اسلامی مطالعات میں ہندو دانشوروں کی خدمات

Story by  پروفیسراختر الواسیع | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
اسلامی مطالعات میں ہندو دانشوروں کی خدمات
اسلامی مطالعات میں ہندو دانشوروں کی خدمات

 

awazurdu

 

پروفیسر اخترالواسع

        ہندو بھائیوں کا اسلام سے تعلق اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ خود اسلام کی تاریخ ہے۔ ایسے شواہد موجود ہیں کہ عہد اسلامی کے آغاز سے ہی ہندوستان اور مسلمانوں کا گہرا رابطہ رہا ہے۔ یہ رابطہ ایسا نہیں تھا جیسا بعدمیں یورپ اور ہندوستان کا ہوا بلکہ یہ رابطہ ایسا تھا جیسے ایک ہی گھر کے مختلف افراد کے درمیان میں ہوتا ہے۔ ہندوستان میں اسلام کی آمد کے پہلے سے ہی عرب تاجر اور سیاح ہندوستان آتے رہتے تھے۔ ہندوستان کی مختلف مصنوعات عرب میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔ عرب اور ہندوستان کا یہ تعلق زمانہ ما قبل از تاریخ سے قائم ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب کے دوران بھی اس رابطہ کے استوار ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔ جب عرب کے لوگ مسلمان ہوگئے تو اس کے بعد بھی وہ حسب سابق ہندوستان آتے رہتے تھے اور اہلِ ہند ان کا بہت احترام کرتے اور ان کو سہولیات بھی فراہم کرتے تھے۔ یہ مسلمان تاجر بڑی تعداد میں ہندوستان آتے تھے، حتیٰ کہ ساحلی شہروں میں ان کی پوری پوری بستیاں آباد ہو گئی تھیں۔

       مسلمان تاجر جب بھی یہاں آتے توہندوستان کے لوگوں، یہاں کے راجاؤں اور یہاں کے ساز و سامان اور یہاں کی تہذیب و کلچر کا گن گان کرتے رہتے تھے۔ اس کی روشن مثال آٹھویں، نویں اور دسویں صدی کے عرب سفرناموں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

        لیکن آج جو موضوع پیش نظر ہے وہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تاریخی طور پر قریبی تعلقات کا بیان نہیں ہے بلکہ آج اس موضوع پر گفتگو کرنی ہے کہ ہندو بھائیوں نے اسلام کے مطالعہ، اسلامی تاریخ، تہذیب اور زبان کے مطالعہ میں کیا خدمات انجام دی ہیں۔ خاص طور پر اس میدان میں ان کی علمی خدمات کا تعارف مقصود ہے۔

         اگر اس موضوع پر گفتگو کی جائے کہ ہندو بھائیوں نے اسلام کی کیا خدمت انجام دی تو اس کی تاریخ بھی کم و بیش تیرہ صدیوں پر محیط ہے۔ اسلام کی آمد کے کم و بیش سو سال بعد سے ہی ہندو حضرات نے اسلامی علوم کی خدمت شروع کردی تھی جو آج تک جاری ہے۔ ظاہر ہے اس پورے دورانیہ کا جائزہ ایک مجلس تو کیا ایک کتاب میں بھی ممکن نہیں۔ اس لیے اس موضوع کا محض تعارف ہی اس جگہ مقصود ہے۔

        ہندو عالموں کے ذریعے اسلامی علوم کی خدمات کے حوالے سے تاریخ پر نظر ڈالنے پر ہمیں جو سب سے پہلی اور نمایاں ہستی نظر آتی ہے وہ برہم گپت کی شخصیت ہے۔ برہم گپت سنسکرت کے بڑے پنڈت تھے۔ وہ ہندوستان سے بغداد گئے اور خلیفہ منصور کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔ فارسی وہ یقینا پہلے سے جانتے رہے ہوں گے اس لیے موجودہ افغانستان تک اُس وقت ہمارا ملک پھیلا ہوا تھا۔ اسی طرح فارسی اپنے ملک کی زبان تھی۔ عربی زبان انھوں نے بغداد میں سیکھی اور ایک عرب عالم ابنراہیم الفزاری کی مدد سے برہم سدھانت کا عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ کتابوں کے ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمے ہوتے رہتے ہیں لیکن تہذیبی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ترجمہ تاریخ ساز ثابت ہوا۔ تاریخ انسانی پر اس ترجمہ کے بڑے گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اس ترجمہ کے ذریعہ نمبرات یعنی گنتی عربی زبان میں آئی۔ اسی لیے عرب گنتی کو ہندسہ کہتے ہیں اور عربوں کے ذریعے یہ نمبرات یورپ گئے اور اس لیے یورپ میں آج بھی یہ نمبرات عربی نمبر کہلاتے ہیں۔

        اس کتاب کے ترجمہ کے بعد میتھس یعنی ریاضی کی دنیامیں انقلاب آگیا۔ اس کے ذریعے ایسی گنتیاں ملیں جن کے ذریعے حساب کیا جا سکتا تھا اوراسی کتاب کے ذریعے صفر بھی ملا۔ صفر کو استعمال کرکے عربوں نے ریاضی کو بڑی بلندیاں عطا کیں۔ الجبرا جیسا فن ایجاد کیا۔

        برہم سدھانت کے ترجمہ کا دوسرا اثر یہ ہوا کہ ہندوستان سے بری تعداد میں پنڈت حضرات بغداد جانے لگے اور وہاں مختلف علمی کاموں میں وابستہ ہوگئے۔ تاریخ وتذکرہ میں تقریباً دو درجن ایسے لوگوں کا نام ملتا ہے جو بغداد میں ملّی کاموں میں مصروف تھے جیسے سنگھل،صالح بن بہلہ، کنکا، منکا وغیرہ۔ان میں بہت سے بڑے مترجم تھے اور بیت الحکمت میں اعلی عہدوں پر فائز رہے۔بعض طبیب بھی تھے انھوں نے ہندوستانی طب کی کتابوں کے بھی ترجمے کیے۔

