ایڈوکیٹ جے دیو گائیکواڑ
آئین کا دن 26 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ضروری ہے کہ ہم دستور ہند کے ابتدائیے کی خصوصیات اور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے اس اہم کردار کو یاد کریں جو انہوں نے دستور ساز اسمبلی میں اوبجیکٹو ریزولوشن پر گفتگو کرتے ہوئے ادا کیا۔پندت جواہر لعل نہرو نے 13 دسمبر 1946 کو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں اوبجیکٹو ریزولوشن پیش کیا۔ اسی کے ساتھ اسمبلی کے کام کا آغاز ہوا۔ یہ ریزولوشن دراصل ایک عہد تھا جس میں اس قوم کے جمہوری مقاصد بیان کیے گئے تھے۔
ابتدائیے کے اہم نکات
ہندستان کو ایک آزاد خود مختار جمہوریہ قرار دیا جائے گا اور اس کے نظم و نسق کے لئے دستور تیار کیا جائے گا۔ہندستان میں شامل موجودہ علاقے۔ ریاستی علاقوں۔ برطانوی ہند سے باہر کے علاقے۔وہ تمام علاقے جو آزاد خود مختار ہندستان کی وحدت میں شامل ہونا چاہیں گے۔ ایک اتحاد ہوں گے۔جن علاقوں کی سرحدیں دستور ساز اسمبلی طے کرے گی۔ انہیں دستور کے قانون کے مطابق خود مختاری حاصل ہو گی۔آزاد اور خود مختار ہندستان کی تمام طاقت اور اختیار عوام سے حاصل ہوں گے۔ہندستان کے تمام لوگوں کو سماجی۔ معاشی۔ اور سیاسی انصاف کی ضمانت دی جائے گی۔
برابری۔ مرتبے اور موقع کی برابری۔ اور قانون کے سامنے برابری۔
آزادی۔ خیال کی آزادی۔ اظہار کی آزادی۔ عقیدے کی آزادی۔ ایمان اور عبادت کی آزادی۔ پیشے اور عمل کی آزادی۔ بشرطیکہ وہ قانون اور اخلاق عامہ کے دائرے میں ہو۔
اقلیتوں۔ پسماندہ علاقوں۔ قبائلیوں۔ دلتوں اور دیگر محروم طبقات کے لئے مناسب تحفظ فراہم کیا جائے گا۔جمہوریہ کی سرزمین اور اس کے زمینی۔ فضائی اور بحری حقوق کی حفاظت کی جائے گی۔یہ قدیم سرزمین دنیا میں اپنی باوقار جگہ حاصل کرے گی اور عالمی امن اور انسانیت کی بھلائی میں اپنا پورا کردار ادا کرے گی۔نہرو نے ریزولوشن پیش کرتے وقت ایک ولولہ انگیز تقریر کی۔ اس دوران مسلم لیگ نے دستور ساز اسمبلی کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ وہ الگ ملک اور الگ دستور ساز اسمبلی کے مطالبے پر اڑی ہوئی تھی۔ اسی وقت ایم آر جے کر نے ریزولوشن کو ملتوی کرنے کی درخواست کی۔ ان کی امید تھی کہ شاید اس سے مسلم لیگ کو منایا جا سکے۔
ایوان میں تناؤ بڑھا تو صدر دستور ساز اسمبلی ڈاکٹر راجندر پرساد نے ڈاکٹر امبیڈکر کو اظہار خیال کے لئے مدعو کیا۔ ان کی تقریر اس وقت جذبہ وطن دوستی سے بھرپور تھی۔ اس میں کوئی تلخی نہیں تھی بلکہ ملک کے مستقبل کی گہری فکر تھی۔ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے کہا کہ نہرو کے ریزولوشن میں کچھ کمی ہے۔ حقوق کا ذکر ہے۔ مگر ان حقوق کے نفاذ کے لئے موثر طریقے بیان نہیں کئے گئے۔ اگر پابندیاں لگانے کے طریقے نہ ہوں تو پھر یہ ضروری ہے کہ حقوق کی حفاظت کے لئے واضح تدبیریں شامل ہوں۔ انہوں نے اس اصول پر زور دیا کہ کوئی شخص قانون کی صحیح کاروائی کے بغیر اپنی جان۔ آزادی یا ملکیت سے محروم نہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ انصاف کا مطلب سماجی۔ معاشی اور سیاسی انصاف ہے۔ مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک میں سماجی۔ معاشی اور سیاسی ڈھانچے کی تعمیر نو ہو گی۔ آنے والے وقت میں اس ملک کو متحد ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ ان کے الفاظ پر ایوان تالیوں سے گونج اٹھا۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں کتنی ہی ذاتیں اور فرقے ہوں۔ ہم ایک متحد قوم ہوں گے۔ پھر بھی تالیوں کا شور بلند ہوا۔ مسلم لیگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک دن ان پر بھی روشنی واضح ہو جائے گی۔ وہ سمجھ جائیں گے کہ متحد ہندستان ہی ان کے لئے بہتر ہے۔ یہ باتیں انہوں نے اس وقت کہیں جب تقسیم ہند ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئی تھی۔
ڈاکٹر امبیڈکر نے نہ صرف ریزولوشن کی خامیوں کی نشاندہی کی بلکہ ہندو مسلم مسئلے پر بھی اپنی واضح رائے دی۔ انہوں نے سماجی۔ معاشی اور سیاسی انصاف کے لئے ٹھوس اقدامات پر زور دیا۔ انہوں نے مضبوط مرکز کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ اتحاد قائم رہ سکے۔ ان کی تقریر سے ظاہر ہوا کہ وہ ملک کے مسائل کے حل کے بارے میں کتنی گہری سوچ رکھتے تھے۔ ایوان ان کے خلوص اور حب الوطنی سے متاثر ہو گیا۔آج جب ہم اس تاریخ کو یاد کرتے ہیں تو یہ سوال شدت سے اٹھتا ہے کہ ہم ابتدائیے میں درج مقاصد تک کتنی دور تک پہنچے ہیں۔ برابری۔ آزادی۔ انصاف۔ اور اخوت کے اصول ہندستانی سماج میں کس حد تک راسخ ہوئے ہیں۔ اگر کم ہوئے ہیں تو وجوہات پر سنجیدہ غور کرنا ضروری ہے۔
مصنف۔ سابق رکن قانون ساز کونسل مہاراشٹر