امریکہ- روس- چین کے داو پینچ سے پیچیدہ ہوتی عالمی سیاست

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 29-05-2021
 پیچیدہ ہوتی عالمی سیاست
پیچیدہ ہوتی عالمی سیاست

 

 

awazurdu

 دیپک ووہرا     

اپنے چینی ہم منصب سے گفتگو میں 11 فروری 2021 کو امریکی صدر جو بائیڈن نے چین کے زبردستی اور غیر منصفانہ تجارتی طریقہ کار ، اس کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ، ہانگ کانگ میں کریک ڈاؤن ، مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ، تائیوان سمیت ایشیاء میں اس کی جارحانہ پیش قدمی اور وائرس کے حوالے سے اس کی دانستہ گو مہ گو کی روش پر تشویش کا اظہار کیا۔ یہ گفتگو اس پس منظر میں ہوئی جب عام تاثر یہی ہے کہ بیجنگ کی خواہش ہے کہ دنیا ان مسائل کو فراموش کر دے۔

بائیڈن نے بعدازاں کہا کہ ان مسائل کے منفی اثرات چین پر بھی مرتب ہوں گے جس کا اسے بخوبی ادراک بھی ہے ۔ اس کے علاوہ چین کو سزا دینے کے لئے امریکی کانگریس میں متعدد بل پاس ہونے کے منتظر ہیں۔

جو بائیڈن نے امریکی سینیٹرز کو بتایا کہ اگر ہم نے سستی دکھائی تو وہ (چین) ہمارے حصے کے ثمرات ہو ہڑپ کر سکتا ہے کیونکہ چینی صدر زی جنپنگ کی طبیعت میں جمہوریت کی رمق بھی موجود نہیں ہے۔ تکبر اور طاقت کے نشے میں شرابور بیجنگ کو بظاہر امریکی زبان سمجھ نہیں آ رہی ہے ۔ سرد جنگ کے دوران ، ماسکو اور واشنگٹن ایک ایسے موڑ پر اسٹریٹجک جمود کے شکار تھے جہاں دونوں مملک نے اختلافات کے باوجود کسی بڑی جنگ کے خطرے کو ختم کیا ۔ ایک عظیم فوج لیکن کھوکھلی معیشت کے ساتھ سوویت یونین کا سامراج 1991 میں منہدم ہو گیا اور ایک امریکی اسکالر کے الفاظ میں تاریخ کے ارتقا کا اتمام ہو گیا ۔ اس کے نذدیک اس کے منطقی نتیجے میں امریکا دنیا کے لئے ایک معالج ، استاد ، مبلغ اور زندگی بچانے والا پولیس مین بن گیا ۔   کمیونزم کے زوال کے بعد چینی کمیونسٹ پارٹی نے چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم تشکیل نو شروع کی ۔ انہوں نے روس سے دوستی کرنا شروع کی اور روس بھی چین کی صنعتی اور جدید کاری کے لئے ضروری سوویت دور کی تکنیک ، سازوسامان ، پیشہ وارانہ مہارت اور ایٹمی ٹیکنالوجی کی امداد کے باوجود چین کی غداری کو نظر انداز کرنے پر راضی ہو گیا ۔

سن 1992 میں انہوں نے "تعمیری شراکت داری" کا اعلان کیا۔ 1996 میں "اسٹریٹجک شراکت داری" اور 2001 میں "دوستی اور تعاون" کے معاہدے پر دستخط کیے۔ سوویت روس کے خاتمے کے بعد بچے کھچے کمزور روس نے ایک نا عاقبت اندیش روش اختیار کی اور ساتھ ساتھ اس کی سابقہ باج گزار ریاستوں کے مغرب کی گود میں بیٹھنے کی وجہ سے دنیا میں اس کی ساکھ کو مزید بٹہ لگا۔

. سوویت یونین کی تحلیل کے بعد اپنی ذلت کے دس سالوں کے دوران روس نے بھی مغرب کی طرف دیکھا ، مغربی لبرل جمہوریت کے ساتھ معاشقہ کیا ، اور یہاں تک کہ اسے یہ بھی خوش فہمی ہونے لگی اسے نیٹو کلب میں شامل کر لیا جائے گا - بدلے میں اسے مغرب کے سرپرستوں کے ہاتھوں معیشت کی تباہی کے علاوہ کچھ نہ ملا ۔ بورس یلتسین کے اپنے خیال کے مطابق لبرل مغربی جمہوریت سوویت کمیونزم کے باقیات کی نشانی روس کے لئے بڑے پیمانے پر تباہی کا ایک ہتھیار ہے۔

