کیا طالبان اپنے آپ کو متحد کر سکتے ہیں؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
کیا طالبان اپنے آپ کو متحد کر سکتے ہیں؟
کیا طالبان اپنے آپ کو متحد کر سکتے ہیں؟

 

 

 کنگشک چٹرجی

حال ہی میں طالبان کے رہنما ملا عبدالغنی برادر کی گمشدگی اور پھر ہلاک ہونے کی اطلاع آئی ہے۔ اس کے علاوہ حقانی گروپ کے ساتھ ان کی مبینہ طور پر مڈبھیر کے دوران زخمی ہونے کی بھی اطلاع آئی۔

ان خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2021 کے طالبان کی بنیاد مضبوط نہیں ہے اور نہ یہ کوئی منظم تنطیم ہےبلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ مختلف گروہوں کے مجموعے کا ڈھیلا ڈھالا اتحاد ہے۔

وہ بھی ایک عام دشمن کے لیے جو ان کے درمیان سے اب جا چکا ہے۔اہم سوال یہ ہے کہ اب جب کہ مشترکہ دشمن - امریکہ کی زیرقیادت قابض قوت ختم ہوچکی ہے، کیا حکومت کی طاقت کا گلو(glue) انھیں متحد کر پائے گا۔

ایسا کہا جاتا ہے کہ 2001 میں جس طالبان کا تختہ پلٹ ہوا تھا، اب وہی طالبان اگست 2021 میں ملک پر قابض ہو کر واپس آگئے ہیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان مختلف گروہوں کا مجموعہ ہے، جو اقتدار کے لیے جدو جہد کر رہا ہے۔ یہ بنیادی طور پر وہی تنظیم ہے، جس نے 1996 سے 2001 تک کابل پر قبضہ جمائے رکھا تھا۔ اس وقت انھوں نے اسلام کی ایک انتہائی جابرانہ تعبیر ملک میں نافذ کی تھی اور خواتین کو کسی بھی قسم کی عزت دینے سے انکار کیا تھا اور انہیں سخت سزائیں دی تھی۔

تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو یہ سوچتے ہیں کہ طالبان کےاس ریلوڈیڈ ورزن( reloaded version) میں اعتدال پسندی ہے، اس لیے ان سے معاملات کئے جا سکتے ہیں۔

اس طرح کی باتیں جزوی طور پر درست بھی ہوسکتی ہیں اور جزوی طور پر غلط بھی ۔2021 کے طالبان 1996 سے مختلف ہیں۔ حالاں کہ سچائی یہی ہے ملا عمر کے ساتھ اقتدار میں آنے والے طالبان کی پوری اعلیٰ قیادت اب مرجھا گئی ہے۔ جس کا دعویٰ امریکہ کے فوجی آپریشن کے دوران کیا جا چکا ہے۔

سنہ 1990 کی دہائی کے نوجوان شعلہ بیان رہنما ( firebrand leaders ) آج ادھیڑ عمرکے ہوچکے ہیں۔ افغان اور پاکستانی جیلوں میں زندگی گزارنے کی وجہ سے ان کا ذہن کند ہو چکا ہے۔ ان پر گذشتہ سالوں سے نقل مکانی اور فرار کا بھی دباوہے۔

طالبان کی موجودہ قیادت کے اہم رہنما مثلا نئے امیر ہیبت اللہ اخند زادہ یا عبدالغنی برادر طالبان کے اس جزو کی نمائندگی کرتے ہیں جو تحریک طالبان کے انتہائی نچلی سطح سے اٹھ کر موجودہ حالت تک آئے ہیں یا ارد گرد جمع ہوئے ہیں۔ جسے کوئٹہ شوریٰ (Quetta shura) یا کیکس (caucus)کہا جاتا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ طالبان کا یہ گروہ جو پاکستانی جیل میں زندگی گزارنے کی وجہ سے ذہنی دباو کا شکار ہے۔ بظاہر دوحہ(قطر) میں مذاکراتی ٹیم کی قیادت کر رہا ہے۔ اب وہ تحمل، رواداری اور اعتدال پسندی کی بات کر رہا ہے اور ان زیادتیوں سے گریز کر رہا ہے جس نے انھیں شہرت اور سابقہ حکومت کے لیے تیار کیا تھا۔

موجودہ طالبان کا ایک دوسرا جزو ہے جس کی عددی طاقت اور اہمیت کے بارے میں زیادہ کچھ معلوم نہیں ہے۔ جوان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے طالبان کے تختہ الٹنے سے پہلے اس کی صوبائی قیادت تشکیل دی تھی اورجنہوں نے پاکستان میں پناہ طلب کی تھی۔ یہ پشاور شوریٰ (Peshawar shura) ہے جس کے مفادات کی نمائندگی اس وقت ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

خیال رہے کہ یہ پختون قوم کے روایتی اقتدار کی بازیابی چاہتے ہیں اور طالبان کے سب سے قدامت پسند خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں۔

