نظیر آیا ہے باہمن بن کے راکھی باندھنے پیارے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-08-2022
نظیر آیا ہے باہمن بن کے راکھی باندھنے پیارے
نظیر آیا ہے باہمن بن کے راکھی باندھنے پیارے

 

 

گوپی چند نارنگ

شاعری کو من کی موج کہا گیا ہے یعنی یہ الفاظ کے ذریعہ اظہار ہے داخلی کیفیات اور جذبات کا۔ داخلی کیفیتیں عالم گیر ہوتی ہیں، مثلاً محبت اور نفرت، غم اور خوشی، امید اور ناامیدی، حسرتوں کا نکلنا یا ان کا خون ہو جانا۔ یہ سب جذبے اور تخیلی تجربے کی مختلف صورتیں ہیں۔ جغرافیائی یا سماجی حد بندیوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

شاعری زماں یا مکاں کی پابند نہیں ہوتی۔ انسان کہیں بھی ہو، اس کا تعلق خواہ کسی معاشرہ سے ہو، درد میں اگر سچائی اور خلوص ہے تو وہ اس سے متاثر ہوگا۔ لیکن شاعری صرف جذبات ہی جذبات نہیں، اس میں آثار و واقعات کا پرتو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ہر زبان کی شاعری کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے، اس کی اپنی فضا ہوتی ہے، اپنا ماحول اور اپنا پس منظر ہوتا ہے جس سے وہ اپنی ذہنی تصویروں کے لیے رنگ وآہنگ حاصل کرتی ہے، اس فضا اور اس ماحول کا تعلق معاشرت سے ہے۔ اس لحاظ سے کسی بھی زبان کی شاعری اپنے ماحول اور معاشرت سے بے نیاز نہیں رہ سکتی۔

چنانچہ قدیم اردو شاعری سے بھی اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی ہندوستانی معاشرت کو سمجھنے کے لیے مدد لی جا سکتی ہے۔ گیارہویں صدی میں جب ہندوؤں اور مسلمانوں کا باقاعدہ سابقہ شروع ہوا تو باہمی اشتراک واختلاط سے ایک نیا معاشرہ وجود میں آنے لگا۔ مغلوں کے عہد حکومت میں ہندو اور مسلمانوں دونوں میں مذہب کے ظاہری اختلاف کے باوجود عوام کی سطح پر باطنی یک رنگی اور اندرونی وحدت پیدا ہو چکی تھی اور ایک ملی جلی معاشرت وجود میں آرہی تھی۔ ہماری اردو شاعری اسی مخلوط معاشرت کی دین ہے۔

معاشرت کے کئی پہلو ہیں۔ رہن سہن، آداب واخلاق، رسم ورواج، خوراک وپوشاک، میلے ٹھیلے، تیج تہوار وغیرہ۔ ہم پہلے تہواروں کو لیتے ہیں۔ ہندوستان میں موسموں کے لحاظ سے تہواروں کے دو حصے کیے گئے ہیں۔ پہلے حصے کے تہواروں کا آغاز رکشا بندھن سے ہوتا ہے۔ اس کا اصلی مدعا یہ تھاکہ برسات کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے کے لیے دعا مانگی جائے۔ اس روز برہمن یگیہ اور ریاضت کے بعد خلق خدا کی حفاظت کے لیے راکھی یعنی تعویذ تقسیم کرتے ہیں۔

بہن کی طرف سے بھائی کو راکھی باندھنے کا رواج نسبتاً نیا ہے۔ غالباً اس کا آغاز راجپوتوں سے ہوا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد پسندی کے رشتوں کو مضبوط کرنے میں اس تہوار کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ ہمایوں کے عہد حکومت میں جب بہادر شاہ والی گجرات نے اودے پور پر حملہ کیا تو رانی کرنا وتی نے راکھی بھیج کر ہمایوں سے مدد کی گزارش کی۔ گو ہمایوں کے پہنچنے سے پہلے چتوڑ فتح ہو گیا تھا اور رانی جوہر کرکے ستی ہوچکی تھی، لیکن ہمایوں نے بہادر شاہ کا تعاقب کرکے اسے گجرات سے باہر نکال دیا، جس کے کچھ مدت بعد وہ مارا گیا۔

