مساجد کے ائمہ۔موذنین اورخدام کی واجبی ضروریات

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-06-2021
مساجد کے اٸمہ۔ موذنین اورخدام کی واجبی ضروریات۔کا خیال۔۔مساجد کی آبادکاری ہی کاحصہ ہے
مساجد کے اٸمہ۔ موذنین اورخدام کی واجبی ضروریات۔کا خیال۔۔مساجد کی آبادکاری ہی کاحصہ ہے

 

 

awazurdu

احمدنادرالقاسمی۔ نئی دہلی 

گزشتہ دوسالوں ۔سے اوربالخصوص ۔جب مساجد میں ۔نماز جمعہ اورعیدین کا سلسلہ موقوف رہا ۔مساجد سے وابستہ ۔حضرات کافی دشوار کن حالات سے گزرے ۔کٸی گھروں میں فاقہ تک کی نوبت آٸی ۔مگر ان حضرات نے الحمدللہ کبھی اللہ کے گھروں کو ویران نہیں ہونے دیا ۔اللہ ان کی قربانیوں کو قبول فرماٸے۔۔خدام مساجد کی انھیں دشواریوں کو دیکھتے ہوۓ ۔بہت سے لوگوں اپیلیں جاری کیں ۔بعض اہل خیر حضرات نے اس میں عملا شریک ہوکر حسب توفیق ۔ضروری اشیا کا انتظام بھی کیا۔اللہ ان کوجزاۓ خیر عطا فرماٸے۔ ۔ مساجد سے وابستہ۔ان مخلصین اورخدام دین متین حضرات پر مزیدتوجہ دینے کی ہے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ

میں اس وقت اس غلط فہمی کے ازالے کی غرض سے یہ تحریر لکھ رہاہوں ۔اورذمہ داران اورمتولیان حضرات سے مخاطب ہوں ۔وہ یہ کہ عام طور سے مساجد کے خدام اوراٸمہ ومٶذنین کی خدمت ۔مادی اعتبار سے ان کی کفالت۔اکرامیہ اوران کے لٸے فیملی رہاٸش کے انتظام کو ۔مساجدکی تعمیر (مساجد کوآبادرکھنا)سے جوڑ کرنہیں دیکھاجاتا۔۔بلکہ اسے الگ تصور کیاجاتاہے۔اورجس کالازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ مساجدکی تزٸین اوررنگ روغن اوردیگر امور پر توخوب پیسے خرچ کٸے جاتے ہیں ۔مگر مساجد کے پاس فنذ محفوظ ہونے کے باوجود ۔خدام مساجد کی ضرورت کا خیال نہیں رکھاجاتا۔۔یہی حال پراٸویٹ اورمحلہ کی مساجد کابھی ہے ۔اوروقف کی مساجد کابھی ہے۔ابھی تو حیرت ہوٸی جب ایک وقف کے امام سے پتہ چلاکہ ابھی دہلی کے وقف بورڈ کے آنے والی مساجد کے اٸمہ اورمٶذنین کو سات ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ بہت افسوس کی بات ہے۔اندازہ لگاٸیے ۔وہ کیسے زندگی گزاررہے ہوں گے۔اورکہاں کہاں قرض لے کر ۔اس لاک ڈاون کی نفسانفسی میں کسطرح گزراوقات کیاہوگا۔۔مگر پھر انھوں نے اپنی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار نہیں کیا۔

 بہرحال۔ مساجد کے ذمہ داران اورکمیٹی کے ارکان کو چاہٸے کہ وہ اس کو دین اورمساجدکی تعمیر کاحصہ تصور کرتے ہوٸے خدام مساجد کا خاطر خواہ خیال رکھنے کی کوشش کریں۔

ساتھ ہی میں اس سلسلہ میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے دسویں فقہی سمینار منعقد حج ہاوس ممبی۔کا حوالہ ذکرکرنا مناسب سمجھوں گا۔جس میں عرب وعجم ۔افریقہ۔بطانیہ اور امریکہ تک کے علمإ کی موجودگی میں اجتماعی طورپر یہ یہ قرار داد ایک شرعی مسٸلہ کے طورپر منظور کی گٸی اورمساجد کے ذمہ داران کواس جانب متوجہ کیاگیا۔۔۔جس کےالفاظ یہ ہیں

١٢۔مساجد کےمصارف کےلٸے موقوفہ اراضی اورجاٸدادوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کاایک اہم مصرف مساجد کے اٸمہ اورمٶذنین اوردوسرے خدام بھی ہیں ۔شرکا ٕ سمینار کااحساس ہے کہ بسااوقات مساجد کی آمدنی میں گنجاٸش ہونے کے باوجود اٸمہ ومٶذنین وغیرہ کی تنخواہیں بہت کم رکھی جاتی ہیں ۔جوان کی ضروریات کے لٸے بالکل ناکافی ہوتی ہیں اسلٸے سمینار سفازش کرتاہے کہ متولیان اورمساجد کے ذمہ داران مساجد کے اٸمہ ومٶذنین وخدام مساجد کو بہتر سےبہتر اکرامیہ پیش کریں اوران کی تنخواہوں کے مسٸلہ کو مساجد کے ضروری مصارف میں شمار کریں۔“۔

یہ گزارش بہت اہم ہے ۔اسلٸے ہمیں چاہٸے کہ بدلتےحالات۔ معاشی بوجھ اورموجودہ گرانی کی شرح کومدنظررکھتے ہوۓ ۔ ۔ مساجد کے اٸمہ اوردیگر خدام کا مساجد کی بنیادی ضروریات کے زمرے میں رکھتے ہوٸے خیال رکھیں ”انمایعمر مساجد اللہ من آمن باللہ ۔والیوم الآخر۔“۔اگراس میں کوتاہی ہوگی تو۔۔ہمیں ۔اچھے باصلاحیت اورلاٸق مند امام ومٶذن میسر نہیں ۔ہوں گے ۔اس کا خیال رہے۔

 اورساتھ ہی ۔مدارس بھی چونکہ اسلامی اوردینی روایات کے امین ہیں اور۔اسلامی اوقاف وتراث کا حصہ ہیں اسلٸے۔ان سے وابستہ ۔اساتذہ اورکارکنان کابھی ۔مدارس کی تزٸین سے زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ورنہ یہ گلشن اوریہ چمن بے نور اوربے کیف ہوں گے جب ہمی نہیں ہوں گے ۔

والسلام ۔طالب دعا