بیسویں صدی کے اختتام تک روس نے خود کو الگ تھلگ اور ٹھگا ہوا محسوس کیا۔ اس دوران چین نے خاموشی کے ساتھ خود کو مینوفیکچرنگ پاور ہاؤس بنانے کی جانب فیصلہ کن اقدامات کئے اور اس کے لئے مغربی ٹکنالوجی اور انتظامی مہارت کو بڑی خوش اسلوبی سے استعمال کیا ۔ اگرچہ روس نائن الیون کے بعد امریکہ کا اتحادی بنا ، لیکن اس نے محسوس کیا کہ اس دوران جارجیا ، یوکرین اور کرغستان میں امریکی مداخلت کا زور بڑھتا گیا جس کی آنچ ماسکو تک پہنچی اور اس نے 2012 کے بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کو مغربی ممالک کی طرف سے اس کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا۔

عراق اور افغانستان کی جنگوں نے نیٹو کو خطرناک حد تک روس کی سرحدوں کے بھی قریب کردیا اور متعدد سابقہ ​​کمیونسٹ ریاستوں کے مغربی اتحاد میں شامل ہونے سے روس کی تزویراتی پوزیشن مزید مخدوش ہونے لگی ۔ سن 2000 میں ولادیمیر پوتن نے لکھا تھا کہ روس نے ہمیشہ خود کو یوریشین ملک سمجھا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ایشیاء کے محور اس ملک کو ابھرنے کا موقعہ دیا جائے ۔ مجھے یاد ہے کہ 1950 میں سفیر ایس رادھا کرشنن نے جوزف اسٹالن کو بتایا تھا کہ ہندوستان سوویت یونین کو ایک ایشیائی طاقت سمجھتا ہے۔

مغرب کے ہاتھوں شکست کھانے کے ایک دہائی کے بعد 2005 میں قوم سے اپنے خطاب میں ولادیمیر پوتن نے کہا کہ سوویت یونین کا خاتمہ "اس صدی کا سب سے بڑا جغرافیائی -سیاسی سانحہ تھا اس کے مضمرات اور منفی اثرات سے روس کو ہی نبرد آزما ہونا پڑا ۔" صدر پوتن نے اس دوران چیچنیا میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں کا حوالہ دیا ۔ صدرپوتن روسی فیڈریشن کے اتحاد کو برقرار رکھنے پر جنوں کی حد تک آمادہ تھے ۔

مغرب کے رویہ سے متنفر ہو کر جب روس مشرق کی طرف دیکھتا ہے تو اسے چین دکھائی دیتا ہے جہاں فنڈز اور سرمایے کی افراط ہے اور جو کہیں کہیں چھوٹے ممالک کا ہلکے انداز میں بازو بھی مرورتا ہے- ساتھ ہی وہ اپنی اسلحہ سازی کو اپ ڈیٹ کرکے میگا لیگ میں شامل ہونے کے لئے بھی بیقرار ہے۔ دوسری جانب روس کی اعلی درجے کی ہتھیار سازی کی صنعت اپنی بقاء کے لئے کسی مدد گار کی متلاشی تھی ۔ لہذا چین جدوجہد کرتی روسی معیشت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر راضی ہو گیا اور روسی ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنے دوسری نسل کے اسلحوں کی صنعت کو چوتھی جنریشن کی جدید ترین صنعت میں تبدیل کر دیا ۔

یہ دوستی دونوں کے مابین دیرینہ سرحدی مسئلہ کے آہستہ آہستہ حل ہونے کے ساتھ مزید مستحکم ہوتی چلی گئی ۔

ویسے تو روس اور چین نے ایک "مساوی اور قابل اعتماد شراکت داری" قائم کرنے کا وعدہ کیا لیکن چینی اور روسی رہنماؤں کے مابین ہونے والی ملاقاتوں سے کسی شہنشاہ - درباری کے تعلقات کا تاثر ملتا تھا ۔ جون 2019 کے روس کے دورے کے دوران ژی جنپنگ نے پوتن کو "میرا سب سے اچھا دوست اور ساتھی" قرار دیا۔ دوستی مزید بڑھتی گئی اور روس اور چین نے ملکر شنگھائی تعاون تنظیم کی تشکیل کی ۔