اکبر نے راجپوتوں سے ازدواجی تعلقات قائم کرکے باہمی محبت کی اس روایت کو فروغ دیا۔ چنانچہ راکھی کو سلونو (سال نو) کا نام اکبر ہی کے زمانے میں دیا گیا۔ اس تہوار سے مغلوں کی مزید محبت کا ثبوت برہمنی رام کنور کے شاہی تعلقات سے ملتا ہے۔ اس برہمنی نے شاہ عالم گیر ثانی کی لاش کو جمنا کی ریتی پر پڑا پایا تھا اور ساری رات اس کا سر اپنے زانو پر لیے بیٹھی رہی تھی۔ سلونو کے سلسلے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے اس میل جول کی تصدیق نظر اکبرآبادی کی نظم ’راکھی‘ سے بخوبی ہو جاتی ہے۔ نظیر مخلوط معاشرت کے آثار وکوائف کی منظرکشی میں اپنا جواب نہیں رکھتے،

پھریں ہیں راکھیں باندھے جو ہر دم حسن کے مارے

تو ان کی راکھیوں کو دیکھ اے جاں چاؤ کے مارے

پہن زنار اور قشقہ لگا ماتھے اپر بارے

نظیر آیا ہے باہمن بن کے راکھی باندھنے پیارے

بندھا لو اس سے تم ہنس کر اب اس تہوار کی راکھی

تہواروں کے اس پہلے سلسلے کا خاتمہ دیوالی پر اور دوسرے کا ہولی پر ہوتا ہے۔ دیوالی کی ہررات چراغاں کیا جاتا ہے، ہولی دن میں منائی جاتی ہے۔ اس موقع پر خوشی اور کامرانی کا اظہار ایک دوسرے پر رنگ ڈال کر کیا جاتا ہے۔ دیوالی کی تقریب میں مسلمان بادشاہ بھی شریک ہوتے تھے۔ شاہ عالم آفتاب کے ہندی اردو کلام سے ثابت ہوتا ہے کہ قلعہ معلیٰ میں دیوالی بھی عید، بقرعید، آخری چار شنبہ اور عرسوں کی طرح بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی تھی۔ اماوس کے روز سرسوتی کے پوجن کا التزام کیا جاتا تھا، جا بجا چراغ جلائے جاتے تھے۔ آتش بازی کے تماشے ہوتے تھے، عورتیں سولہ سنگار کرتی تھیں وار منگل گان ہوتے تھے۔

اس سے ظاہر ہے کہ آج سے دو سو برس پہلے ہندوستان کے مقامی تہوار محض مذہبی مراسم نہیں سمجھتے جاتے تھے بلکہ سماجی میل جول اور باہمی رواداری کا مرقع بن گئے تھے، دیوالی اور شب برات میں ایک حد تک یک رنگی پیدا ہو گئی تھی اور دیوالی کی طرح شب برات کی آتش بازیاں بھی رواج کا حصہ تھیں۔ سید احمد دہلوی نے ’رسوم دہلی‘ میں لکھا ہے کہ دہلی کے مسلمان رمضان اور عید کی طرح دیوالی کو بھی ایک تہوار گنتے تھے اور اس دن سسرالی رشتوں میں بالکل ہندوؤں کی طرح لین دین کی رسمیں ہوتی تھیں۔

اس زمانے میں ملی جلی معاشرت میں دیوالی کا اثر شب برات کے علاوہ مہندی کی آمد، عرسوں کی روشنی اور شادی بیاہ کے جلوسوں وغیرہ میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ آتش بازی کے بغیر کوئی تہوار مکمل ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ قدیم اردو مثنویوں سے اس کی بخوبی تصدیق ہو جاتی ہے۔ میر تقی میر کی مثنوی ’شادی‘ اور حاتم کی مثنوی ’’بہاریہ‘‘میں ہندوستان کی ملی جلی معاشرت کا یہ پہلو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ روشنیوں کی جگمگاہٹ سے متعلق حاتم کے یہ شعر ملاحظہ ہوں،

