ڈپٹی نذیر احمد اور تعلیمِ نسواں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
 ڈپٹی نذیر احمد اور تعلیمِ نسواں
ڈپٹی نذیر احمد اور تعلیمِ نسواں

 

محمد عامر

ڈپٹی نذیر احمد ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، وہ بیک وقت مترجم، ناول نگار، خطیب، مصلح قوم، تعلیم اور تربیتِ اولادکے شیدائی تھے۔ ان کا پسندیدہ موضوع تعلیم، تربیتِ اولاد اور اصلاح معاشرہ تھا جیسا کہ ان کی بیشتر تصانیف کے مطالعے سے عیاں ہوتا ہے۔ وہ ایک علمی خاندان میں پیدا ہوئے تھے، ابتدائی تعلیم والد محترم اور اپنے زمانے کے نامور استاد ڈپٹی نصراللہ سے حاصل کرنے کے بعد دہلی آئے، جہاں انھیں حصول علم کے مختلف مواقع ملے۔

نذیر احمد بچپن ہی سے تعلیم کے تئیں سنجیدہ اور فکر مند تھے۔ دہلی کالج میں نذیراحمد کاداخلہ ان کی قابلیت، محنت ولگن کابین ثبوت تھا۔ انھوں نے اپنا تعلیمی سفر غربت اور مفلسی کے سائے تلے شروع کیا۔ دلی کالج میں داخلہ ان کی زندگی کا وہ اہم موڑ تھا جہاں ان کی قابلیت کو چار چاند لگا، کیونکہ مناسب وقت پر صحیح رہنمائی ان کو میسر تھی۔

تکمیل تعلیم کے بعد تلاش معاش کے سلسلے میں انگریزی سرکار میں بغرض ملازمت مختلف شعبوں میں بھی رہے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں نے آزادی کا بگل بجایا تھامگر اس میں انھیں ناکامی ہاتھ لگی۔نذیر احمد دوراندیش، دوربیں اور مستقبل شناس تھے یہی وجہ ہے کہ اس ناکامی کاتجزیہ انھوں نے بہت جلد کرلیاتھا۔ انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوچکاتھاکہ جدید علوم وفنون کے بغیر معاشرے کو کوئی بھی طاقت پستی سے نہیں نکال سکتی۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے تعلیم اور اصلاح معاشرہ پر زیادہ زور دیا۔ یہی وہ دور تھا جب ہندوستانی مسلمان ناامیدی کے دلدل میں پھنسے ہوئے تھے جن کو باہر لانے کے لیے سرسید جیسے رہنما اصلاحی تحریک لے کر ان کے بیچ آئے۔

سرسید نے پہلے پہل مسلمانوں کے اندر تعلیمی بیداری اور اصلاحی پہلوؤں پر زوردیا۔ ہندوستان میں1857 کے انقلاب سے قبل اپنی قوم کے تئیں اصلاح معاشرہ کی تحریک راجہ رام موہن رائے شروع کرچکے تھے۔سرسید اس اصلاحی تحریک سے کہیں نہ کہیں متاثر تھے۔ انھوں نے بھی قوم کی اصلاح کی غرض سے تعلیمی بیداری اور معاشرتی اصلاح پر خصوصی توجہ صرف کی۔

سرسید مسلمانوں کے لیے روایتی تعلیم کوناکافی اور بے کار تصور کرتے تھے اسی لیے انھوں نے اپنی قوم کو جدید تعلیم سے روشناس کرانے کی حتی الامکان کوشش کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی( محمڈن اورینٹل کالج) اس کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ سرسید کی یہ اصلاحی تحریک جس میں تعلیمی بیداری کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل تھی صرف مردوں کے لیے نہیں تھی بلکہ ان کے نزدیک تعلیم کا جوتصور تھا وہ عمومی نوعیت کا تھا لیکن واضح طور پر تعلیم نسواں کی بابت سرسید کا موقف پوری طرح ظاہر نہیں ہوتا، جہاں ایک طرف وہ اپنے زمانے کی تعلیم یافتہ عورتوں کو دیکھ کر عش عش کرتے تھے وہیں دوسری طرف ان کا خیال تھا کہ اگر ہمارے قوم کے مرد تعلیم یافتہ ہوجائیں گے تو عورتیں خودبخود تربیت یافتہ ہوجائیں گی کیوں کہ ہمارے سماج میں عورتیں مرد کے تابع ہیں۔ تعلیم نسواں کے تعلق سے سرسید کا نظر یہ کچھ یوں ہے:

مسلمان عورتوں کی پوری تعلیم اس وقت تک نہ ہوگی جب تک کہ اس قوم کے اکثر مرد پورے تعلیم یافتہ نہ ہوجائیں گے۔ اگر ہندوستان کے مسلمانوں کی سوشل حالت پر غور کیا جائے تو اس وقت جو حالت مسلمان عورتوں کی ہے وہ ہ میری رائے میں خانگی خوشی کے واسطے کافی ہے۔ جب کہ مسلمانوں کی موجودہ نسل بخوبی تعلیم وتربیت یافتہ ہوجائے گی تو مسلمان عورتوں کی تعلیم پر اس کا ضروربالضرور ایک زبردست ’گوخفیہ‘ اثر پہنچے گا۔

