موپہ رنگ نہ ڈارمراری

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
ہولی کا جشن اورنظیراکبرآبادی
ہولی کا جشن اورنظیراکبرآبادی

 

 

اردو شاعری کے سنگ

ہولی کے رنگ

غوث سیوانی،نئی دہلی

جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں، تب دیکھ بہاریں ہولی کی

اور دف کے شور کھڑکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی

پریوں کے رنگ دمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی

خُم ، شیشے ، جام چھلکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی

جب ہندوستانی تیج تیوہاروں کے حوالے سے اردو شاعری پر گفتگو ہوتی ہے تو ذہن میں سب سے پہلا نام نظیر اکبرآبادی کا آتا ہے۔ نظیر ایسے شاعر ہوئے ہیں جنھیں پہلا عوامی شاعر کہاجاتا ہے۔ جب اردو شاعری کی قندیل بادشاہوں کے محلوں اور نوابوں کی محفلوں کو منور کر رہی تھی،اسی دوران نظیر اردو زبان وادب کو عوام الناس میں مقبول بنا رہے تھے۔جس دور کے شعراء،بادشاہوں اور اہلِ منصب کی مدح میں قصیدے تحریر کررہے تھے، نظیراکبرآبادی عوامی موضوعات پر شاعری کر رہے تھے۔

اردو شاعری میں ہولی کا رنگ

ہولی کا تعلق جہاں ہندوستان کے کلچر سے ہے ،وہیں اسے پیار اور محبت کا تہوار بھی کہتے ہیں۔ ہولی میں تمام تکلفات ختم ہوجاتے ہیں اور جھجک کی دیواریں منہدم ہوجاتی ہیں۔ ارود زبان کے معروف شاعر حسرت موہانی نے کہا ہے:

مو پہ رنگ نہ ڈار مراری

بنتی کرت ہوں تہاری

پنیا بھرن کا جائے نہ دیہیں

شیام بھرے پچکاری

تھر تھر کانپن لاجن حسرت

دیکھت ہیں نرناری

ہولی کا جشن

ہولی ہمارے ملک کا ایک ایسا تیوہار ہے جس میں خوب دھوم دھڑاکا ہوتا ہے۔ آدمی تمام حدودو قیود سے آزاد ہوجاتا ہے۔مہذب لوگ بھی اس دن تمام تکلف کے بندھنوں کو توڑ کر آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہولی کی ابتدا متھرا سے مانی گئی ہے لہذا اس دن یہاں زیادہ دھوم دھام سے ہولی منائی جاتی ہے اور یہاں دور دور سے ہولی منانے والے اور اس تماشے کو دیکھنے والے جمع ہوجاتے ہیں۔ ہولی اردو شاعروں کو محبوب رہی ہے اور اسے شاعری کا موضوع بناتے رہے ہیں مگر بڑی تعداد ایسے شاعروں کی ہے جنھوں نے اسے استعارے اور علامت کے طور پر بھی پیش کیاہے۔ذیل کے اشعار ملاحظہ کریں:

