاند دکھایا کرتا تھا۔ گو مجھے نہانے سے سخت نفرت تھی لیکن اس شب گرم پانی سے والدہ نہلاتیں اور میں بڑے شوق سے نہاتا۔ نئے کپڑے یا جوتوں کا جوڑا سرہانے رکھ کر سوتا۔ صبح اٹھ کر نئے کپڑے پہنے جاتے، عیدی ملتی، کمخواب کی ایک اچکن جس کے نقرئی بٹن تھے مجھے والدہ پہنایا کرتیں۔ سر پر تلے کی گول مخملی ٹوپی پہنتا اور کلائی پر باندھنے کے لیے مجھے ایک سونے کی گھڑی بھی دی جاتی جو افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ نے مجھے تحفہ کے طور پر بھیجی تھی۔ میں والد کے ساتھ ساتھ موٹر میں بیٹھ کر نماز پڑھنے جایا کرتا تھا۔ ان کی انگلی پکڑے شاہی مسجد میں داخل ہوتا اور ان کے ساتھ عید کی نماز ادا کرتا۔ نماز سے فارغ ہو کر میرے والد بمطابق معمول با رودخانہ میں میاں نظام الدین (منیرہ کے شوہر میاں صلاح الدین کے نانا) کی حویلی میں ان کے ساتھ کچھ وقت گزارتے۔ گھر واپس آکر والد کی عادت تھی کہ وہ عید کے روز سویوں پر دہی ڈال کر کھایا کرتے تھے۔ سارادن انہیں ملنے والوں کاتانتا بندھا رہتا۔(اپنا گریباں چاک ص 19)

جوش ملیح آبادی نے اپنی خودنوشت ‘‘یادوں کی برات’’ میں عید کا احوال لکھا ہے ۔عیدگاہ جانے کی خوشی کے ساتھ ساتھ واپسی کے بعد گھر میں ایک الگ طرح کا ہی سماں رہتا ۔ایک بھیڑ لگ جاتی کوئی مبارک باد دے رہاہے تو کوئی اپنی خوشی کا اظہار کسی اور انداز میں کررہا ہے ۔ کیسے کیسے لوگ آتے تھے مبارک باد دیتے اور اپنے اپنے کمالات بھی دکھاتے جاتے۔

عید گاہ جاتا تو خوشی ، اس حیرت ناک منزل تک پہنچ جاتی تھی کہ عید گاہ کے ملاؤں کے ترشے لب، اور جلا ہوں کی کچی داڑھیاں تک اچھی لگتی تھیں۔ عید گاہ سے پلٹتا تو یہ دیکھتا کہ بڑی سْریلی آواز میں میرے پھاٹک پر نوبت بج رہی ہے، میرے باپ کا دربا جما ہوا ہے ، احاطے میں وہ ہجوم ہے کہ تل دھرنے کی جگہ بھی باقی نہیں ہے صحن کے ایک گوشے میں ، گوٹے پٹھے کے انگرکھے پہنے ، اور ، سروں پر گول گول مند یلیں رکھے ہوئے چھلب دار ، دف بجا بجاکر ‘‘بر تو ایں محفل شاہانہ مبارک باشد’’۔گا رہے ہیں۔ اور ، چاندی کے ورق سے ڈھکے ہوے، سوئیوں ، اور شیر خرمے کے تھال، حاضرین کے درمیان رکھے ہوئے ہیں، اور خاص دان و عطر دان گردش کر رہے ہیں، چو سیرے کی تمبا کو کے ، ہاروں میں لپٹے ہوئے حقوں اور عطر خس کی لپٹوں سے تمام احاطہ بھرا ہوا ہے۔۔۔ اور سپاہی برہنہ تلواریں ، ہات میں لیے سلامیاں دے، اور انعام

نماز عید کا سب سے اہم حصہ اس کا خطبہ ہوتا تھا اس دن کی مناسبت سے ایک عالمی وحدت کاکہیں پیغام دیاجاتا تو کہیں صبر و شکر مومن کی سب سے اہم پونچی قرار دی تھی تو کہیں یہ کہا جاتاکہ ایک مہینے کی تربیت کا اثر بقیہ گیارہ مہینوں میں دکھائی دے یہی روزے کی کام یابی وغیرہ وغیرہ ۔ چاند پٹی،اعظم گڑھ میں ایک مدت تک مولانا مولانا نظام الدین اصلاحی نے (مرحوم )عید کا خطبہ دیا ۔ لوگوں کو ان کے خطبہ کا انتظار رہتا تھا۔وہ لوگوں کا حوصلہ بڑھاتے اورکہتے کہ اسلام ہی عالمی مذہب ہے کیونکہ اس کے جو دو تیوہارہیں وہ پوری دنیا میں ایک طرح سے منائے جاتے ہیں ۔اور سب کی ایک ہی عربی تاریخ مقرر ہے ۔ مولانا ابو الکلام آزاد کلکتہ میں نماز عید پڑھاتے اور خطبہ دیتے ۔ان کو سننے کے لیے ایک ہجوم امڈ اآتا تھا ۔نماز کے بعد مصافحہ اور معانقہ کاخاص اہتمام ہوتا ہے ۔ذکر آزاد میں مصافحہ اور معا نقہ کا نقشہ عبدالرزاق ملیح آبادی نے خوب کھینچا ہے ۔وہ لکھتے ہیں :