قطار ایسے چراغوں کی بنائی

کتابوں پر ہو جوں جدول طلائی

در و دیوار بام و صحن و گلشن

چراغوں سے ہوا ہے روز روشن

دیوالی کے معاشرتی کوائف کو نظیر اکبرآبادی نے بھی بڑی خوبی سے اجاگر کیا ہے،

ہر اک مکاں میں جلا پھر دیا دیوالی کا

ہر اک طرف کو اجالا ہوا دیوالی کا

سبھی کے جی کو سماں بھا گیا دیوالی کا

کسی کے دل کو مزا خوش لگا دیوالی کا

عجب بہار کا ہے دن بنا دیوالی کا

ماگھ میں جب بہار کلیوں کو گدگدانے لگتی ہے تو مسرت کے قدرتی اظہار کے لیے بسنت پنچمی کا تہوار منایا جاتا ہے۔ قدیم اردو شاعری سے معلوم ہوتا ہے کہ بسنت کا تہوار مسلمانوں میں بھی مقبول تھا۔ سلطان محمد قلی قطب شاہ کے کلیات میں بسنت کے تہوار سے متعلق نو نظمیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بسنت کو شاہی تقریب کا درجہ حاصل تھا اور اسے بڑے اہتمام سے منایا جاتا تھا۔

اورنگ زیب کے جانشینوں کے زمانے میں بھی بسنت شاہی تہواروں میں داخل تھی۔ شاہ عالم آفتاب کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تہوار کے دن قلعہ معلیٰ میں زرد لباس پہننے کا رواج تھا۔ پھولوں سے کھیلتے تھے۔ ذوالقدر جنگ درگاہ قلی خاں نے اپنی تصنیف ’مرقع دہلی‘ میں بسنت کی تفصیل پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس تہوار پر شہر میں عجب رونق ہوتی تھی۔ قدم شریف، قطب صاحب، روضہ شاہ، حسن رسول نما اور مزار شاہ ترجمان پر بڑا مجمع ہو جاتا تھا۔ قوالوں، مجرائیوں اور زائرین کی ٹولیاں پھولوں کے گلدستے اور خوشبوئیں ہاتھوں میں لیے گاتی ہوئی آتیں۔ حسین لوگ شامل ہوتے اور چھ روز تک بڑی رنگین محفلیں جمتیں، بسنت کے اس مشترک پہلو کی عکاسی اردو بارہ ماسوں میں بڑی خوبی سے کی گئی ہے۔ بسنت کا ذکر مثنویوں کے علاوہ ہمارے قدیم غزل گو شاعروں کے ہاں بھی ملتا ہے،