        بغداد وہ پہلا مرکز تھا جہاں ہندو بھائیوںنے اسلام اور مسلمانوں کی علمی اعتبار سے بڑی خدمات انجام دیں۔ اگرچہ اس دور میں زیادہ ترسنسکرت کتابوں کے عربی ترجمے ہوئے تاہم علم کی دنیا تو ایک خوبصورت چمن ہے۔ اس میں صرف ایک پھول نہیں کھلتا بلکہ جب بہار آتی ہے تو مختلف طرح کے گلہائے رنگا رنگ کھلتے ہیں۔ اس لیے یقینی بات ہے کہ ترجمہ کے علاوہ بھی تصنیف و تحقیق کا سلسلہ رہا ہوگا۔

        اسلام کی خدمت کے حوالے سے ہندو بھائیوں کا دوسرا بڑا دور کشمیرکی علمی و تہذیبی روایت کا ہے۔ کشمیر میں بہت سے عالموں اور پنڈتوں نے فارسی زبان کی کتابوں کے سنسکرت میں ترجمے کیے۔ ان تراجم میں فارسی کی مشہور کتاب زلیخا یوسف کا ترجمہ بہت مشہورہے۔ اس کے علاوہ ان تراجم سے پہلے راج ترگنی جیسی شہرآفاق کتاب لکھی گئی جس میں اسلامی تاریخ کے بھی حوالے ہیں اور پوری کتاب کا اسلوب نگارش میں مسلم عہد کا اسلوب تحریر جھلکتا ہے۔ اس میں کئی مسلمان بادشاہوں کا بھی ذکر کیا گیاہے۔ یہ سب دہلی سلطنت کے قیام سے پہلے کے واقعات ہیں۔

        دہلی سلطنت کے قیام کے بعد اور خاص طور پر فیروز تغلق کے عہد سے ہندو حضرات بھی فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کرنے لگے اور جلد ہی بہت سے لوگ بڑے ماہر ہو گئے۔ انہوں نے فارسی میں باضابطہ کتابیں لکھنی شروع کیں۔ فارسی زبان میں شاعری شروع کی، فارسی شاعری کے علاوہ انہوں نے اپنی ہندی شاعری میں اسلامی تعلیمات اور علوم و معارف کو جگہ دی، بھگتی تحریک کے شاعر زیادہ تر اسلامی تعلیمات سے متاثر تھے اورانہوں نے اسلامی تعلیمات، اسلامی اصطلاحات اور اسلامی شخصیات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایاتھا۔ ریداس، گرونانک، بعد میں تلسی داس وغیرہ کے یہاں اس طرح کے بہت سے نمونے موجود ہیں۔

        مغل عہد کے آتے آتے ہندو علماء اسلامی علوم خاص طور پر تاریخ، تذکرہ اور انشاء فارسی ادب کے ایسے ماہر ہو گئے تھے کہ ان میں سے بعض کی کتابیں آج تک درسیات کی طرح پڑھائی جاتی ہیں جیسے چندربھان برہمن کی کتاب انشاء چندربھان اور چہار چمن وغیرہ۔

        چندربھان کے علاوہ اس دور میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ تھے جو اسلامی علوم کے ماہر تھے۔مسلم تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی اور انہوں نے ان موضوعات پر کتابیں لکھیں ہیں جو آج تک دستیاب ہیں۔ جیسے چند نام یہ ہیں:

بنواری لال داس (م 1037ھ)  ان کی درج ذیل کتابیں مشہور ہیں:محیط معرفت، گلزار حال، گنج عرفان، فارسی اور ہندی کا دیوان، بھگونت داس: شاہجہاں نامہ، منشی ہیرا من ولد گردھر داس: گوالیار نامہ، بندرا بن داس: لب التواریخ، سجان رائے بٹالوی: خلاصۃ التواریخ، ایشور داس ناگر: فتوحات عالمگیری۔

        مغل عہد میں اس طرح کی اور بھی بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ عہد عالمگیری کی ایک شخصیت لچھمی نارائن شفق تو گویا اس پوری کہکشاں کے ثریا ہیں۔ انہوں نے تاریخ اور تذکرہ کی متعدد دستاویزی اہمیت کی حامل کتابیں لکھیں۔ جیسے چمنستان شعرا،شام غریباں تحفہ احباب،مأثر حیدری اور تنمیق شگرف وغیرہ ۔

        برطانوی عہد کے آتے آتے اسلامی علوم و معارف کے سلسلے میں ہندوؤں کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا۔ مغل عہد میں زیادہ تر کتابیں تاریخ و تذکرہ کی ہیں لیکن برطانوی عہد میں اس میں بڑی ترقی ہوئی اور ہندو حضرات نے قرآن مجید، سیرتِ طیبہؐ، تاریخ اور دوسرے موضوعات پر بھی لکھنا شروع کیا۔

        مغل عہد کے حوالے سے اسی بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ محمد شاہی عہد میں جے پور کے راجا سوائی جے سنگھ نے فلکیات پر کتاب لکھی۔ اس کا نام زیج محمد شاہی رکھا۔ اسی طرح انہوں نے فلکیات کے متعدد ماہرین اپنے دربار میں ملازم رکھے اور دہلی اور جے پور میں رصد گاہ یعنی آبزرویٹری بنوائی جو جنتر منتر کے نام سے مشہور ہیں۔

(۔۔۔جاری ہے۔)

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)