(لاہوری: ضیاءالدین (مرتب)، افکار سرسید، کراچی، فضلی سنز لمیٹڈ 1998، ص 212)

دراصل 1857کے  انقلاب کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کی زبوں حالی سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔وہ ہر موڑ اور ہر سطح پر ظلم وستم کا شکار تھے، تعلیمی لحاظ سے مسلما ن وقت اور حالات کے تئیں کافی پیچھے تھے اور ان کے اندر جو تعلیم تھی وہ بھی محض روایتی تھی جو کہ حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکافی تھی، اسی لیے سرسید نے جدید تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنی قوم کو فکر مند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سوتے جاگتے انھوں نے اپنی قوم کو اس پست حالت سے نکالنے کی ہر ممکن تعبیریں کیں لیکن جب مسلمان عورتوں کی تعلیم کا مسئلہ آیا تو انھوں نے اپنی سماجی حالت کا موازنہ کرتے ہوئے یوروپی عورتوں کی مثال دی جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی تعلیم یافتہ تھیں۔ سرسید نے اس کا جواز کچھ اس طرح پیش کیا کہ وہاں کے مرد پہلے تعلیم یافتہ ہوئے پھرانھوں نے اپنی عورتوں کو اس کی ترغیب دی چوں کہ سرسید نے دوران سفریوروپ کی تہذیبی وسماجی زندگی کا مشاہدہ قریب سے کیا تھا۔ وہاں کی تعلیمی صورت حال کے بارے میں لکھتے ہیں

اس وقت ہم تمام یوروپ کے تعلیم یافتہ ملک کی ہسٹری دیکھتے ہیں اور پاتے ہیں کہ جب مرد لائق ہوجاتے ہیں عورتیں بھی لائق ہوجاتی ہیں، جب تک مرد لائق نہ ہوں عورتیں بھی لائق نہیں ہوسکتیں۔ یہی سبب ہے کہ ہم کچھ عورتوں کی تعلیم کاخیال نہیں کرتے، اسی کوشش کو لڑکیوں کی تعلیم کا بھی ذریعہ سمجھتے ہیں۔“ (ایضاً، ص 211)

درج بالا اقتباس سے صاف طور پریہ واضح ہوجاتا ہے کہ سرسید نے عورتوں کی تعلیم کے مسئلے کو مرد کی تعلیم کے تابع رکھا۔ انھوں نے عورتوں کی جدید تعلیم کے لیے باضابطہ طور پر کوشش نہیں کی۔اس مضمون میں سرسید کے نظریۂ تعلیم نسواں پر بحث کرنا مقصود نہیں بلکہ اس بات کی طرف توجہ مرکوز کرانا ہے کہ اس عہد میں تعلیم نسواں کے موضوع پر بھی بحث کی جارہی تھی۔

سرسید جیسے رہنما تعلیم نسواں کے لیے روایتی تعلیم کے قائل تھے چوں کہ ان کے زمانے میں مردوں کے اندر ہی تعلیمی فقدان تھا ایسی صورت میں اگر وہ عورتوں کے لیے جدید تعلیم کی حمایت کرتے تونہ جانے ان کی تحریک کا رخ کس جانب ہوتا۔ ابھی تومرد کی تعلیم پر بات کرنے سے مختلف قسم کی رنجشوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا اگر وہ تعلیم نسواں کی بات کرتے تو شاید ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔کسی حدتک سرسید کا یہ نظریہ درست تھاکہ اگر معاشرے میں مرد تعلیم یافتہ ہوجائیں گے تو عورتوں کو تعلیم یافتہ بنانے میں دیر نہیں لگے گی۔ انھوں نے تعلیم نسواں کی مخالفت تو نہیں کی مگر سوچنے کا انداز اوروں کے مقابلے مختلف تھاچوں کہ سرسید کی تعلیمی بیداری اجتماعی حیثیت کی حامل تھی اس لیے ان کوہر پہلو پر نظر رکھنا ضروری تھا۔

 ڈپٹی نذیر احمد کا شمار سرسید کے فعال رفقا میں ہوتا ہے۔ تعلیم کے نشیب وفراز سے وہ بخوبی واقف تھے۔ ایک مدت تک شعبۂ تعلیم میں ملازمت بھی کرچکے تھے۔ زمانے کے بدلتے حالات سے بھی بخوبی آشنا تھے۔ اس عہد میں نذیراحمد وہ واحد شخص تھے جنھوں نے تعلیم نسواں اور ان کے مسائل کو لے کر غوروفکر کیا۔ سرسید احمد خاں کی طرح تعلیم نسواں کے تئیں غیر واضح طور پر نہیں بلکہ واضح طور پر اپنی آرا کا اظہار کیا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کی۔تعلیم نسواں کی کمی کا انھیں شدت سے احساس تھاکیوں کہ جب ان کی اولاد حصولِ تعلیم کے قابل ہوئی تو اس زمانے میں ان کی نظر مروجہ نصابی کتب پر گئی۔ انھیں کوئی ایسی معیاری کتاب نہیں ملی جسے وہ اپنی لڑکیوں کو پڑھانے میں معاون پاتے۔ انھوں نے خود اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے ’مرأة العروس ‘ کے دیباچہ میں لکھاہے