کوئل نے کوک آ کے سنائی بسنت رت

بر آئے خاص و عام کہ آئی بسنت رت

آبرو

بیٹھے وہ زرد پوش جھلک سے بنا بسنت

چاروں طرف سے آج اٹھی جگمگا بسنت

آبرو

کھینچ لائی ہے چمن میں کیونکر اس مغرور کو

تو نے کیا سرسوں ہتھیلی پر جمائی ہے بسنت

سوز

اس ادا و ناز سے آئی ہے جو تو مجلس میں

کیا مرے یار سے سیکھے ہے تو رفتار بسنت

ثناء اللہ فراق

تو نے لگائی آ کے یہ کیا آگ اے بسنت

جس سے کہ دل کی آگ اٹھی جاگ اے بسنت

انشاء

مزا بسنت کا جب ہے کہ وہ بسنتی پوش

خوشی سے بیٹھ کے پہلو ہمارے گائے بسنت

شہید

چمن میں آ گئی کیا صورتِ بہار بسنت

کہ شاخ شاخ پہ ہے نغمہ ہزار بسنت

احمد علی رونق

بسنت کی طرح ہولی کی رنگینیاں بھی محض ہندوؤں تک محدود نہیں تھیں۔ ’قلعہ معلیٰ‘ میں ہولی کی تقریب بھی ذوق وشوق سے منائی جاتی تھی۔ شاہ عالم آفتاب سے متعدد ہولیاں منسوب ہیں۔ ’قلعہ معلیٰ‘ میں پھاگ گانے اور پھاگ کھیلنے کا عام رواج تھا۔ نیل اور کیسر رنگ کی پچکاریاں بھری جاتی تھیں۔ ایک دوسرے پر عبیر اور گلال چھڑکتے تھے اور پھولوں کی گیندوں سے کھیلتے تھے۔ سید احمد دہلی کا بیان ہے کہ مسلمانوں میں شادی بیاہ کے موقع پر ایٹنا کھیلنے کی رسم بہت کچھ ہولی سے ملتی جلتی ہے۔ اردو شاعری میں ہماری مخلوط معاشرت کے ان پہلوؤں کونہایت خوبی سے پیش کیا گیا ہے،

سب کے تن میں ہے لباسِ کیسری

کرتے ہیں صد برگ سوں سب ہمسری

چاند جیسا ہے شفق بھیتر عیاں

چہرہ سب کا از گلال آتش فشاں

فائز

گلال ابرک سے سب بھر بھر کے جھولی

پکارے یک بیک ہولی ہے ہولی

لگی پچکاریوں کی مار ہونے

ہر اک سو رنگ کی بوچھار ہونے

کوئی ہے سانوری کوئی ہے گوری

کوئی چنپا بدن عمروں میں تھوڑی

کھلے بالوں میں ہے ابرک کی افشاں

کہ جیسے رات کو تارے ہوں رخشاں

تماشا سا تماشا ہو رہا ہے

کہ ہر اک بات سے جی دھو رہا ہے

شاہ حاتم

قمقمے جو گلال کے مارے

مہوشاں لالہ رخ ہوئے سارے

خوان بھر بھر عبیر لاتے ہیں

گل کی پتی ملا اڑاتے ہیں

جشن نو روز ہند ہولی ہے

راگ رنگ اور بولی ٹھولی ہے

میر تقی میر

ان شاعروں کے علاوہ ہولی کا ذکر سودا، قائم چاندی پوری، جرأت، مصحفی، قدرت اللہ قاسم، سحر لکھنوی، حاتم علی بیگ مہر اور نظیر اکبر آبادی کے یہاں بھی ملتا ہے۔ رواداری کے یہ جذبات یک طرفہ نہیں تھے۔ جس طرح مسلمان ہندوؤں کے تہواروں میں دلچسپی لیتے تھے، اسی طرح ہندو بھی اسلامی روایات اور نظریات کا احترام کرتے تھے۔ عہد مغلیہ کے اکثر ہندو مصنفین اپنی تصانیف کی ابتدا ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ اور ’’یا فتاح‘‘ جیسے اسلامی کلمات سے کرتے تھے۔ اردو کے بیشتر شعرا نے اپنے دواوین وغیرہ کے آغاز میں حمد، نعت اور مناجات کے باقاعدہ عنوان قائم کیے ہیں۔ ہندوؤں میں متعدد ایسے شاعر ہوئے ہیں جو نہایت احترام وعقیدت سے نعت کہتے تھے۔ ان میں سے ہرگوپال تفتہ، برندا بن عاصی، بال مکند بے صبر، دلورام کوثر، شیو پرشاد وہبی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

چھنو لال طرب کی نعتوں اور منقبت کا ایک مخطوطہ کتاب خانہ رضائیہ رامپور میں محفوظ ہے۔ روپ چند نامی شاگرد ساقی سکندرآبادی کی غزلوں میں ایک شعر نعتیہ ضرور ہوتا تھا۔ کامتا پرشاد نادان اور بہاری لال ثمر، درگا سہائے سرور، بشن نرائن حامی، راجہ مکھن لال، سرکشن پرشاد، پربھو دیال عاشق، رام بہادر لال جویا، کنور مہندر سنگھ سحر بیدی اور ہری چند اختر نے بھی رسولؐ عربی کی شان میں احترام کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ محفوظ الرحمن نے ایک مجموعہ ’ہندو شعرا دربار رسولؐ میں ‘ ۲۵برس پہلے شائع کیا تھا، ایسا ہی ایک اور مجموعہ ’ہندو شعرا کا نعتیہ کلام‘ بھی شائع ہو چکا ہے۔

