قرآن کی 26/آیتوں کا کیس: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-04-2021
وسیم رضوی
وسیم رضوی

 

 

عبدالحئی خان/ نئی دہلی

عالمی و ملکی سطح پر مسلمانوں میں اشتعال اور غم و غصہ کا سبب بننے والے وسیم رضوی کی اس اپیل کو سپریم کورٹ نے نہ صرف خار ج کردیا بلکہ ان پر50/ہزار روپے کا جرمانہ بھی لگایا، جس میں انہوں نے قرآن پاک کی26 /آیتوں کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہاکہ عرضی بے بنیاد ہے۔ عدالت عظمیٰ نے درخواست گذار سے دریافت کیا کہ کیا آپ اس عرضی کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔ درخواست گذار کے وکیل نے بتایا کہ قرآن کی آیتوں کو مدرسوں میں پڑھایا جارہاہے اور مدرسے قانونی طور پر سرکار کے تحت ہی انہیں منظوری ملی ہوئی ہے۔ وسیم رضوی نے عدالت عظمیٰ میں اپنی اپیل 11/ مارچ کو داخل کی تھی، اس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ جہاد سے متعلق26/آیتوں کو بعد میں شامل کیاگیا تھا۔ ان کے اس دعوے کے خلاف جموں وکشمیر کے ایک بی جے پی لیڈر اور یو پی کے بریلی میں پولیس میں شکایتیں بھی درج کی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی لیڈر شاہنواز حسین نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ یہ ہماری پارٹی کی لائن نہیں ہے کہ کسی مذہبی کتاب سے جس میں قرآن بھی شامل ہے، اس کا کوئی حصہ حذف کیا جائے۔ بہر حال سپریم کورٹ کے فیصلہ سے اس تنازعہ کا خاتمہ ہو گیا ہے اور اب شاید مستقبل میں وہ کوئی ایسی ہمت نہیں کر سکیں گے،جو مسلمانوں کے لیے اشتعال کا سبب بنے، کیونکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ان کے فرقہ، ان کے کنبے کا کوئی فرد ان سے ایسی توقع نہیں کرے گا۔

اس سال گذشتہ 26/ مارچ کو یہ خبر ملک کے میڈیا میں آگ کی طرح پھیلی کہ شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئر مین وسیم رضوی نے قرآن کی ان 26/ آیتوں کو جن میں جہاد کا ذکر آیا ہے، انہیں حذف کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ وسیم رضوی نے اسی سال 20/جنوری کو صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت دہلی، صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ دہلی، صدر آل انڈیا مسلم خواتین پرسنل لاء بورڈ بریلی، صدر آل انڈیاشیعہ پرسنل لاء بورڈ لکھنؤ، صدر جماعت اسلامی ہند، صدر جمعیۃ علماء ہند،چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ اورتقریباً57 / ملی جماعتوں کو قرآن مجید کے عنوان سے مراسلہ بھیجا تھا اوران سے قرآن کی 26/ آیتوں کے سلسلے یں وضاحت طلب کی تھی۔اس کے ساتھ ہی حکومت ہند کے پرنسپل سکریٹری، وزیر اعظم، پرنسپل سکریٹری، وزیر امور داخلہ حکومت ہند، پرنسپل سکریٹری برائے وزارت داخلہ حکومت ہند،  سماجی انصاف کی وزارت، اقلیتی امور کی وزارت، وزارت قانون و انصاف اور چیئر مین ہومن رائیٹس کمیشن پٹیشن بھیجی تھی اور ان سے مطالبہ کیا تھا کہ اس پر ضروری کارروائی کی جائے،لیکن جب اس پر نہ ملی جماعتوں نے کوئی توجہ دی اور نہ وزارتوں نے، تو وسیم رضوی سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

