کورونا کی قہرسامانی اور ہماری ذمہ داریاں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-05-2021
کورونا اور ہم
کورونا اور ہم

 

 

awazurdu

 پروفیسر اخترالواسع

کورونا وبا کی دوسری لہر نے ہر طرف حشر برپا کر دیا ہے۔ مدرسہ ہو یا خانقاہ، درگاہ ہو یا درس گاہ، عالم ہوں کہ ادیب، کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں رہا۔ ابھی ایک گھر سے رونے کی آوازیں تھم نہیں پاتیں کہ دوسرے گھر سے ماتم اور نوحے کی صدائیں آنے لگتی ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ایسی حشر سامانی کے عالم میں بھی کچھ لوگ اپنے شر سے بازنہیںآئے۔ آکسیجن کے سلینڈر ہوں یا وینٹی لیٹر، دوائیاں ہوں یا اسپتالوں میں بیڈ، سب کی کالا بازاری دیکھنے کو ملی۔ اسپتال جو کہ انسانی جان کی حفاظت اور بیماروں کی صحت کو یقینی بنانے کے لئے قائم کئے گئے انہوں نے انسانی جان کی حرمت کو تجارت میں بدل دیا۔ شمشان میں لکڑیاں مہنگی ہو گئیں تو قبرستان میں جگہ تنگ ہوگئی۔ غیروں کا شکوہ کیا اپنوں نے ایسی بے رخی، بے وفائی اور بے دردی کا مظاہرہ کیا کہ انتم سنسکار کو مناسب طریقے سے کرنے کے بجائے مرنے والوں کی لاشوں کو دریا برد کرکے اپنا پنڈ چھڑانے کی کوششیں کیں۔کچھ نہیں ہوا تو دریا کے کنارے مرنے والوں کو ریت میں دبا کر چھٹکارا پایا۔ غرض ایک قیامت کا منظر تھا جو ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ ہو یادہلی یونیورسٹی یا دیگر ادارے سب نے اپنی علمی اور انتظامی برادری کے نہ جانے کتنے لوگ کھو دیے۔ اس بیچ میں ایسالگتا تھا جیسے کورونا کی وبا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس اور اس کے نواحی علاقوں سے کچھ خاص دشمنی نبھا رہی ہو۔ خبریں آئیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 22 کے قریب اساتذہ اور تقریباً اسی کے آس پاس کی تعداد میں انتظامی عملے کے موجودہ اور سابق کارکنان کورونا کا شکار ہو گئے۔ موت برحق ہے، اس میں کسی کو شک نہیں۔ قضا اور قدر کے معاملات پیدا کرنے والے نے اپنے ہاتھوں میں رکھے ہیں لیکن ایک خاص زمانے میں یکے بعد دیگرے لوگوں کا ہمارے بیچ میں سے اٹھتے چلے جانا ظاہر ہے کہ سب کے لئے پریشانی، خوف اور ہراس کا باعث بنا۔ معاملہ علی گڑھ کا تھا تو اخباروں اور دوسرے ذرائع نشرو اشاعت میں زیادہ سرخیاں بننے میں کامیاب بھی ہوا۔ یہاں یہ حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے متعلق تمام اموات وہاں کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج میں واقع نہیں ہوئیں۔ان میں سے کچھ دہلی اور لکھنؤ میں، کچھ علی گڑھ کے پرائیویٹ اسپتالوں میں واقع ہوئیں لیکن مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے حالات کی سنگینی اور حساسیت کو دیکھتے ہوئے اس بات کی باقاعدہ تحقیق کے لئے سرکار سے رجوع کیا کہ یہ دیکھا جانا چاہیے کہ یونیورسٹی اور ملحقہ علاقوں میں کیا کوئی خاص وائرس کام کر رہا ہے جو ابھی علی گڑھ شہر کے دوسرے علاقوں میں نہیں پہنچا ہے۔ خوشی ہے کہ علی گڑھ کی صورتحال کی خطرناکیت پر وزیر اعظم شری نریندر مودی نے بھی توجہ دی اور وزیر اعلی اتر پردیش شری یوگی آدتیہ ناتھ کو علی گڑھ بھیجا کہ وہ یونیورسٹی جاکر صورتحال کا جائزہ لے کر ضروری اقدامات کریں اور خاص طو رپر علی مسلم یونیورسٹی جواہر لال نہرو میڈیکل کالج کو جس مدد کی ضرورت ہو وہ پہنچائیں۔ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور وائس چانسلر کی یہ فکر مندی کورونا وبا کے دوسرے مرحلے کو شکست دینے میں اور تیسرے مرحلے کو روکنے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں یہ دیکھنا ہے۔ امید ہے کہ جب اس بڑی سطح پر کوششیں ہوں گی تو کامیابی ملنی ہی چاہیے۔

سرکار اور یونیورسٹی کو جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ کر رہے ہیں لیکن ہر شخص پر جو یونیورسٹی اور علی گڑہ شہر کا حصہ ہے بلکہ ملک میں کہیں بھی رہ رہا ہے اسے کورونا کا مہاماری سے بچنے کے لئے خود بھی تمام احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا چاہیے۔ مجھے خوشی ہے کہ یونیورسٹی کے دین و دانش سے تعلق رکھنے والے ذمہ دار افراد نے جن میں قرآن سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر عبدالرحیم قدوائی، شیعہ دینیات کے سابق صدر شعبہ پروفیسر سید علی محمد نقوی، دینیات فیکلٹی کے موجودہ ڈین پروفیسر سعود عالم قاسمی جیسے لوگوں نے ایک عام اپیل کے ذریعے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ کورونا کا ٹیکہ ضرور لگوائیں اور اور کووڈ پروٹوکول کی پابندی کو لازمی بنائیں۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ علاج سے پرہیز ہمیشہ بہتر ہوتا ہے اور اگر اس کے باوجود بھی ہم خود سے اپنا دفاع نہیں کر پاتے ہیں تو فوری طور پر اسپتالوں سے رجوع کرنا چاہیے۔ ٹال مٹول یا جھولا چھاپ ڈاکٹروں کے ذریعہ شفایابی کی کوششیں صورتحال کو ہمارے لئے خطرناک ہی بناتی ہیں۔ اس لئے جسمانی فاصلے، ماسک کا استعمال، سینیٹائزیشن کو تو یقینی بنانا ہی چاہیے، بلا وجہ گھروں سے باہر نکلنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

شہریوں کے ساتھ سرکار کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسپتالوں میں مریضوں کے لئے داخلے اور وہاں ان کے علاج کے تمام سہولتوں کو یقینی بنائے۔ کالا بازاریوں پر اپنی گرفت کومضبوط کرے۔ وہ پرائیویٹ اسپتال جو لوگوں کی پریشانیوں کے نتیجے میں ان کا استحصال کرکے علاج کی منہ مانگی قیمتیں چارج کر رہے ہیں اور جنہوں نے اس طرح لوگوں کو مزید آزمائش میں ڈال دیا ہے اور علاج کی سہولتوں کی فراہمی کو لوگوں کے لئے ناممکن بنا دیا ہے ان کے خلاف سخت کارروائی کرے اور ضرورت ہو تو ان پر شکنجہ کسنے کے لئے ایک علیحدہ سے ٹاسک فورس قائم کرے۔ (مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)