یہی عالم اسلامی تقریبات کا تھا۔ مرہٹے محرم بڑے احترام کے ساتھ منایا کرتے تھے، گوالیار کا محرم آج بھی مشہور ہے۔ شرر نے ’گزشتہ لکھنؤ ‘ میں لکھا ہے کہ لکھنؤ میں ہزارہا ہندو صدق دل سے تعزیہ داری اختیار کرتے تھے اور سوز خوانی میں شریک ہوتے تھے۔ شہیدان کربلا اور اہل بیت کا جو احترام ہندوؤں کے دلوں میں تھا، اس کی تصدیق ہندوؤں کے لکھے ہوئے مراثی سے ہوتی ہے۔ لیکن شاعر راماراؤ نے شہادت امام حسینؓ پر ایک کتاب لکھی تھی جو ناپید ہے۔

لکھنؤ میں مرثیے کی ابتدا ایک ہندو شاعر چھنو لال طرب ہی سے ہوئی۔ راجہ الفت رائے، دوارکا پرشاد افق، پیارے لال رونق، چندی پرشاد شیدا کے مراثی درد وسوز میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ سرکشن پرشاد کے دو مجموعے ’ماتم حسینؓ‘ اور ’نوحۂ شاد‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ دور جدید کے تقریباً تیس ہندو شاعروں کے مراثی کتابی صورت میں ’ہمارے حسینؓ‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔

غرض اردو شاعری سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی زوال کے باوجود محبت اور رواداری کے رشتے مضبوط تھے۔ یہ اثرات یک طرفہ نہیں تھے بلکہ دونوں نے ایک دوسرے کو متاثر کیا اور معاشرتی سطح پر ایک ہم آہنگی پیدا ہو گئی تھی۔ تہواروں کے علاوہ مقامی میلے ٹھیلوں اور کھیل تماشوں میں بھی یہی رنگ نمایاں تھا۔ ان میں پھول والوں کی سیر، چھڑیوں کا میلہ، عیش باغ کا میلہ، قیصر باغ کا میلہ، جشن بے نظیر وغیرہ کا تذکرہ متعدد شاعروں کے ہاں مل جاتا ہے۔

مخلوط معاشرت کی یہ یک رنگی اس زمانے کے رسم ورواج میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مذہبی رسوم الگ الگ ہیں لیکن عام رواج ایک جیسے ہیں۔ برات لڑکے کے گھر سے لڑکی کے گھر جاتی ہے۔ شادی کے کچھ روز پہلے مسلمانوں میں ’مائیوں بٹھانا‘ ایک رسم ہے، اس میں دلہن کو مانجھے بٹھایا جاتا ہے۔ مانجھا پنجابی لفظ ہے یعنی پلنگ یا چارپائی۔ شرر لکھتے ہیں، ’’یہ ایک خالص ہندی رسم ہے جسے نہ عرب سے تعلق ہے نہ عجم سے۔ اس لیے کہ مانجھے اور اس کے ساتھ کنگنے کھیلنے کی ابتدا ہندوستان کے سوا کسی اور جگہ ثابت نہیں ہوتی۔‘‘

مسلمانوں میں شادی سے پہلے دلہن سے صحنک یعنی حضرت فاطمہؓ کی نیاز دلوائی جاتی ہے۔ اس رسم کی ایجاد شاہ جہاں کی ماں جودھا بائی سے منسوب ہے۔ مسلمانوں نے ساچق اور مہندی کی رسمیں بھی ہندوستان میں آنے کے بعد اپنائی ہیں۔ سہاگ پُڑے کی چیزیں یکسر ہندوستانی ہیں۔ ہندو اور مسلمان دونوں میں دولہا کو دستار اور سہرے سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ دلہن کی پہلی دفعہ مانگ بھری جاتی ہے۔ ٹیکا خالص ہندوانہ چیز ہے۔ سولہ سنگار سے دونوں واقف ہیں۔ مثنوی سحرالبیان سے دلہن کی یہ تصویر ملاحظہ ہو،