اپنی دولت اور فوجی سازوسامان کے نشے میں سر مست چین نے اب دنیا میں اپنے اثر و رسوخ کو پھیلانا شروع کر دیا ہے ۔ اس کے اعتماد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دہائی قبل ہی اس نے دنیا کو امریکی اور چینی اثرو رسوخ والے خطوں میں تقسیم کرنے کا مشورہ دے دیا تھا۔ اونٹ کی طرح چین بھی بدو کے خیمے میں آہستہ آہستہ گھسنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ چین کے اعتماد میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب روس کریمیا ںپر قبضہ کرنے ، بیلاروس کی حمایت کرنے ، جارجیا پرنکیل کسنے اور "انسانی حقوق" کی مبینہ پامالی کے بعد عالمی منظر نامے میں اکیلا پر گیا ۔

سن 2019-2020 میں امریکہ میں شیل گیس کی بڑے پیمانے پر دریافت کے بعد ماسکو نے امریکہ اور سعودی عرب کے خلاف (پیداوار میں کمی سے انکار کرکے) تیل کی بدنام زمانہ جنگ کا آغاز کیا۔ روس اپنی تیل کی پیداوار میں اضافہ کرتا رہا اور چین مشرق وسطی سے تیل کی خریداری کم کرتے ہوئے روس سے نئی تعمیر شدہ پائپ لائنوں کے ذریعے توانائی کی ضروریات پوری کرتا رہا ۔ . چین کا خیال ہے کہ اس کا روس پر حق ہے اور وہ اسے چین کی صنعتی مشین کے لئے خام مال کے گودام اور جدید ترین عسکری ٹکنالوجی کے سپلائر کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ روس کے لئے بھی ذلت کا باعِث ہے کیونکہ حال فی الحال تک وہ چین کو پسماندہ ملک تصور کرتا تھا ۔

سن 2014 میں 2018 سے 30 سالوں تک چین کو روس کی جانب سے گیس کی فراہمی کے لئے دونوں ممالک نے 400 بلین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے۔

یوں لگتا ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کا سب سے زیادہ فائدہ مغرب کو نہیں ، بلکہ چین کو پہنچا ۔ اپنے عہد زرین کے دوران اگر امریکہ اپنی رویہ کو معتدل کر دیتا تو آج اس کے بہت سارے دوست اس کے ساتھ ہوتے کیوں کہ امریکی طرز زندگی آزادی اظہار پڑ مبنی ہے ۔ چین کا تکبر اپنے عروج پڑ پہنچ چکا ہے ۔ اس کی پالیسی ہے کہ جب تک حریف ملک ڈرنے نہ لگ جاییں تب تک انہیں نفرت کرنے دیں۔

روس اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کی تلاش میں ہے۔ چین خود کو ناقابل تسخیر قوت سمجھنے لگا ہے اور اسے روکنے کی امریکی کوششوں پر لگاتار نکیل ڈال رہا ہے۔ کچھ سال قبل روس نے چین کو اپنا جدید ترین سکھوئی 35 طیارہ فروخت کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ ابتدائی طور پرتو وہ تذبذب میں تھا لیکن نقد رقم ضرورت نے اسے فروخت کرنے پڑ امادہ کردیا۔

اپنی کم ہوتی آبادی کی وجہ سے اسے ہمیشہ یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں چین اس پڑ حاوی نہ ہو جائے ۔ یہ خدشہ روسی نسل کی آبادی والے ملکوں جیسے یوکرین ، جارجیا ، بالٹک ریاستوں میں اس کی دلچسپی کی بھی وضاحت کرتا ہے ۔ سوویت یونین کی تحلیل ہونے کے بعد بھی روس دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ روسیوں نسل کے افراد کو بسانے کے لئے اسے اس طرح جگہ کی ضرورت نہیں ہے جس طرح چین اپنی ہان اکثریت کے لئے تلاش کرتا ہے۔

چین کی آبادی روس سے دس گنا زیادہ ہے اور روس کا مشرقی علاقہ (چین سے ملحق) خالی زمین پر مشتمل ہے۔ یہ وسائل سے مالا مال اور آبادی کے لحاظ سے غریب علاقہ ہے۔

مئی 2021 میں ولادیمیر پوتن نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ "ہر کوئی ہمارا کچھ نہ کچھ حصہ کاٹنا چاہتا ہے، ہم ان کے دانت توڑ دیں گے تاکہ وہ کاٹنے کا سوچے بھی نہ "۔