خاندان کے دستور کے مطابق میری لڑکیوں نے بھی قرآن شریف اور اس کے معنی، قیامت نامہ، راہ نجات وغیرہ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے اردوکے رسالے گھر کی بڑی بوڑھیوں سے پڑھے۔گھر میں رات دن پڑھنے لکھنے کا چرچا تو رہتا ہی تھا۔ میں دیکھتا تھا کہ ہم مردوں کی دیکھا دیکھی لڑکیوں کوبھی علم کی طرف ایک خاص رغبت ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی مجھ کو یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ نرے مذہبی خیالات بچوں کی حالت کے مناسب نہیں۔ اور جومضامین ان کے پیش نظر رہتے ہیں ان سے ان کے دلوں کو افسردگی ان کی طبیعتوں کو انقباض اور ان کے ذہنوں کو کُندی ہوتی ہے۔ تب مجھ کو ایسی کتاب کی جستجو ہوئی جو اخلاق ونصائح سے بھری ہوئی ہو اور ان معاملات میں جوعورتوں کو زندگی میں پیش آتے ہیں اور عورتیں اپنے توہمات اور جہالت اور کجرائی کی وجہ سے ہمیشہ مبتلائے رنج و مصیبت میں رہا کرتی ہیں۔ اُن کے خیالات کی اصلاح اور ان کے عادات کی تہذیب کرے اور کسی دلچسپ پیرایہ میں ہو جس سے اُن کا دل نہ اکتائے طبیعت نہ گھبرائے مگر تمام کتب خانہ چھان مارا۔ایسی کتابوں کاپتہ پر نہ ملا تب میں نے اس قصے کا منصوبہ باندھا۔

(ڈپٹی نذیر احمد: مرأة العروس، لکھنؤ، تیج کمار، 1978، ص 1-2)

درج بالا اقتباس طویل تو ضرورہے مگر اس کے بغیر پوری بات واضح نہیں ہوپاتی۔ دراصل یہ وہی محرکات تھے جس نے نذیر احمد کو تعلیم نسواں کے تئیں سنجیدہ ہونے پر مجبور کیا۔ تعلیم نسواں کے تعلق سے1857 کے ہنگامہ خیز انقلاب کے بعد یہ پہلی شعوری اور انفرادی کوشش بھی تھی۔ نذیر احمد نے حصول تعلیم کے لےے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیاتھا نیز وہ اعلیٰ درجے کی علمی بصیرت اورذوق سلیم رکھتے تھے۔ انھیں جب تعلیم نسواں کے لیے کتابوں کی ضرورت پڑی تو سارے کتب خانے چھان مارے لیکن نتیجہ بے سود رہا۔ کیوں کہ زمانے کے تقاضے کے مطابق انھیں کوئی ایسی کتاب ملی ہی نہیں جو ان کے نقطۂ نظر کی پاس دار ہو۔

دراصل وہ روایتی نصاب تعلیم سے مطمئن نہیں تھے، جیسا کہ درج بالا اقتباس میں اس کا انھوں نے اعتراف بھی کیا ہے۔یہ اقتباس اس عہد میں تعلیم نسواں کی خستہ حالی کی طرف بھی اشارہ کرتاہے۔ انقلاب کے فوراً بعد کا زمانہ سیاسی، سماجی اور معاشرتی سطح پر زوال پذیر تھا۔ایسے حالات میں قوم کو سیاسی اور معاشرتی زوال سے باہر نکالنے کے لیے اس وقت کے ادیب ومفکر اس بات پر متفق تھے کہ قوم کی تعلیمی بیداری اور معاشرتی بگاڑ کے اصلاح پر دھیان دیاجائے۔ بعض مفکرین نے حصول تعلیم کی کھل کر حمایت کی اور کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی۔ تعلیم نسواں کے تئیں سنجیدہ ہونے کے پس پشت نذیر احمد کی منشایہ تھی کہ اگر عورتیں تعلیم یافتہ اور باشعور ہوجائیں گی تو وہ امور خانہ داری کی ذمے داری کے علاوہ اپنی آنے والی نسلوں کی صحیح اور بہتر رہنمائی بھی کرسکیں گی۔