کھجوری گوندھی وہ پاکیزہ چوٹی

کہ سب اہل نظر کی جان لوٹی

پہن کر نتھ خوشی سے رنگ دمکا

وہ مکھڑا چاند سا گھونگھٹ میں چمکا

اگر ہاتھوں میں ہیرے کے کڑے تھے

زرِ خالص کے زیب پا چھڑے تھے

جو ٹیکا اس کے ماتھے پر لگایا

قمر نے اپنے دل پر داغ کھایا

برات کی پیشوائی کے بعد عورتوں کی ریت رسمیں بھی دونوں میں کم وبیش ایک ہیں۔ نبات چنوانا، نیگ، رخصتی وغیرہ عرب و ایران کی رسمیں نہیں۔ انگوٹھے میں لہو لگوانا، کالے تل چٹوانا، کھیر کھلانے اور جوتی پر کاجل پارنے کا ذکر مثنویوں میں ملتا ہے،

اک پرستار، چلبلی اچپل

لائی جوتی پہ پار کر کاجل

کان سے اک لگا گئی چونا

چھیڑتی ایک ایک سے دونا

مثنوی سعیدین

منڈھانے گانے کا رواج دونوں کے یہاں ہے۔ میر حسن کے اشعار دیکھیے،

سحر کا وہ ہونا وہ نونے کا وقت

وہ دلہن کی رخصت وہ رونے کا وقت

چلے لے کے چینڈول جس دم کہار

کیا دو طرف سے زر اس پر نثار

کھڑے تھے جو واں چشم کو تر کیے

سو موتی انھوں نے نچھاور کیے

اس مخلوط معاشرت کا اثر ہمارے مراثی پر بھی ہوا ہے۔ مراثی میں اہل بیتؑ کا ذکر کرتے ہوئے جو معاشرتی پس منظر دکھایا گیا ہے، وہ سراسر عرب نہیں ہے بلکہ بہت سی ہندوستانی رسمیں بھی اہل بیت سےمنسوب کر دی گئی ہیں۔ شیخ چاند نے صحیح لکھا ہے،

’’ہندوستانی مرثیہ نگاروں نے ایک عجیب بدعت کی ہے کہ جنگ کربلا کے عرب نژاد مظلومین کو ہندوستانی رنگ میں پیش کیا ہے۔ لباس، وضع قطع، رفتار گفتار، طرز معاشرت، رسوم وآداب سب ہندوستانی ہیں حتیٰ کہ خیالات و معتقدات وغیرہ بھی ہندوستانی ہیں۔ گجرات اور دکن کے مرثیوں پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگوں نے بلا لحاظ زبان ومکاں عرب شخصیتوں کو اپنے زمانے اور مقام کے ماحول میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔ سودا نے قدیم مرثیوں کی پیروی کی ہے۔ اس نے اپنے مرثیوں میں ہندوستانی معاشرت کے عناصر بڑی آزادی سے داخل کیے ہیں۔‘‘

سودا کے بعد بھی یہی انداز رہا اور میر تقی میر، میر ضمیر، انیس و دبیر وغیرہ سب نے عرب کرداروں کو ہندوستانی رنگ پیش کیا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں،

