مسلمانوں میں ذات پات اورجون ایلیا کے خیالات

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
  جون ایلیا
جون ایلیا

 

 

ثاقب سلیم نئی دہلی

گذشتہ چند ماہ کے دوران میں نے رابطہ عامہ پر مسلمانوں کے درمیان ہونے والے ان مباحثہ کو دیکھا ہے، جو ذات پات سے متعلق ہیں۔

ان میں سے کچھ مسلمان خود کو پسماندہ کہتے ہیں اور وہ عوامی طور پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ اشرافیہ کی جانب سے ان کے ساتھ امتیاز کیا جاتا ہے۔

وہیں دوسری جانب ایسے مسلمان بھی ہیں جو ذات پات کے نظام کو یکسر مسترد کر دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ کچھ مسلمان یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے صرف رابطہ عامہ پر مسلمانوں کے ذات پات سے متعلق گفتگو دیکھی اور سنی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بیسویں صدی عیسوی کے معروف ترقی پسند شاعر جون ایلیا نے اپنے شعری مجموعہ'شاید' میں مسلم معاشرے میں پھیلے ہوئے ذات پات کے نظام اوراس کی وجہ سے معاشرہ میں ہونے والے امتیازی سلوک سے متعلق گفتگو کی ہے۔

جون ایلیا کی پیدائش تقسیم ہند سے قبل ریاست اترپردیش کے ضلع امروہہ میں سن1931 میں ہوئی تھی، جب کہ وہ 1957 میں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرگئے۔

اگرچہ وہ پوری زندگی تقسیم ہند کے مخالف ہی رہے۔

ان کا خیال تھا کہ ملک کی تقسیم دراصل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اشرافیہ طلبا کی خودغرضانہ سیاست کا نتیجہ تھی۔

جن مصنفین نے بھی ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی،ان کی تحروں کا مرکزی عنوان پرانی یادیں(Nostalgia) رہا ہے۔

جون اپنے شعریہ مجموعہ 'شاید' میں تقسیم سے قبل کے ہندوستان کی مختلف جھلک قارئین کو دکھاتے ہیں۔

انھوں نےان تجربات کو اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے، جو انھوں نے تقسیم سے قبل سیاسی، سماجی اور تعلیمی اعتبار سے محسوس کیا تھا۔

وہ 1940کے دہے کے ہندوستان کا تذکرہ کرتے ہوئےاپنی اچھی یادیں اشتراک کرتے ہوئے یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان اچھی یادوں اورباتوں کا ہرگزیہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ایک آئیڈیل معاشرہ تھا اور نہ ہی وہ کوئی بہت بُرا معاشرہ تھا۔ اگرچہ جلد ہی وہ معاشرہ بھی ختم ہونے والا تھا۔

جون کہتے ہیں کہ جس معاشرہ کو ہم یاد کررہے ہیں وہ دراصل اشرفیہ طبقے سے تعلق رکھتا ہے، جس میں سید، شیخ، مغل اور پٹھان سبھی شامل تھے۔

مذکورہ چاروں طبقے کی دسترس میں تعلیم اور دولت دونوں تھی۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اقتصادیات پر بھی اشرفیہ کا کنٹرول تھا۔

جون ایلیا کے مطابق اشرافیہ طبقہ پسماندہ، ان پڑھ اور محنت کش طبقے کے مسلمانوں کو کمترسمجھتے تھے اور انہیں'اجلاف 'کہتے تھے۔

اجلاف کا تعلق چھوٹی ذات سے تھا، جو دراصل اشرافیہ کےغلام کے طور پر گردانے جاتے ہیں،ان کے ساتھ امتیازی سلوک بھی کیا جاتا تھا۔

بالآخرایسا ہوا کہ سماجی اور سیاسی دباو کی وجہ سےان کے اندر بھی بیداری آنی شروع ہوگئی اور انھوں نے بھی حق کے لیے آواز بلند کرنی شروع کردی۔

اجلاف کی جانب سے معاشی اور تعلیمی ادارے کھلنے لگے اور اب وہ اشرافیہ کے لیے چیلنج کی شکل میں ابھرنے لگے۔

جون ایلیا نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ آخر کیا وجہ ہوئی کہ اشرافیہ مسلمانوں کی حمایت سے 'مسلم لیگ' نے پاکستان کا مطالبہ کیا جانے لگا۔

جب کہ اجلاف کی اکثریت محب وطن تھی اور تقسیم ہند کے خلاف تھی۔

جون ایلیا کہتے ہیں اشرافیہ نے اس لیے پاکستان کا مطالبہ کیا کیوں کہ وہ ایک مسلم ملک میں سرکاری عہدے اور اعزازات پانے کے خواہش مند تھے اورانہیں نئے ملک میں تعلیم یافتہ ہندوں سے مقابلے کی ضرورت نہیں  پیش آنے والی تھی۔

جون کے مطابق اشرافیہ طبقہ اپنےماحول میں ہو رہی تبدیلیوں سے بےخبر تھے اور انہیں اندازہ نہیں تھا صدیوں پرانہ ذات پات کا نظام اب مزید چلنے والا نہیں ہے۔

جون نے اس زمانے کے اشرافیہ معاشرہ کے متعلق ایک شعر لکھا ہے۔

تھے عجب  دھیان  کے  در   و    دیوار

گرتے گرتے بھی اپنے دھیان میں تھے

اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ جون ایلیا اگرچہ سید خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جنہیں تعلیم اور دولت تک رسائی حاصل تھی۔

تاہم ایک ایماندار سماجی مبصراور شاعر کی حیثیت سے انھوں نے اپنے طبقے کی خامی کو بھی اپنی کتاب میں اُجاگر کیا ہے۔

نوٹ: ثاقب سلیم مصنف اور تاریخ نگار ہیں۔