تعلیم نسواں کے لیے نذیراحمد صرف فکر مند ہی نہیں تھے بلکہ اس کے لیے انھوں نے عملی قدم بھی اٹھایااور بڑی بے باکی سے اس مسئلہ پر اظہار خیال کیا۔ ان کی پہلی تخلیقی کاوش ”مرأةالعروس“ جسے’ اردو ادب کا پہلا ناول ہونے کا شرف بھی حاصل ہے‘ تعلیم نسواں کے خلاکو پر کرنے کے لیے ہی وجود میں آیا تھا۔ دراصل یہ کتاب نذیراحمد نے اپنی لڑکیوں کو پڑھانے کی غرض سے تصنیف کیاتھا۔ اس کتاب میں انھوں نے ایک فرضی قصے کے ذریعے عورت کے اندر تعلیم نہ ہونے کے نقصانات کے ساتھ تعلیم یافتہ عورت کی خوبی کی داستان مرتب کی ہے۔بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ کتاب خواندہ اورناخواندہ عورت کے تقابل پر مبنی ہے۔

دوسری طرف یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب تعلیم نسواں کے طریقۂ کار کے تمام ترتقاضوں کا خاکہ بھی پیش کرتی ہے۔ ’مرأة العروس‘ کو نذیراحمد نے تعلیم نسواں کے فروغ اور ضرورت کے لیے رقم کیا تھا جس میں دو بہنوں کے فرضی قصے کے ذریعے تعلیم نسواں کی اہمیت وافادیت کواجاگر کیا گیا ہے۔اس میں اکبری کا کردار جو کہ بڑی بہن ہے جس کی تعلیم وتربیت نہ ہونے کی وجہ سے شادی کے بعد اپنے افعال سے سسرال کو اجیرن بنادیتی ہے۔

اس کے بالمقابل اصغری کا کردارہے جس کی تعلیم وتربیت پر بچپن سے دھیان دیا گیا تھاوہ گھر کو جنت بنادیتی ہے۔اس ناول میں اکبری کے کردار کو مختصراً بیان کیا گیا ہے جب کہ اصغری کے کردار کے تمام پہلوؤں کی تصویر کشی وضاحت سے کی گئی ہے۔ بلکہ یہ کہنامناسب ہوگاکہ اصغری کے کردار سے نذیر احمد نے تعلیم نسواں کے تئیں اپنے نظریات کااظہار کیاہے۔

ایسانہیں ہے کہ نذیراحمد صرف لڑکیوں کی تعلیم کے قائل تھے بلکہ وہ لڑکوں کے لیے بھی تعلیم کو ضروری تصور کرتے تھے۔ جیساکہ ان کے مکاتیب کے مجموعہ ’موعظہ حسنہ‘ کے بیشتر خطوط سے واضح ہوتا ہے، لیکن نذیر احمدنے تعلیم نسواں پر زور دے کر ’تعلیم حاصل کرو مہد سے لحدتک‘ پر عمل کیا ہے کیوں کہ ایک انسان کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک ماں اگر ناخواندہ ہوگی تو انسان اپنی پہلی درس گاہ میں کس نوعیت کی تعلیم حاصل کرسکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ نذیراحمد تعلیم نسواں پر زور دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ’مرأةالعروس‘ میں لکھتے ہیں:

عورتوں کو اپنی اولاد کی تہذیب کے واسطے بھی لیاقت حاصل کرنے کی بہت ضرورت ہےپس اے عورتو! اولاد کی اگلی زندگی تمہارے اختیار میں ہے چاہو تو شروع سے ان کے دلوں میں وہ ارادے اور وہ اونچے خیال بھردو کہ یہ بڑے ہوکر نام ونمود پیداکریں اورتمام عمر آسائش میں بسرکرکے تمھارے شکرگزار رہیں اور چاہوتو ان کی افتاد کو ایسا بگاڑ دو کہ جوں جوں خرابی کے لچھن سیکھتے جائیں اور انجام تک اس کا تاسف کیا کریں۔“ (ایضاً، ص 25-26)

درج بالا اقتباس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عورتوں کے لیے تعلیم اور لیاقت کیوں اور کتنی ضروری ہے۔ لیکن عہد نذیر احمد سے موجودہ دور تک نہ جانے کیوں تعلیم نسواں کے سلسلے میں ہمارا سماج بے راہ روی کا شکار رہا ہے۔ ویسے بھی ہندوستان میں ہماری سماجی وتعلیمی حالت دن بہ دن خستہ ہوتی جارہی ہے اور آج بھی سماج میں کچھ افرادموجود ہیں جو تعلیم نسواں کو فضول اور غیر سماجی گردانتے ہیں۔ ہرزمانے میں یہ کہہ کر تعلیم نسواں کے فروغ کو روکا گیا کہ اگر عورتیں تعلیم حاصل کریں گی تو سماج میں فحاشی اور برائی کا چلن عام ہوگا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علم بے حیائی کو روکتا ہے۔