کیا کروں بیٹی کی شادی سے سخن

بھر کے لہو سے دھری گویا لگن

نتھ سہاگ اپنے کی کہلا کر دلہن

تخت چڑھتے ہی اتاری یا رسولؐ

سودا

قصۂ کوتاہ میر کہاں تک آل عبا کے دکھ سنیے

روئیے، کڑھیے، ماتم کرئیے، کوٹیے چھاتی سر دھنیے

میر

نتھ میری اتاری ہے ذرا آنکھ تو کھولو

گر دو نہ تسلی تو ذرا منھ سے تو بولو

ضمیر

میر انیس کے مراثی کا مطالعہ کرتے ہوئے گمان ہوتا ہے کہ کربلا کا میدان گویا لکھنؤ کے مضافات میں ہی واقع ہے۔ ان کے مراثی میں لکھنؤ کی فضاہے۔ لکھنؤ ہی کے گھروں کی رسمیں ہیں۔ لکھنوی لباس اور وضع قطع ہے۔ بین کا انداز بھی لکھنوی ہے۔ حتی کہ بات چیت کا لہجہ اور معمولی معاشرت کوائف بھی ہندوستانی ہیں،

بولے یہ ہاتھ جوڑ کے عباس نامور

خیمہ کہاں بپا کریں یا شاہ بحروبر

بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے

صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے

غزل رزمیہ صنف سخن ہے۔ اس میں معاشرت کی تصویر واضح طور پر سامنے نہیں آتی، البتہ کہیں کہیں اشارے ضرور مل جاتے ہیں۔ ہندوؤں میں رواج ہے کہ ایک دوسرے کو ملتے وقت نمستے یا رام رام کرتے ہیں۔ رام رام کرنے سے توبہ کرنا بھی مراد لیا جاتا ہے۔ ولی کا شعر ہے،

کیا وفادار ہیں کہ ملنے میں

دل سوں سب رام رام کرتے ہیں

اگر آنکھ پھڑکے تو سمجھا جاتا ہے کہ کوئی خوشی نصیب ہونے والی ہے۔

کھوا پھڑکے آوے گے من ہرنا

لگوں گی آج پیا کے چرنا

محمد قلی قطب شاہ

کون دیدار مجھے آ کے دکھائے گا جو

دن میں سو بار مری آنکھ پھڑک جاتی ہے

شیر علی افسوس

سودا کا ایک شعر ہے،

اے دل یہ کس سے بگڑی کہ آتی ہے فوجِ اشک

لختِ جگر کی لاش کو آگے دھرے ہوئے

’’آب حیات‘‘ میں محمد حسین آزاد نے لکھا ہے، ’’ہندوستان کا قدیم دستور ہے جب سپہ سالار لڑائی میں مارا جاتا تھا تو اس کی لاش کو آگے لے کر تمام فوج کے ساتھ دھاوا کر دیتے تھے۔ سرہند پر جب درّانی سے فوج شاہی کی لڑائی ہوئی اور نواب قمر الدین خاں مارے گئے تو میر ممنون کے بیٹے نے یہی کیا اور فتح یاب ہوا۔‘‘

کوے کے بولنے سے پردیس سے خط پہنچنا یا گھر میں مہمان آنا مراد لیا جاتا ہے،

شگون لیتے ہیں کس خوش بیاں کی آمد

صفیرِ طوطیِ جنت صدائے زاغ میں ہے

سودا

برہمنوں کے ہاتھ دیکھنے کا ذکر یقین نے کیا ہے (ہاتھ دکھانا محاورہ بھی ہے جس سے شعر کا لطف بڑھ گیا ہے)،

پڑتا ہے پاؤں اس بت کافر کے بار بار

کیا برہمن کو موہ لیا ہے دکھا کے ہاتھ

سفر کے لیے روانہ ہوتے ہوئے یا کسی کام کا آغاز کرتے ہوئے چھینک آنا یا چھینک سننا منحوس خیال کیا جاتا ہے،

روئے وطن نہ دیکھا تو نے جو مصحفی پھر

شاید کہ چھینک کے تو اپنے وطن سے نکلا

بعض فرقوں میں سانپ کے کاٹے کو تیسرے دن دریا میں بہا دینے کا رواج تھا۔ انشاء کا شعر ہے،