 یہ اشارہ چین کی طرف تھا کیونکہ نہ تو یوروپ اور نہ ہی امریکہ کو روسی سرزمین کی لالچ ہے، جبکہ چین کی نظر روسی زمین پر گڑی ہوئی ہے ۔

چین کی نصابی کتابیں بچوں کو یہ سکھاتی ہیں کہ سرحد کے اس پار روسی صوبوں کو چین سے چھینا گیا تھا اور ایک دن وہ سارے علاقے اسی طرح چین میں واپس آ جاییں گے جس طرح ہانگ کانگ اور مکاؤ آ گیۓ ۔

متعدد اقوام کی طرح روس نے بھی محسوس کیا ہے کہ چین کے ساتھ مل کر کام کرنا ایک دو دھاری تلوارجیسا معاملہ ہے۔ ایک عسکری لحاظ سے مضبوط لیکن معاشی طور پر کمزور روس ایک ٹھگ کے ساتھ عشق لڑا رہا ہے۔ سن 2015 کی روسی فلم "چین - ایک مہلک دوست" انٹرنیٹ پڑ خاصی مقبول ہوئی جس میں روس کے مشرق بعید مشرق پر چین کے خوفناک حملے کو دکھایا گیا تھا ۔ بہت سوں کو یاد نہیں ہے کہ 1954 میں نکیتا خروشچیف کے دور اقتدار میں روس نے نیٹو میں شمولیت کے لئے میں فرانس ، برطانیہ ، اور امریکہ کو ارادے کے خط بھیجے تھے۔ یو ایس ایس آر اور اس کے دوستوں نے اس درخواست کے مسترد ہو جانے کے کچھ دن بعد ہی مشرقی بلاک کا متفقہ اتحاد وارسا معاہدہ تشکیل دیا۔ اور اس طرح اگلے 40 سے زیادہ سالوں کے لئے یورپ باضابطہ طور پر تقسیم ہوگیا۔

میں نے تین سابق سوویت ممالک میں خدمات انجام دیں۔ آزادی کے لئے ان کا جوش و خروش سنگین حقائق کے سامنے آنے کے بعد مدھم پڑ گیا ۔ کبھی عالمی سوپر پاور رہنے والے روسیوں کے لئے یہ قبول کرنا آسان نہیں ہوگا کہ وہ اب نچلے درجے پر چلے جاییں ۔ نہ ہی وہ منچوریا (ایغوروں کا گھر) کے قریب دریائے یسوری کے قریب چین کے ساتھ 1969 میں ہونے والی جھڑپوں کو بھولے ہیں جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ سوویت یونین سے لڑنے کے بعد چین نے امریکہ میں عزت حاصل کی اور اس کے محض دو سال بعد ہی ہنری کسنجر کا مشہور چین کا دورہ ممکن ہوا ۔

سوویت افغانستان میں آ دھمکا اور اس کے بعد تو جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ سرد جنگ میں شکست کھا جانے کے بعد روسی صدر کواڈ فارمیٹ میں ہونے والے اس باہمی تعاون پر بہت پریشان ہیں جس میں امریکی صدر جو بائیڈن نے اس کی پہلی ورچوئل سمٹ کی میزبانی کی تھی اور سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن کے مارچ 2021 میں ہندوستان کے دورے پر آنے سے اس کی مزید تنظیم سازی کی نشاندہی ہوئی تھی۔

اس سب حقایق سے آگاہ ہندوستان نے مشورہ دیا ہے کہ روس ہند بحر الکاہل میں ایک زیادہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے- یہ ایک ایسا منظر نامہ ہے جو چین کے سارے منصوبوں پڑ پانی پھر دیگا ۔ مارچ 2021 میں الاسکا میں سینئر امریکی اور چینی عہدیداروں کے مابین غیر معمولی طور پر گرما گرم الفاظ کے تبادلے کے ایک روز بعد روسی اور چینی وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر مغربی ممالک کی تنقید کو مسترد کردیا اور عالمی طرز حکمرانی کے لئے ایک متبادل وژن کی پیش کش کی۔ مضبوط جمہوریت سے خوفزدہ بیجنگ کی مہمات خود ہی جمہوریت کے بارے میں اس کی الجھن ، اختلاف اور شکوک و شبہات کا اشارہ دیتی ہیں۔ یو ایس ایس آر کو تو تباہ ہی جمہوریت نے کیا تھا۔