جو لوگ تعلیم نسواں کی مخالفت کرتے ہیں ان کو شاید یہ نہیں معلوم کہ عہد حاضر ایڈوانس ٹکنالوجی کا عہدہے۔ بہت ساری ضروریات زندگی کل کے مقابلے آج ایسی ہیں جن کی حاجت مرد اور عورت کو یکساں ہے۔ عہد حاضر میں جدید علوم کی طرف مرد تو پہلے کے مقابلے میں کچھ بہتر کررہے ہیں مگر عورتوں کو جس لائق ہونا چاہیے تھا اس کو دیکھ کربڑی مایوسی ہوتی ہے۔ آج دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم اسی میں الجھے ہوئے ہیں کہ تعلیم نسواں سماجی برائی کاباعث بنے گی۔ یاد رہے بے حیائی کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بے حیائی تو وہاں بھی ہے جہاں پر تعلیم نسواں کا کوئی چلن نہیں ہے تو اس کو کیا نام دیا جائے۔

 1857 کا عہد ایک ایسا عہد تھا جہاں مرد ہی بے راہ روی اور جہالت کے شکار تھے۔ اصلاحی تحریکوں کے ذریعے سماجی اور تعلیمی بیداری کی کوششیں کی گئیں مگر آج ہمیں جس سطح پر ہونا چاہیے اس سے کوسوں دور ہیں۔ نذیر احمد مرد کے ساتھ ساتھ تعلیم نسواں کے قائل اس لیے تھے کہ ہماری گھریلو زندگی بھی بہتر ہوسکے، جس کے لیے ہمیں اپنے گھروں کی عورتوں کو تعلیم یافتہ بنانا بے حد ضروری ہے۔ جیسا کہ ’مراةا لعروس ‘ کے قصے سے ظاہر ہوتا ہے۔ نذیراحمد اپنے زمانے سے قبل اور خوداپنے زمانے کی مشہور ومعروف تعلیم یافتہ عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے ’مراة العروس‘ میں تعلیم نسواں کی اہمیت وافادیت کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

جو لڑکیاں اپنا وقت گڑیاں کھیلنے اور کہانیاں سننے میں کھوتی ہیں وہ بے ہنری رہتی ہیں اور جن عورتوں نے وقت کی قدر پہچانی اور اس کو کام کی باتوں میں لگایا وہ مردوں کی طرح دنیا میں نامور اور مشہورہوئی ہیں جیسے نورجہاں بیگم، زیب النسا بیگم یا ان دنوں نواب سکندر بیگم یا ملکہ وکٹوریہ، یہ وہ عورتیں ہیں جنھوں نے ایک چھوٹے سے گھر یا کنبے کا نہیں بلکہ ملک اور جہاں کا بندوبست کیا۔“ (ایضاً، ص 15)

 نذیراحمد نے تعلیم نسواں کے موضوع پر جس بے باکی سے لکھا وہ بے باکی اس عہد کے دیگر مفکرین کے یہاں نظر نہیں آتی۔ انیسویں صدی کے ہندوستان کی سماجی و تہذیبی صورت حال پر اگر نظرڈالی جا ئے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس عہد میں عورتوں کے تقدس اور احترام کے تو سبھی قائل تھے مگر ان کی انفرادی شناخت کا حامی کوئی نہیں تھا۔ اس عہد میں عورتوں کی تعلیمی صورت حال بہتر نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ ان کی سماجی صورت حال ابتر تھی، جس کی وجہ سے طرح طرح کے ظلم وستم ان پر ڈھائے جاتے تھے۔اس سنجیدہ مسئلے پر کسی نے آواز بلند کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس عہد میں یہ خیال عام تھا کہ عورت گھر کی زینت ہے اور اسے چہاردیواری میں رہنا چاہیے۔

مگر یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا چہار دیواری کے اندر ان کے حقوق کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوتی؟ سماجی آزادی کا فقدان، انفرادی حقوق کی پامالی، رحمِ مادر میں بچیوں کا قتل اور بیوہ کی دوسری شادی نہ ہوناوغیرہ ایسے مسائل ہیں جن سے طبقۂ نسواں کے تئیں مرداساسی سماج کی جہالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ تعلیم نسواں اوران کے حقوق سے متعلق نذیر احمد کے موقف کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک ایسے عہد میں جو مرداساس معاشرہ تھاوہاں انھوں نے حقوق نسواں کی آوازاٹھائی۔ اسی لیے انھوں نے تعلیم نسواں کی حمایت تو کی مگر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ معاشرتی حالات میں عو رتوں کواپنا حق حاصل کرنا آسان تو نہیں ہے اس لیے انھیں چاہیے کہ پہلے مناسب تعلیم حاصل کریں۔ نذیراحمد ایک جگہ لکھتے ہیں:

پڑھنا سیکھو کہ پردے میں بیٹھے ہوئے تمام دنیا کی سیر کرلیا کرو۔ علم حاصل کرو کہ اپنے گھر میں زمانے بھرکی باتیں تم کو معلوم ہواکریں۔“ (ایضاً، ص 25)