چھوڑ مت زلف کے مارے کو تو دریا میں ہنوز

سانپ کے کاٹے کو دیتے ہیں بہا تیسرے دن

دفع چشم بد کے لیے جو چیزیں استعمال ہوتی ہیں، ان کے نام سنیے،

سونے کا چھلّا مور کا پر ہی فقط نہیں

اک زرد پوٹلی میں بھی تھوڑا سپند باندھ

انشاء

زخم چشم سے محفوظ رہنے کے لیے نیلا ڈورا باندھتے ہیں یا پلکوں کا ایک آدھ بال جلاتے ہیں،

نیلے ڈورے توڑ بھی ڈال اپنے دونوں پاؤں کے

کیا بھلے موٹے کڑے سونے کے توڑے اڑ گئے

انشاء

ہروز جلاتا ہوں کہ اس کو نظر نہ ہو

باقی مری اب آنکھوں میں دو چار پلکیں ہیں

عشقی

انتہائی خوشی کے موقع پر گھی کے چراغ جلائے جاتے ہیں،

آنکھیں مری کرے جو منور جمال یار

گھی کے چراغ طور کے اوپر جلاؤں میں

ہندوؤں میں رسم ہے کہ گھی کے چراغ جلا کے گنگا میں بہا دیتے ہیں،

دن رات پھول بہتے ہیں تو رات بھر چراغ

فردوس میں بھی یاد رہےگی بہار گنگ

ناسخ

بیمار کا صدقہ چوراہے پر رکھواتے ہیں (نرگس بیمار کی مناسبت بھی غور طلب ہے)،

آنکھیں جو ہوئیں چار تو بیمار ہوا میں

چوراہے میں رکھوائیے صدقہ مرے دل کا

ضمیر شکوہ آبادی

ہتھیلی کھجلانے سے دولت ہاتھ آنے کا شگون لیا جاتا ہے،

شاید کہ گنجِ حسن بتاں ہاتھ آئےگا

کھجلاتی ہیں جو آج ہماری ہتھیلیاں

سیف (خلف فاخر مکیں)

تعزیت کے لیے ننگے سر جانا معیوب خیال کیا جاتا ہے،

کون یہ آج موا، کس کا مقدر جاگا

سوگ میں جس کے وہ ڈالے ہوئے آنچل آئے

رونق (شاگرد ناسخ)

دردِ سر کی شکایت ہو تو سر کا اتارا صدقہ کرتے ہیں،

دردِ سر کی ہے شکایت آپ کو

غیر کے سر کا اتارا دیجیے

داغ

پان ہندوستان کی نعمت ہے۔ یہاں مہمان کی خاطر تواضع پھول پان سے کی جاتی ہے،

تمھاری بزم میں بھولے سے میں چلا آیا

کرو نہ میرے لیے پھول پان کی تکلیف

داغ

پان کا ہماری روز مرہ زندگی میں بڑا عمل دخل ہے۔ یہ طرح طرح کا بنتا ہے اور طرح طرح سے پیش کیا جاتا ہے۔ پان رخصتی کے بھی مشہور ہیں۔ داغ کا شعر ہے،

پردہ اٹھا کے مجھ سے ملاقات بھی نہ کی

رخصت کے پان بھیج دیے بات بھی نہ کی

یہ چند اشعار یونہی ادھر ادھر سے لیے گئے ہیں۔ ہندوستانی معاشرت سے متعلق اس قسم کے حوالے اگر جمع کیے جائیں تو تو پورا دفتر مرتب ہو جائے۔ یہ واقعہ ہے کہ ہماری معاشرت ایک مخلوط معاشرت ہے اور اس کی تصویریں جگہ جگہ اردو شاعری میں نظر آتی ہیں۔ ہندوستان صدیوں سے مختلف مذہبوں، نسلوں اور فرقوں کا گہوارہ رہاہے۔ ہماری معاشرت میں رنگا رنگ مذہبی اور تہذیبی اثرات کارفرما رہے ہیں۔ اس میں ایک بنیادی ہم آہنگی اور یکجہتی ملتی ہے۔ اسی ہم آہنگی اور یکجہتی کی بعض لازوال تصویریں ہماری کلاسیکی اردو شاعری میں محفوظ ہیں۔