مسجدکی تعمیرکے لئے سکھوں اورہندووں کی پہل، گردوارے سے آئیں اینٹیں

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 22-05-2022
مسجدکی تعمیرکے لئے سکھوں اورہندووں کی پہل، گردوارے سے آئیں اینٹیں
مسجدکی تعمیرکے لئے سکھوں اورہندووں کی پہل، گردوارے سے آئیں اینٹیں

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

لدھیانہ: جب ہندوستان کے طول وعرض میں مسجدوں کومندر میں تبدیل کرنے کے لئے عدالتوں کا سہارا لیا جارہا ہے اور تاریخی مسجدوں پر دعوے کئے جارہے ہیں،اس بیچ پنجاب سے آنے والی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی خبریں بادبہاری کے جھونکے کی طرح ہیں۔ یہاں اقلیتی مسلمانوں کی عبادت گاہ کی تعمیرکی ذمہ داری سکھوں نے اٹھائی اورمسجدکی بنیاد کے لئے ابتدائی اینٹیں گردوارے سے آئیں۔

پنجاب میں یہ اپنی طرح کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی ایسی کئی خبریں آئی ہیں۔مثال کے طور پر جوگاسنگھ نے اپنے دوست جمیل احمدکے لئے ایک مسجدبنوائی۔ وہ اس بات سے پریشان تھے کہ جمیل احمدکو نماز کے لئے دس کلو میٹردور جانا پڑتا ہے۔اسی طرح ملہ گائوں میں ایک مسجد کی تعمیر سکھوں نے چندہ جمع کرکے کرائی۔

پاسباں مل گئے

awaz

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اس سے اچھی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔ ہفتہ کو فیوریان کے گوردوارہ رائے پٹی میں مشترکہ دعائیہ محفل ہوئی اور س موقع پرگاؤں کے سکھوں نے مسجد بنانے کے لیے پہلی 13 اینٹیں دیں۔ یہی نہیں بلکہ بننے والی مسجد کی حمایت میں بھی سکھ سب سے آگے ہیں اور پیسے بھی دیئے۔

سنت سے این آرآٗئی سکھ تک شامل

گوردوارے کے صدر اقبال سنگھ کا کہنا ہے کہ گاؤں میں ہمارا ایک گوردوارہ ہے اور ایک مندر بھی ہے۔ ہر کوئی مسجد بھی چاہتا تھا۔ پنجاب کی طرح پورے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے ایک گوردوارے سے کام شروع ہوا۔ گاؤں میں تمام تہوار ہم ایک ساتھ مناتے ہیں۔ نانکسرکے سنت بابا گرچرن سنگھ کے علاوہ این آر آئی سکھ بھی اس نیک کام میں شامل ہیں۔ انہوں نے مسجد کی تعمیر کے منصوبے کے لیے بڑھ چڑھ کررقم دی ہے۔ سکھوں کی اکثریت والے گاؤں میں 1,400باشندوں میں صرف چار مسلم خاندان ہیں۔

awazurdu

بہرحال سکھوں اور ہندووں نے مسجد کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا ہے اور مسلمانوں سے زیادہ وہ چندہ دے رہے ہیں۔ اسی ساتھ وہ ہر طریقے سے تعاون بھی کر رہے ہیں۔ اب مسلمانوں کو امید ہے کہ ان کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔

چارمسلمان خاندان خوش

گاؤں کے ایک مسلمان نے بتایا کہ ہم گاؤں میں ایک مسجد کے لیے ترس رہے تھے، جس کے لیے ہم نے تقریباً 10 سال قبل 1.75 لاکھ روپے میں ساڑھے چار بیسوا زمین خریدی تھی لیکن ابھی تک کام شروع کرنے کے وسائل نہیں تھے۔اب گوردوارے میں ارداس کے بعد سکھ بھائی اینٹیں اپنے ساتھ لے کرآگئے۔ اگر ہمیں مزید مدد ملتی ہے تو ایک سال میں مسجد زیادہ تیزی سے تیار ہو جائے گی۔

عام آدمی پارٹی کے نتھووال گاؤں کے منسا خان نے کہا کہ سکھوں نے لدھیانہ اور رائے کوٹ کے علاقوں میں کئی مساجد بنانے میں مدد کی ہے۔ ہمیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اس روایت پر فخر ہے۔

جوگاسنگھ کی مسجد

 لدھیانہ کے ہی ایک دوسرے گائوں کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔۔۔دو دوستوں کی کہانی ۔۔۔ہم آہنگی اور یکجہتی کی کہانی۔۔۔۔۔ہندوستان کی گنگا،جمنی تہذیب کی کہانی۔۔۔۔دوستی ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کے لیے مثال بن جائے۔ ایسی ہی دوستی جوگا سنگھ اور محمد جمیل کی ہے۔ ایک سکھ اور مسلمان کی دوستی کی دلچسپ کہانی سنیے۔ پنجاب کے لدھیانہ ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں سرو پور میں ایک سکھ نے اپنے مسلمان دوست کے لیے مسجد بنا کر مثال قائم کی۔

awaz

دراصل اس علاقے میں رہنے والے کسان جوگا سنگھ اس بات سے پریشان تھے کہ ان کے دوست اور شہر کے دوسرے مسلمان نماز پڑھنے شہر سے 10 کلومیٹر دور جایا کرتے تھے۔ اگرچہ اس سے قبل شہر میں ایک مسجد تھی لیکن تقسیم کے بعد تشدد کے دوران اسے تباہ کر دیا گیا تھا۔ ایسے میں اپنے دوست کا مسئلہ حل کرنے کے لیے جوگا سنگھ نے قصبے میں ایک مسجد بنوائی۔ ان کے دوست محمد جمیل جوگا سنگھ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر ہمارے سکھ بھائی اور بہنیں یہ اقدامات نہ کرتیں تو ہم قصبے میں کبھی مسجد نہیں بنا سکتے تھے۔

ایک مسلم خاندان کے لئے سکھوں اور ہندووں کی پہل

دوسری جانب گاؤں ملہ میں بھی ایک مسجد بند کر دی گئی تھی۔یہ معاملہ چند سال قبل کا ہے۔ اس گاؤں کی آبادی تقریباً 5000 ہے اور ایک مسلم خاندان کے علاوہ باقی تمام خاندان سکھ اور ہندو مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس گاؤں کے لوگوں نے اس مسلم خاندان کے لیے سماجی ہم آہنگی کی نئی مثال قائم کر دی ہے۔

awaz

گاؤں کے سکھوں نے فیصلہ کیا کہ اس مسجد کو دوبارہ کھولا جائے گا۔ مہینوں پہلے گاؤں کے محمد عثمان لدھیانوی نے گاؤں والوں کے سامنے اس مسجد کو دوبارہ تعمیر کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ لدھیانوی کی اس تجویز کی ذمہ داری لیتے ہوئے گاؤں والوں نے چندہ اکٹھا کیا اور مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا۔ چھ ماہ کی جدوجہدکے بعد مسجد مکمل طور پر تیار ہوئی۔