کلکتہ کا میدان اپنی وسعت و رونق کے لیے مشہور ہے۔ عیدین کی نمازیں اسی میدان میں ہوا کرتی تھیں۔ اب بھی ہوتی ہیں مگر وہ بات کہاں ، جو مولانا کی امامت کے زمانے میں تھی۔ نماز عید کے لیے مولانا جبہ ضرور پہنتے تھے اور سر پر حسین عمامہ ہوتا تھا۔ ٹھیک وقت پر پہنچتے۔ نہایت پراثر خطبہ اردو میں دیتے اور انسانوں سے بھرا ہوا میدان ان کی پْر جوش آواز سے گونجتا رہتا۔ پھر مصافحے کے لیے نمازی ہجوم کرتے۔ ہجوم بھی ایسا کہ ہر لمحہ اندیشہ رہتا کہیں لوگ منبر ہی کو الٹ نہ دیں۔معانقوں کی مصیبت الگ تھی۔ معمولی نہیں ، خطرناک مصیبت۔ لوگ جوش میں بھرے ہوئے لپکتے اور چمٹ جاتے۔ یہ بات طے شدہ نہ تھی کہ ایک ٹکرچلے گی، یادوٹکریں یا تین۔ ایک دفعہ سردی سخت تھی۔ ٹکریں طے نہ ہونے کی وجہ سے ایک معانقہ باز کا سر اس زور سے میری ناک سے ٹکرایا کہ نکسیر پھوٹ گئی۔ میں منبر کے قریب تھا۔ مولانا کی نظر پڑ گئی۔ کھڑے ہو گئے پانی منگایا۔ ناک دھلوائی اور لوگوں کو اس وحشیانہ حرکت پر بیخ فرمائی۔(ذکر آزاد 249)

اردو شاعری خصوصاً غزلوں میں عید کے روز گلے ملنے کا مضمون طرح طرح سے باندھا گیاہے ۔قمر بدایونی کا شعر ہے

عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم

رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے

مصحفی کا ایک شعر ہے

وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو

ہے عید کا دن اب تو گلے ہم کو لگا لو

بانگ درا میں علامہ اقبال کا ایک قطعہ ہے ‘‘عید پر شعرلکھنے کی فرمائش کے جواب میں’’۔یہ زمانہ ترکوں کی زبوں کا حالی کا تھا ۔جس نے علامہ اقبال کوبہت دل گرفتہ کر رکھا تھا۔وہ تو اسلام کی شان و شوکت دیکھنا چاہتے تھے ۔انھوں نے اس کے جواب میں لکھا کہ شالامار باغ دیکھ کر مسلمانوں کی عظمت اور ان کی شوکت کا ماضی یادآگیا ۔حالانکہ اس وقت ہر طرف زوال و انحطاط کا دور دورہے ۔

خزاں میں مجھ کو رلاتی ہے یاد فصل بہار

خوشی ہوعید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں

اس قطعے کا اختتام جس شعر پر ہوتا ہے وہ بہت ہی مشہور ہے ۔

پیام عیش ومسرت ہمیں سناتا ہے

ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے

مسلمانوں کا زوال اور ان کی درماندگی علامہ اقبال کے غم واندوہ کا سبب ہے ۔وہ مسلمانوں کی نکبت اور زوال پر آنسو بہارے ہیں ۔اور اسی وجہ سے انھیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ جب میں عید کے چاند کو دیکھتا ہوں تو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ مجھے مسرت اور خوشی کا پیغام دے رہا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے وہ ہماری ہنسی اڑا رہا ہے ۔

واقعہ یہ ہے کہ عید ہماری زندگی میں ایک بے حد پرمسرت اور خوشی کا موقع ہوتا ہے ۔ہم رمضان کے بعد اپنے رب کا شکر ادا رکرتے ہیں کہ ہمیں یہ مبارک مہینہ ملا ۔خوشی کے اس موقع کو الگ الگ انداز میں ادیبوں ،شاعروں اور دوسرے فنکاروں نے دیکھا ہے اور برتا ہے ۔یہ تیوہار مذہبی ہے مگر اس نے اپنی سماجی جڑوں کو بہت مضبوط کرلیا ہے اسی لیے عید سماجی زندگی کا ایک روشن استعارہ بن گئی ہے ۔اور مسلمانوں کے علاوہ ہندستان میں دوسرے مذاہب کے لوگ اس کا انتظارکرتے رہتے ہیں ۔