نذیراحمدتعلیم نسواں کے طرف دار اس لیے بھی تھے کہ عورتیں خانگی اور ذاتی زندگی میں اپنی کمیوں کا ازالہ کرکے تعلیمی و معاشرتی اعتبار سے حسن خلق جیسی نعمتوں سے مزین ہوسکیں۔ عصر حاضر میں اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے کہ عورتوں میں تعلیم کی ضرورت اس لیے ہے کہ ان کی زندگی میں اولاد کی تعلیم وتربیت کا مرحلہ بھی آتا ہے۔ بچوں کی تربیت کی ذمے داری والدین کے سر ہوتی ہے، خاص طور پر ایک ماں اس سلسلے میں زیادہ سنجیدہ ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر اس کے اندر تعلیم اور تربیت اولادکی اچھی صلاحیت نہ ہوتو وہ بچوں کی رہنمائی کیسے کرسکتی ہے۔ ’مرأة العروس ‘میں اس نفسیاتی نکتہ کا تجزیہ کرتے ہوئے نذیراحمد کچھ یوں رقم طراز ہیں:

لڑکے مدرسے میں بیٹھنے کے بعد بھی مدتوں تک بے دلی سے پڑھا کرتے ہیں اور کہیں بہت دنوں میں ان کی استعداد کو ترقی ہوتی ہے۔ اس تمام وقت میں ان کو ماؤں سے یقینا بہت مدد مل سکتی ہے۔ اول تو ماؤں کی سی شفقت اور دل سوزی کہاں؟ اور دوسرے رات دن کا برابر پاس رہنا جب ذراطبیعت متوجہ دیکھی جھٹ کوئی حرف پہچنوادیا،یا کچھ گنتی ہی یاد کرادی، کہیں پورب پچھم کا امتیاز بتادیا۔مائیں تو باتوں باتوں میں وہ سکھا سکتی ہیں جو استاد برسوں کی تعلیم میں بھی نہیں سکھا سکتا۔“ (ایضاً، ص 26)

نذیراحمد کے نظریۂ تعلیم نسواں کی عکاسی ان کے خطوط میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ خواتین کی تعلیم اور ان کی تربیت کے تعلق سے کہتے تھے کہ یہ مردو ں کی ذمے داری ہے کہ اپنے گھروں میں عورتوں کو خو د تعلیم دیں اور اسے اس قابل بنائیں کہ وہ آنے والی نسلوں کی اچھی تربیت کرسکیں۔ ان کے یہاں گھر سے باہر نکل کر عورتوں کوتعلیم حاصل کرنے کا تصور اس لیے نہیں ملتا کہ اس عہد میں عورتوں کی عفت کا مسئلہ اورتحفظ کا ڈر تھا۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ گھر کے اندر ہی عورتوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ نذیراحمدکی گھروں میں تعلیم حاصل کرنے کی وکالت کامیاب بھی ہوئی۔ خود انھوں نے اپنے گھر میں اس بات کی تاکید کی۔ اپنی بہو کی تعلیم وتربیت کے متعلق بیٹے کوایک خط میں لکھتے ہیں:

تاکید کروکہ تمھاری بی بی لکھنا سیکھے، اور اس کے پڑھنے کی کتابیں جمع کرو اور اس کی مدد کامل طور پر کی جائے۔ اگر فرمایشوں کی نوبت آئے تو اس کو حقارت کے ساتھ روک دینا کہ ہماری تمھاری حالت پر اماںکو نظر ہے اور اس قدر بس کرتاہے، جو ان کو مناسب معلوم ہوگا خود کریں گی۔ کچھ تھوڑا سا روپیہ دے کر دیکھو کہ کیا کرتی ہے؟ اگر وہ سودے سلف یا عارضی نمایش کی چیزوں میں اٹھا ڈالے تو جانو کہ احمق اور ناعاقبت اندیش ہے، اور اگر زیور یا دوسرے عمدہ مصرف میں لگائے تو البتہ خوشی کی بات ہے۔ تم کو ایک مدت تک بی بی کو تعلیم کرنا پڑے گا۔

(ڈپٹی نذیر احمد: موعظہ حسنہ، مرتبہ: ثوبان سعید، نئی دہلی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی 2015، ص 167)

تعلیم نسواں کے سلسلے میں نذیراحمد کا یہ موقف رہا ہے کہ ان کو صرف اتنی تعلیم دی جائے کہ گھریلو کام کاج، اولاد کی تربیت اور اپنے حقو ق کو جان سکیں۔ انھوں نے عورتوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کی وکالت نہیں کی۔ ان کا ماننا تھاکہ عورتوں کو بنیادی تعلیم دینا ہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ جب بنیاد ہی نہیں ہوگی تو عمارت کا انحصار کس پر ہوگا۔ انیسویں صدی میں تعلیم نسواں کے سلسلے میں کوئی بہتر انتظام نہیں تھا جب کہ عصر حاضر میں تعلیم نسواں کے باب میں اسلامی ادارے قائم کےے گئے ہیں، جہاں لڑکیوں کی تعلیم کی بابت اچھا بندوبست کیا گیا ہے۔