کون ہیں وسیم رضوی 

وسیم رضوی کو تنازعات سے شہرت حاصل کرنے کا شوق ہے۔ان کا تعلق لکھنؤ کے ایک شیعہ خاندان سے ہے، حالانکہ انہوں نے کوئی بڑا الیکشن ابھی تک نہیں لڑا،لیکن سیاست میں معمولی سرگرمیوں کے پیش نظر انہیں شیعہ وقف بورڈ کا چیئر مین بنادیا گیا تھا۔اس سے قبل وہ شیعہ وقف بورڈ کے رکن تھے۔ انہوں نے اپنی شہرت اور سیاست کو بڑھاوا دینے کے لیے مسلم مخالف بیانات کا سہارا لیا۔ اس سال انہوں نے متنازع مسجد یں مسلمان ہندوؤں کو سونپ دیں، بابری مسجد ہندوستان میں ایک کلنک ہے،چاند تارے، ہرا جھنڈا اسلام کا مذہبی پرچم نہیں، یہ پاکستان کی مسلم لیگ کا جھنڈا ہے۔ پیغمبر اسلام اپنے کارواں میں سفید یا کا لے رنگ کا پرچم استعمال کرتے تھے۔ اسلامی مدارس کو بند کردینا چاہئے،کیونکہ یہ دہشت گردی کو بڑھاوا دیتے ہیں، بہت سے مدارس میں جدید تعلیم کی جگہ دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے اور جانوروں کی طرح بچے پیدا کرنے سے ملک کو خطرہ ہے،جیسے بیانات انہی کےذہنی دیوالیاپن کی پیداوار ہیں۔وسیم رضوی کو متنازع بیانات پر ابھی تک کسی جانب سے کوئی حمایت نہیں ملی ہے۔عام مسلمانوں میں ان کے خلاف جہاں ایک طرف غم و غصہ بڑھا ہے،وہیں دوسری جانب انہیں اسلام سے خارج کردیا گیا ہے اور ان کے کنبہ کے افراد نے بھی ان سے علاحدگی اختیار کر لی ہے اور وسیم رضوی کے سرپر 11/لاکھ روپے کا انعام مقرر کردیاگیا ہے۔ شیعہ وقف بورڈ کی چیئر مینی کے دوران ان پر دھوکہ دہی کے الزامات لگائے گئے، بالآخر الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم سے سی بی آئی نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی اورانہیں عہدہ سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔

گمراہی کا سبب

آخر کیا بات ہے قرآن اللہ کی، وہی کتاب ہے جس کو پڑھ کر غیر مسلم اس پر ایمان لائے اور اسی قرآن پر ایمان رکھنے والے اورمسلمان کہلانے والے وسیم رضوی جیسے لوگ گمراہ ہوتے ہیں اورکہنا شروع کردیتے ہیں کہ قرآن کی نعوذ باللہ 26/آیتیں انسان کو جارح بنا رہی ہیں اور دہشت گردی سکھا رہی ہیں۔ انہیں آیتوں کا حوالہ د ے کر دنیا کے لوگ دہشت گردبنائے جاتے ہیں۔ انہیں سپریم کورٹ قرآن سے ہٹانے کا حکم دے۔ قرآن کے خلاف ان کے اس دعوے نے ہندوستان اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو احتجاج پر مجبور کردیا۔ پورے ہندوستان میں شیعہ اور سنی مسلمانوں نے مظاہرے اور احتجاج کیے۔ وسیم رضوی کو اسلام سے خارج کیا اور کہاکہ انہیں کسی قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا جائے۔ لکھنؤ کی تال کٹورہ کربلا میں جہاں رضوی نے پیشگی قبربک کرائی ہے اور اس کو حیاتی قبر کہتے ہیں۔ ان کے نام کے لگے پتھر کو توڑدیا گیا ہے۔ ان کو شیعہ برادری سے تو نکالا ہی گیا ہے۔ ان کے بیوی بچوں نے بھی ان سے علاحدگی اختیار کرلی ہے۔

مذکورہ بالا تمام واقعات کا ذکرکرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی حلقہ سے یہ خبر نہیں آئی کہ فلاں امام یا مولانا نے انہیں قرآن یا اسلام کے احکامات سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ قرآن کے خلاف ان کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے کسی سطح کی کوششیں کی گئیں تھیں۔ کبھی کبھی خبریں پڑھتے ہیں کہ فلاں سکھ نے مذہب کے خلاف کوئی کام کیا یا کوئی بیان دیا تواس کو فلاں گورودوارہ میں بلا کر اس کی سرزنش کی گئی اوراس کو گوردوارے میں خدمت کا کام سونپا گیا،لیکن ان کے بارے میں خبروں سے ان کے کنبہ کے ذرائع سے ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی کہ ان کو راہ راست پر لانے کے لیے کیا کیا کوششیں کی گئی تھیں۔  اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی طبقہ یا گروپ کچھ خاص مقاصد کے لیے اس کا استعمال کر رہا ہو۔