کمیونسٹ چین بمشکل تیانن مین (1989) سے بچ نکلنے میں کامیاب رہا جہاں مظاہرین نے ایک طرح سے اسٹیٹ آف لبرٹی کا اسٹیرفوم مجسمہ کھڑا کر دیا ۔ ہانگ کانگ بھی 2019-2020 میں ایک بار پھر جمہوریت اور آزادی کے ناکارہ ہونے کو منظر عام پر لے آیا ۔ جیسا کہ 2010 میں عرب بہار میں ہوا تھا۔ اگرچہ روس اور چین کا آج 1980 کے بعد پہلی بار مضبوط اتحاد ہے ، لیکن اس میں دراڑیں بھی پڑنے لگی ہیں ۔ چین اس اتحاد میں بڑے بھائی کی حیثیت میں ایک غالب شراکت دار بننا چاہتا ہے۔ اس طرح چین اور روس کے باہمی تعلقات کافی پیچیدہ ہیں اور کئی بار تو شبہات کے شکار بھی ہوئے ہیں ، مثال کے طور پر ماسکو کا الزام ہے کہ ایک روسی سائنس دان بیجنگ کے لئے جاسوسی جاسوسی کرتا ہوا پکڑا گیا ہے۔ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ دونوں تعاون کر رہے ہیں لیکن ایسے اشارے موجود ہیں کہ روس مغرب کی طرف جانے کا بھی خواہش مند ہے کیونکہ وہ چین پر اپنے بڑھتے ہوئے انحصار سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہا ہے۔

چین کا بی آر آئی کے ذریعے معاشی پیکیج روس کی پشت میں غیر معمولی رفتار سے چین کے اثر و رسوخ کو بڑھا رہا ہے ۔ چین ولادیووستوک کی 160 ویں سالگرہ کے موقع پر خاصہ مضطرب تھا - ولادیووستوک کو دوسری افیون جنگ کے بعد 1860 میں چین سے لے کر روس نے خود میں ضم کر لیا تھا ۔ اسی دوران ماسکو نے روسی ایس -400 اینٹی ایرکرافٹ میزائل سسٹم کی چین کو فروخت بھی ‘معطل’ کردی ہے۔ بیرونی منچوریا دونوں مملک کے درمیان کشیدگی ہے ۔ مارچ 2021 میں صدر بائیڈن کے روسی صدر کو " قاتل" کہنے کے باوجود پوتن نے کہا کہ "ہم ان شرائط پر ان کے ساتھ مل کر کام کریں گے جسے ہم اپنے لئے فائدہ مند سمجھتے ہیں"۔ مئی 2021 میں اپنے اجلاس میں ، امریکی وزیر خارجہ نے اپنے روسی ہم منصب سے کہا کہ وہ تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اپنے مفادات کا دفاع کریں گے۔ کچھ دن پہلے ہی ، قومی سلامتی کے ان دونوں مشیروں نے تعلقات معمول پر لانے پر اتفاق کیا تھا۔ اسی بیچ دونوں صدور جون 2021 میں جنیوا میں ملاقات کرنے جا رہے ہیں ۔ اگر روس کا جھکاؤ ایک بار پھر مغرب کی طرف ہو گیا تو ، چین کا بی آر آئی منصوبہ ناکام ہوجائے گا۔ متعدد ممالک (اور یوروپی پارلیمنٹ) نے چین پر ایغوروں کی نسل کشی کا الزام عائد کیا ہے۔

طاقت کے باوجود یہاں چین کو چوٹ لگ رہی ہے۔ عالمی سطح پر سہ فریقی کشمکش کے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایک اعلی امریکی عہدے دار کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ تعمیری مشغولیت کا 30 سالہ دور ختم ہوچکا ہے اور اب وہ مقابلہ کرنے کو تیار ہے ۔ چین پر دباؤ ہے کہ وائرس کی اصلیت پر خود کا موقف واضح کرے ۔ بائیڈن چاہتے ہیں کہ اس حوالے سے ان کی انٹیلیجنس اگست 2021 تک حتمی رپورٹ دے ۔

اگر روس ، جو اب تک خاموش رہا ہے ،مغربی اتحاد میں شامل ہوجاتا ہے تو یہ دشمنی واقعی میں چین کو مہنگی ثابت ہوگی۔