جن میں ان کی تعلیم سے لے کر تربیت پر بھی خاص دھیان دیا جاتا ہے۔ عصر حاضر میں عورتیں پردے میں رہ کر ہر وہ تعلیم حاصل کررہی ہیں جن کو پہلے حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ انیسویں صدی میں عورتوں کی تعلیم کا تصور بھی نہیں تھا اور اس وقت ایسے ادارے بھی نہیں تھے جہاں پر ان کی عزت وعفت کی کوئی ضمانت لیتا۔ اس لیے اس عہد میں عورتوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا۔ عصر حاضر میں اس کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ عورتوں کی تعلیم کے لیے باقاعدہ مدارس اور ہاسٹل کا انتظام کیا گیا ہے جہاں پر ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عفت کی حفاظت بھی کی جاتی ہے۔

انیسویں صدی میں جو لوگ اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ پردہ کے رواج کی وجہ سے مسلمان عورتیں ترقی کی راہ میں رکاوٹ کاسبب بنتی ہیں اس لیے وہ اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں۔ اس مسئلے پر نذیراحمد کا جو موقف ہے وہ قابل تعریف ہے۔ جس سماج میں عورتوں کی تعلیم کاکو ئی تصور ہی نہ ہو ان سے اچانک اعلیٰ تعلیم کی بات کرنا ایسا ہی ہے جیسے ایک کلووزن اٹھانے کی سکت رکھنے والے کو اچانک دس کلو دے دیا جائے۔کچھ لوگوں کا کہناہے کہ مسلم معاشرے میں جورسم وروا ج ہیں اس سے عورتیں ترقی نہیں کرسکتیں، نذیراحمد اس دلیل کو باطل قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بات سے بالکل واقف تھے کہ پردہ کسی بھی طرح ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا سبب نہیں بنتا ہے۔ انھوں نے ایک خط میں کچھ یوں لکھا ہے

مگر خوب سمجھ رہوکہ مجھ کو اس میں ذرا بھی کلام نہیں کہ ہندوستان کی عورتوں کو ان کی حالت کے مناسب تعلیم کرنا نہایت ضروری ہے۔ مگر ساتھ ہی رواج پردہ کی موقوفی کا میں سخت مخالف ہوں۔ اول تو میں انگریزوں کا کوئی کارنمایاں ایسا نہیں دیکھتا جس کو میں سمجھوں کہ پردہ اس میں حارج ہوسکتا ہے۔ اور اگر ہوبھی تو بے پردگی کے خراب نتیجے اخباروں میں پڑھتے پڑھتے کلیجا پک گیا ہے۔“ (ایضاً، ص 209)

جہاں پر تعلیم نسواں کا کوئی تصور ہی نہ ہو وہاں پر اچانک اعلیٰ تعلیم کی بات کرنا احمقانہ سی بات لگتی ہے۔ اس زمانے کے روشن خیالوں کو پہلے عورتوں کے لیے مناسب تعلیم کی بات کرنی چاہیے تھی جیسا کہ نذیر احمد نے کی۔ درج بالا اقتباس اس بات پر دال ہے کہ نذیراحمد عورتوں کو مناسب تعلیم دینے کے حق میں تھے۔ نذیراحمدبھی اگراس عہد میں اعلیٰ تعلیم کی بات کرتے تو سماج ان کو بھی حقارت کی نگاہ سے دیکھتا۔لیکن انھوں نے پہلے عورتوں کے لیے مناسب تعلیم کی بات کی اور یہی وقت کی ضرورت بھی تھی۔ تعلیم نسواں کے متعلق نذیراحمد کے نظریات وخیالات کی عکاسی اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ انھوں نے پہلے اپنے گھر کی عورتوں کو مناسب تعلیم دینا فرض سمجھا۔ ’مرأة العروس‘ اس کی ایک اہم کڑی ہے۔ ان کے خط کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

خدا کی قسم ایک ہمارے گھر کی عورتیں ہیں کہ ہر طرح کی عمدگی ان میں ہے۔ پاک دامنی، دین داری، ہنر خانہ داری، شوہروں کی اطاعت گزاری،نیک دلی، کفایت شعاری:اور ان باتوں کے ساتھ اس قدر پڑھنا لکھنا جوہماری سوسائٹی کی حالت موجودہ کے لحاظ سے عورتوں کو ضروری ہے۔ کیا ہے جو ان میں نہیں ہے۔

(ایضاً، ص 51)