موجودہ طالبان کا ایک تیسرا جزو ہے جسے میران شاہ شوریٰ (عرف حقانی نیٹ ورک) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ سنہ 2006 کے آس پاس سے طالبان کے تختہ الٹنے اور تقریباً 2012 تک ایک اہم گروہی طاقت حاصل کرنے کے بعد وجود میں آیا تھا۔

پاکستانی سرزمین سے مفرور افغانوں کی جانب سے شروع کیا گیا حقانی نیٹ ورک طالبان کا پہلا (اوراب تک کا واحد بڑا) ایسا گروہ ہے جس نے نسلی پختون سرحدیں عبور کیں اور افغانستان کے دیگر نسلی گروہوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ بالآخر اس نے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔

ابتدائی طور پر جلال الدین حقانی کی قیادت میں اور پھر ان کے بھتیجے سراج الدین حقانی کی قیادت میں آگے بڑھتا رہا۔ جلال الدین حقانی کی موت کے بعد یہ مخصوص گروہ گزشتہ دو دہائیوں سے شاید طالبان کے سب سے بدترین عنصر کی نمائندگی کرتا رہا ہے۔

حقانی نیٹ ورک نہ صرف پاکستانی آئی ایس آئی بلکہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی حمایت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے، وہ امریکہ مخالف مزاحمتی تحریک کا تلوار بردار (sword-arm ) رہا ہے۔

اور بڑی حد تک اسی طاقت کے ساتھ سراج الدین حقانی نے عملاً پہلے طالبانی قیادت میں اوراب افغان حکومت میں داخل ہونے کے لیے اپنا راستہ بنایا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اخندزادہ کو امیر بنایا گیا اور برادر جو کہ ملاعمر کے بہت قریبی تھے، انھیں حکومت میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے سے روک دیا گیا اور ملاعبدالغنی برادر کو محض نائب وزیراعظم بن کر رہ گئے۔

ایک چوتھا اور تھوڑا سا غیر متعین جزو ہے جسے طالبان کا لیبل لگا دیا گیا ہے لیکن یہ پچھلے تین گروہوں سے بہت زیادہ مختلف ہے۔  یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان سے حقانی نیٹ ورک آنے اور ان تک پہنچنے سے پہلے ہی امریکی فوجی قبضے، کرزئی اور غنی حکومتوں کے خلاف صوبوں میں ہر وقت لڑائی جاری رکھی۔

یہ تمام نسلی پس منظر کے گہرے روایتی افغان ہیں جن کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو کابل میں طے کئے گئے فرمانوں سے ناراض ہیں، جنھیں حکومت میں کسی بھی طرح فائدہ نہیں ملا۔

طالبان کی موجودہ تقسیم کے لئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ ان متنوع گروہوں کو دشمن کی عدم موجودگی میں اکٹھا رکھا جائے جو ان میں مشترک تھا۔

گزشتہ دو دہائیوں سے افغانستان کی معیشت غیر ملکی امداد کےسہارے پر کام کر رہی تھی۔ یہ امداد جاری رہے گی یا نہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ طالبان اقتدار سے کس طرح نمٹتے ہیں۔اگر وہ پچھلی شکل میں واپس آتے ہیں تو یہ امداد ختم ہو سکتی ہے۔

 اس لیے برادر جیسے لوگوں کی طرف سے اعتدال پسندی اور معافی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ جنہوں نے ایک موقع پر ایک جامع حکومت بنانے کی بھی بات کہی تھی۔ لیکن اس طرح کی اعتدال پسندی ان گروہوں کی طرف سے انتقام لینے کے مطالبات کی راہ میں حائل ہوگی جنھوں نے اصل لڑائی میں زیادہ حصہ لیا تھا اور مزاحمت کے لئے خون بہایا تھا -

یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ حقانی کو وزارت داخلہ کی ذمہ داری دی گئی۔ بلکہ اس میں کسی اور مثلا آئی ایس آئی کا بھی ہاتھ شامل ہوسکتا ہے۔

اگر حقانی نیٹ ورک مزید اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے توآپس میں یعنی دو شوراوں کے درمیان خطرناک لڑائی یقینی ہے۔

یہ بات کہی جاسکتی ہے طالبان کا چوتھا نام نہاد گروہ قیادت سے محروم ہے۔

اگر موجودہ حکومت ملک کے معمولی وسائل کی مساوی تقسیم میں اس طرح کامیاب ہو جاتی ہے کہ وہ صرف کچھ جیبوں میں مرکوز نہ ہو جائے تو یہ چوتھا جزو اس کورس(course) پر قائم رہنے کے لئے تیار ہوسکتا ہے۔

اگر طالبان کی یہ حکومت بھی پچھلی حکومت کی طرح منصفانہ تقسیم میں ناکام ہو جاتی ہے تو ایک اور خانہ جنگی شروع ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔

اس لیے طالبان سے بہت کم امید ہے کیوں کہ گذشتہ سو سالوں میں کوئی سیاسی تقسیم افغانوں کو مساوات کے دعووں سے مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