پہلی حرکت نہیں

اس سے قبل 1984ء میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک کے خلاف کلکتہ ہائی کورٹ میں اسی طرح کا کیس دائر کیاگیا تھا، جسے خارج کرتے ہوئے عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھاکہ اس معاملہ پر عدالت کا نوٹس لینا ملکی آئین کے قطعاً خلاف ہوگا اور مدعیان نے عدالت میں یہ معاملہ اٹھاکر قانوناًخود کوایک جرم کا مرتکب کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وسیم رضوی کے قانونی صلاح کاروں نے عدالت کی اس نظیر کو نہیں پڑھا۔ اس سلسلے میں ملک کے ایک سرکردہ ماہر قانون پروفیسر طاہر محمود کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مقدموں میں مدعی کو جرمانہ کے ساتھ تین سال کی سزا بھی ہونا چاہئے،کیونکہ کسی بھی فتنہ انگیزی کے لیے عدالت قانون کا سہارا نہیں لینے دے گی۔ اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے افراد کی جانب سے بھی وقتاً فوقتاً اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف توہین آمیز اقدامات کیے جاتے رہتے ہیں، لیکن ایک مسلمان اگرمسلمان رہتے ہوئے اس طرح کی حرکت اور فعل کامرتکب ہوتا ہے تو یہ انتہائی تکلیف دہ اور قابل مذمت ہے۔

غوروفکر کا مقام

بہر حال ایک تکلیف دہ تنازع کاپر امن طریقہ سے خاتمہ ہو گیا،لیکن آخر خاص طور پرمسلمانوں کی جانب سے ہی اسی طرح کے واقعات کیوں جنم لیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ہم ان کی غلط فہمیاں دور نہ کر پارہے ہوں۔ یہاں سے ہمارے علما اورمفتیان کرام کی مزیدذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔ ایسے لوگوں کو شاید اسلامی شریعت کے بنیادی اصول کا علم نہیں ہے۔ وہ تقلید سے بغاوت پر آمادہ ہے اور جاننا چاہتا ہے کہ دنیا میں آنے والے نئے مسائل کاحل خود تلاش کرسکے،لیکن ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے،جب وہ ڈاکٹری کے علم کو پڑھے ہوئے کسی دوا کی خاصیت نہیں جان سکتا تو قرآن اور حدیث کو کیا سمجھ سکتا ہے۔ اسلام کی بنیادیں قرآن، حدیث اورقیاس پرہیں اور قیاس اور اجتہاد کا دائرہ کار کہاں تک ہے، اسے بتانا ہوگا۔ قیاس یا اجتہاد کہاں تک اور کس بنیاد پر کیا جائے گا، یہ بھی بتاناہوگا،کیونکہ جب جب شریعت سے بغاوت یا اختلاف کا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے تو وہ ان لوگوں کی جانب سے آتا ہے،جنہیں اس کا مکمل علم نہیں ہوتا اور لوگ قانونی مشیر کی حیثیت سے ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ ان کا سنجیدگی اور علم کی گہرائی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، صرف دوسروں کے کہنے پر شرارت کر کے اشتعال برپا کرنا ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کا وہی حال ہوتا ہے جو وسیم رضوی اور ان کے مشیروں کا ہوا ہے۔