تعلیم کے ساتھ عورتوں کو زمانے کی ضرورت کے مطابق ہنر بھی حاصل کرنا چاہیے۔کیوں کہ انسانی زندگی میں حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ اس لیے یہ صرف مردوں کے لیے خاص نہیں ہے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنراور لیاقت بھی حاصل کریں۔ مستقبل میں ایک انسان پروقت اور حالات کیسے ہوں گے یہ بات کسی کو نہیں معلوم۔ عورتوں کی زندگی ہمارے سماجی نظام میں مرد کے تابع ہے اور اس کے نان ونفقہ کی ساری ذمے داری مردوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور مرد ہی ہمارے سماج میں معاشی واقتصادی حالات کا ذمے دار ہوتاہے اس کے برعکس عورت کو امور خانہ داری کی ذمے داری سونپی جاتی ہے۔ ’

مرد تلاش معاش میں ہروقت گھر پر نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ سے عورت پر امور خانہ داری کے علاوہ بچوں کی دیکھ ریکھ بھی واجب ہوتی ہے چوں کہ یہی ہمارا سماجی نظام ہے،اس لیے عورت کو تعلیم کے ساتھ لیاقت اورہنرحاصل کرنابھی ضروری ہے۔ دوسرے یہ کہ عین جوانی میں اگرشوہر کا انتقال ہوجائے یاکوئی حادثہ پیش آجائے تو اس کی بیوی کس در پر اپنے بچوں کو لے کر جائے گی۔ ایسی حالت میں اگر عورت تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ہنر مند ہوگی تو وہ گھر بیٹھے چھوٹے موٹے کام کرکے بھی اپنے اور اپنے بچوں کی باقی زندگی کا بیڑا پار کرسکتی ہے۔ ایسی حالت میں اگر عورت میں تعلیم یا کوئی ہنر نہیں ہوگا تو اس کی بقیہ زندگی مصیبت زدہ ہوجائے گی۔ اس لیے ہمارا یہ سماجی فریضہ ہے کہ وقت اور حالات کی مناسبت سے ہم عورتوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ مصیبت پڑنے پر کسی کی محتاج نہ رہیں۔ ’مرأة العروس ‘ میں نذیر احمد اس مسئلے کی طرف توجہ مرکوز کراتے ہوئے لکھتے ہیں:

لکھنے پڑھنے کے علاوہ سینا پرونا کھانا پکانایہ دونوں ہنر ہر ایک لڑکی کو سیکھنے ضروری ہیں۔ کسی آدمی کو یہ حال معلوم نہیں ہے کہ آئندہ اس کو کیا اتفاق پیش آئے گا۔ بڑ ے امیر اور بڑے دولت مند یکایک غریب اور محتاج ہوجاتے ہیں اگر کوئی ہنر ہاتھ میں پڑا ہوتا ہے تو ضرورت کے وقت کام آتا ہے۔ یہ ایک مشہور بات ہے کہ اگلے وقتوں کے بادشاہ باوجود دولت و ثروت کے ضرور کوئی کام سیکھ رکھا کرتے تھے تاکہ مصیبت کے وقت کام آئے۔

(ڈپٹی نذیر احمد: مرأة العروس، لکھنؤ، تیج کمار 1978، ص 18)

ڈپٹی نذیر احمد کا نظریۂ تعلیم نسواں پوری طرح واضح ہے۔وہ تعلیم نسواں کو وقت اور حالات کی ضرورت تسلیم کرتے ہوئے اس کے حق میں تھے کیونکہ وہ اس بات سے باخبرتھے کہ ہماری تہذیبی وسماجی ترقی تعلیم نسواں کے تصورکے بغیرمکمل نہیں۔ انھوں نے تعلیم نسواں کی شروعات اپنے گھر سے کی اور اپنی بچیوں کو پڑھانے کے لیے خود ہی کتابیں تصنیف کیں جن میں ’مرأةالعروس‘ اور ’بنات النعش‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

اتنا ہی نہیں ان کی دیگر تصانیف جن میں ’توبة النصوح‘ اور ’مؤعظہ حسنہ‘ کا نام خاص طور پر لیا جاسکتا ہے یہ بھی تعلیم اور تربیت اولاد کے موضوع پر مبنی ہیں۔ تعلیم نسواں کے تئیں نذیراحمد کے افکارونظریات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کی تعلیم کے علاوہ اپنی اکلوتی بہو کو بھی تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنانا چاہتے تھے۔آج بھی ہمارے سماج میں ایسا بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ بہو کو تعلیم دینے کی بات کی جاتی ہو۔

اس سوچ سے بھی نذیراحمدکے نظریۂ تعلیم نسواں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔بہر حال اتنا تو واضح ہے کہ نذیر احمد وقت اور حالات کے مطابق تعلیم نسواں کو ضروری مانتے تھے۔جس کی زندہ مثال ان کی متعدد تصانیف ہیں جوآج بھی تعلیم نسواں کی اہمیت اور افادیت کوواضح کررہی ہیں۔تقریباً ڈیڑھ صدی کا عرصہ گزر جانے کے بعدبھی ان کی تصانیف مشعل راہ ہیں اور اردوادب میں اعلیٰ مقام کی حامل ہیں۔