بہار آئی کہ دن ہولی کے آئے

گلوں میں رنگ کھیلا جا رہا ہے

جلیل مانک پوری

غیر سے کھیلی ہے ہولی یار نے

ڈالے مجھ پر دیدۂ خوں بار رنگ

امام بخش ناسخ

آج کھیلیں گے مرے خون سے ہولی سب لوگ

کتنا رنگین ہر اک شخص کا داماں ہوگا

بیتاب سوری

کس کی ہولی جشن نو روزی ہے آج

سرخ مے سے ساقیا دستار رنگ

امام بخش ناسخ

اب کی ہولی میں رہا بے کار رنگ

اور ہی لایا فراق یار رنگ

امام بخش ناسخ

ہولی کے اب بہانے چھڑکا ہے رنگ کس نے

نام خدا تجھ اوپر اس آن عجب سماں ہے

شیخ ظہور الدین حاتم

پورا کریں گے ہولی میں کیا وعدۂ وصال

جن کو ابھی بسنت کی اے دل خبر نہیں

کلب حسین نادر

موسم ہولی ہے دن آئے ہیں رنگ اور راگ کے

ہم سے تم کچھ مانگنے آئو بہانے پھاگ کے

مصحفی غلام ہمدانی

سہج یاد آ گیا وہ لال ہولی باز جوں

دل میں گلالی ہو گیا تن پر مرے خرقہ جو اجلا تھا

ولی عزلت

شب جو ہولی کی ہے ملنے کو ترے

مکھڑے سے

جان

چاند اور تارے لیے پھرتے ہیں افشاں ہاتھ میں

مصحفی غلام ہمدانی

پھر نہ باقی رہے غبار کبھی

ہولی کھیلو جو خاکساروں میں

کلب حسین نادر

سجنی کی آنکھوں میں چھپ کر جب جھانکا

بن ہولی کھیلے ہی ساجن بھیگ گیا

مصور سبزواری

منہ پر نقاب زرد ہر اک زلف پر گلال

ہولی کی شام ہی تو سحر ہے بسنت کی

لالہ مادھو رام جوہر

اب دھنک کے رنگ بھی ان کو بھلے لگتے نہیں

مست سارے شہر والے خون کی ہولی میں تھے

آل احمد سرور

ڈال کر غنچوں کی مندری شاخ گل کے کان میں

اب کے ہولی میں بنانا گل کو جوگن اے صبا

مصحفی غلام ہمدانی

ہولی پرنظمیں

اردو شاعری میں ہندوستانی تہذیب کے صدہا رنگ پوری قوت اور جاذبیت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ بے شمار شاعروں نے ہندوستانی تیوہاروں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے اور ان میں سب سے نمایاں نام نظیر اکبر آبادی کاہے۔ انھوں نے جس طرح سے شب برات ، عید وغیرہ پر نظمیں کہیں اسی طرح ہولی اور دیوالی پر بھی نظمیں کہی ہیں۔ انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ بے مثال ہے۔ ہولی کے عنوان سے ان کی طویل نظم کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں:

ہرجا گہ تھال گلابوں سے، خوش رنگت کی گلکاری ہے

اور ڈھیر عبیروں کے لاگے، سو عشرت کی تیاری ہے

ہیں راگ بہاریں دکھلاتے ،اور رنگ بھری پچکاری ہے

منہ سرخی سے گلنار ہوئے ، تن کیسر کی سی کیاری ہے

یہ روپ جھمکتا دکھلایا، یہ رنگ دکھایا ہولی نے

جن شاعروں نے ہولی پرنظمیں لکھی ہیں،انھیں میں شامل ہیں بالمکند عرش ملسیانی۔ عرش پنجاب کے رہنے والے تھے اور راجدھانی دہلی میں ان کی رہائش تھی۔ان کے والد جوش ملسیانی بھی ایک نامور شاعرتھے۔عرش کی ہولی پرایک بے حد خوبصورت نظم ہے جس کا عنوان ہے ”پھر دھوم مچائی ہولی نے“۔وہ کہتے ہیں:

پھر خندہ گل کا شور ہوا

پھر موسم گل کا ساز بجا

پھر رنگ برنگ کے پھول کھلے

پھر دور خزاں کا مٹ کے رہا

پھر شورِ نوشا نوش اٹھا،

پھر دھوم مچائی ہولی نے

پھر ڈھول بجا ،پھر رنگ اڑا ،

پھر دھوم مچائی ہولی نے

ہولی ایک ایسا موضوع ہے جس پر نظمیں کہی گئی ہیں اور کہی جارہی ہیں۔ ماضی میں معروف اور غیر معروف شاعروں نے ہولی پر نظمیں لکھی ہیں اور آج کے شعراءبھی لکھ رہے ہیں۔سیماب اکبرآبادی کی بھی اس تعلق سے ایک اہم نظم ہے میری ہولی۔ اس کے چند مصرعے یوں ہیں:

خشکیٔ گنگ و جمن کی آبیاری کے لئے

دعوتیں دو گوپیوں کو رنگ باری کے لئے

از سر نو پھر مرتب ہو جہان رنگ و بو

خار و خس سے پھر ہو پیدا کارخانے رنگ و بو

پریم رس سے لائو بھر کر خوش نما پچکاریاں

ہوں نئی دامان ہستی پر لطافت باریاں

ہولی گیت

ہولی ایک قدیم ہندوستانی تیوہار ہے جو گاﺅں گاﺅں میں منایا جاتا ہے۔اسی لئے ہولی پر بہت سے لوک گیت بھی مشہور ہیں،جو نہ جانے کب سے گائے جارہے ہیں۔ ان گیتوں کے علاوہ بھی بہت سے گیت شاعروں نے لکھے ہیں جن میں سے بعض فلموں کے ذریعے مشہور بھی ہوئے ہیں۔جیسے ”ہوری کھیلے رگھوبیرا اودھ میں ہوری کھیلے رگھوبیرا“اور ”رنگ برسے بھیگے چنر والی رنگ برسے“ ۔ ان گیتوں کے علاوہ اردو کے شاعروں نے ایسے گیت بھی لکھے ہیں،جو کلیات کی زینت اور اردو شاعری کا قیمتی سرمایہ ہیں۔

ایسے گیتوں میں بیکل اتساہی کے لکھے گیت بھی شامل ہیں۔بیکل اردو،ہندی شاعری کا معتبر نام ہے۔ وہ ایسے شاعرہیں جس کے کلام میں ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب کی سوندھی خوشبو رچی بسی ملتی ہے۔ انھوں نے کئی ہولی گیت لکھے ہیں جن کا مطالعہ ایک خوشگوار احساس میں مبتلا کردیتا ہے۔حالانکہ انھوں نے اپنے اشعار میں بھی اسے استعمال کیا ہے۔وہ کہتے ہیں:

ناچی ہے اتہاس کے آنگن میں ہولی کی یاد

جھول رہا ہے آگ کا جھولا پھول بنا پرہلاد

چہرے پر ماحول کے فطرت نے ماری پچکاری

دھرتی کی کوری چادر پر ہے دلکش گلکاری