اجتہاد کی ضرورت

ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں اجتہاد کے اکیڈمیاں،ادارے نہیں ہیں۔ اجتہاد کا سلسلہ جو آنحضورؐ کی وفات کے بعد ہی شروع ہوگیا ہے،وہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔ اصل ضرورت ہے انہیں متحرک اور فعال کرنے کی  اورآج کی زبان میں مسلمانوں اوربرادران وطن تک انہیں پہنچانے کی تاکہ جو غلط فہمیاں ان کے ذہنوں میں سرایت کر گئی ہیں، انہیں نکالا جاسکے۔ ملت اسلامیہ اجتہاد کے جواز پر ہمیشہ متفق رہی ہے۔ مجتہدین ہر صدی میں پائے جاتے رہے ہیں، لیکن ان کے اجتہاد کو تسلیم کرنے کی جو شرائط ہیں ان پر اس کو پورا اترنا چاہیے۔ بہر حال آج دنیا علمی، تحقیقی، سائنسی اورتکنیکی طور پر بہت آگے نکل گئی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ موجود ہیں۔ سماج میں ہر طرح کے تعلیم کے ماہر لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ اسلامی ملکوں میں اسی سلسلہ میں بڑے بڑے سرکاری اورغیر سرکاری ادارے قائم ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستان میں اس سلسلے میں اسلامک فقہہ اکیڈمی گذشتہ تین دہائیوں سے کام کر رہی یہ اور اس میں اب تک ضبط ولادت، پگڑی، اعضا کی پیوند کاری، کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت، مہر کا شرعی حکم، سود سے متعلق مسائل،بینک انٹرسٹ، تجارتی سود اور اسلامی شریعت، بین الاقوامی تجارت پر سود، غیر سودی بینکاری کے لیے پروجیکٹ کی تیاری، دارالاسلام، دارالحرب اور مختلف ممالک کی حیثیت کا تعین، اسلامی بنکاری ضروری و رہنماں خطوط،مرابحہ، غیر سودی امدادی سوسائٹیاں، حقوق کی بیع،انشورنس،دوملکوں کی کرنسیوں کا اُدھارتبادلہ، تجارت میں پیشگی دی ہوئی قیمت اور کرایہ دکان و مکان میں دی گئی ڈپوزٹ کی رقم پر زکواۃ، پرویڈنٹ فنڈ پر زکواۃ، کمیشن پر زکواۃکی وصولی،مزارعت(بٹائی) والی کاشت پر عشرہ، مشینی  ذبیحہ ، طبی اخلاقیات و اطباکے فرائض، شیئرزکی شرعی حیثیت، کلولنگ،اوقاف سے متعلق مسائل،انٹرنیٹ اور جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال، جدید ذرائع وا بلاغ کے ذرائع عقوداور معاملا ت کا شرعی حکم، مسلم و غیر مسلم تعلقات، اسلام اورامن عالم جلاٹین، الکوہل،نئے وقوف کے قیام، بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈ، میڈیکل انشورنس،جینٹک ٹیسٹ، ڈی این اے ٹیسٹ،موت کی حقیقت اورمصنوعی آلہ تنفس،نیٹ ورک مارکیٹنگ،ماحولیات کا تحفظ، تعلیم گاہوں میں جنسی تعلیم، قیدیوں کے حقوق، تعلیمی قرض،پلاسٹک سرجری، خواتین کی ملازمت، غیر مسلم ملکوں میں عدالت کے ذریعہ طلاق،مشترکہ و جدا گانا خاندانی نظام،آبی وسائل اوران کے شرعی احکام، شقاق بین الزوجین، ایکشن سے مربوط شرعی مسائل، رحم کو کرایہ یاعاریت پر دینا، غذائی مصنوعات میں حرام و حلال، اعضا و اجزاء انسانی کا عطیہ،بین مذہبی مذکرات، سرکاری اسکیموں سے استفاد ہ،فضائی آلودگی، صوتی آلودگی، مکانات کی خرید و فروخت سے متعلق عصری مسائل پر فقہی سیمینار کیے ہیں اور درج بالا موضوعات پر بحث و مباحثے کے بعد ان کا قرآن اور حدیث کی روشنی میں حل نکالا ہے۔ اس کے علاوہ دارالعلوم دیوبنداور اعظم گڑھ میں بھی فقہہ پرکام کرنے والے ادارے موجود ہیں۔ دراصل ضرورت ہے ان کے کام کو عام کرنے کی۔ ملک کے ہر فرد تک پہنچانے کی۔

مستقبل کی منصوبہ بندی

قوموں اور تہذیبوں کی بقا کا راز اس میں پنہاں ہوتا ہے کہ وہ تبدیلیوں کے مسلسل عمل کے نتیجے میں پیدا شدہ مسائل کا حل کسی طرح ڈھونڈتی ہیں۔ ان کے پاس ایک طریقہ اور طریقہ کار ہے۔ اجتہاد اس کو بروئے کارلا کر اس طرح کے مسائل سے چھٹکارہ حاصل کر سکتے ہیں، بلکہ قوم پر جاری جمود اوردائمی تقلید کی مشکلات سے بھی نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلام ایک متحرک اورمکمل، زندگی سے بھرپور مذہب ہے۔ وہ ارتقا و مسلسل تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ اسلام کے تقدس اور اس کی حرمت کو برقرار رکھنے کے لیے اور مستقبل میں اسلام کے کسی فرد کو شریعت اسلامی سے کوئی شکایت نہ ہو، اسلام کی ان خوبیوں کواس تک پہنچانے اوراس کے خدشات کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔

اور آخر میں قوم کے حالات کو ایک دانشور ڈاکٹر طہٰ جابر العلوانی کی زبانی سنیے، جو رکن انٹرنیشنل فقہہ اکیڈمی جدہ اور فقہہ اکیڈمی شمالی امریکہ تھے،کہتے ہیں کہ آج امت مسلمہ کی حالت بڑی افسوسناک ہے۔ کسی طرح بھی خود کوایک بے مثال تہذیب،یانظم اقدار کی حامل قوم کی صورت میں پیش نہیں کرسکتی،نہ ہی اس کے علاوہ کسی ایسی خصوصیت یا تشخص کی مالک ہے کہ جو کسی تہذیب کو دوسری تہذیبوں سے ممتاز کرتی ہو،کیونکہ یوروپ پر بہت زیادہ انحصار نے اس کی تمام بے مثال صلاحیتیں ختم کردی ہیں۔اب وہ اپنی ہی ایک مسخ شدہ تصویر ہو کر رہ گئی ہے۔ اب خود کو صرف ایسے ماہر دینیات پیدا کر کے باقی رکھ سکتی ہے جس کا علمی پس منظر صرف اسلام کے عائلی قوانین کی معلومات تک محدود ہے“۔