خون کا عطیہ اور اسلامی ہدایات

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-06-2021
خون کا عطیہ بہترین تحفہ
خون کا عطیہ بہترین تحفہ

 

 

سلمان عبدالصمد 

بدلتے وقت کے ساتھ، زندگی کے معاملات اور چند مذہبی امور میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ تغیر سے ہی زندگی کی رنگینی مربوط ہے۔ دنیا میں ہونے والی تبدیلی سے کبھی کبھی مذاہب کے ماننے والوں کے سامنے مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔ لہذا مذہبی پیشوا اور فقہا موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے نکات پر غور کرتے ہیں اور نئے مذہبی قوانین وضع کرتے ہیں تاکہ مذہب کے ماننے والوں کو صحیح معلومات حاصل ہوسکے۔اسلام بھی ایک ایسا مذہب ہے جو بدلتے وقت کے نئے معاملات میں اپنے پیروکاروں کی رہنمائی کرتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور کے بہت سارے معاملات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھے۔ تاہم آج تیز رفتار ترقی سے طبی امور میں بھی تبدیلی آرہی ہے اور کھانے پینے کے نظام میں بھی تغیرات واقع ہورہے ہیں۔ اس لیے زندگی کے نئے امور کے مدنظر فقہا نے غور وفکر کیا اور آج بھی کررہے ہیں۔ ان کی رہنمائی کی وجہ سے آج ہم نئے نئے مسائل سے آگاہ ہورہے ہیں۔ فقہا کی غور وفکر سے حاصل ہونے والے بہت سے مسائل موجود ہیں، لیکن یہاں ہم صرف خون کے عطیہ پر بات کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں کہیں بھی عطیہئ خون کا کوئی واضح حکم موجود نہیں ہے۔

 لیکن فقہائے اسلام نے خون کے عطیہ سے متعلق ہدایات دی ہیں۔ ان کی ہدایات کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمان خون کا عطیہ کرتے ہیں اور انہیں اس اہم کام کا صلہ بھی ملے گا اور عنداللہ وہ ماجور بھی ہوں گے۔ کیونکہ مذہبی امور کے ماہر فقہا نے قرآن شریف کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ دور کے اس معاملے میں ہماری رہنمائی کی ہے۔ اس لیے ہمیں عطیہئ خون اور اسلام تعلیمات کو سمجھنے کے لیے ذراگہرائی سے سوچنا ہوگا۔

 قرآن شریف کے پارہ نمبر2، سورۃ 2 البقر، آیت نمبر 173 میں جو حکم دیا گیا ہے، اس کا مفہوم بہت واضح ہے۔مسلمانوں کے لیے مردار جانوروں کا گوشت حرام ہے۔ اسی طرح سور کا کھانا بھی حرام ہے۔ اسی طرح ان تمام جانوروں اور نذر کا کھانا ناجائر ہے، جس پر خدا کے علاوہ کسی اور کا نام لیا جائے، مگر کوئی اضطراری یعنی پریشانی کی کیفیت میں مبتلا ہوجائے تو اس کے لیے مذکورہ چیزوں کا اتنا کھا لینا حرام نہیں ہے،جتنا کھانے سے جان بچ جائے۔ قرآن کی مذکورہ آیت کے مدنظر کو فقہا نے کہا ”الضرورۃ تبیح المحضورات“۔ یعنی ضرورت کے وقت حرام چیزیں مباح ہوجاتی ہیں۔ قرآن مجید میں ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔

اگرچہ اللہ تعالیٰ نے تمام جانوروں کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ اس نے آپ کے لئے منع کیا ہے، وہ بھی جائز ہیں جب آپ کو ان کی اشد ضرورت ہوگی (119)۔ یعنی، اگر بھوک سے مرنے کا خطرہ ہے تو، ناجائز جانوروں کا گوشت کھا لینا جائز ہے، لیکن صرف اتنا کھانا جائز ہوگا، جتنا کھانے سے جان بچایا جا سکے، خون کے عطیے کے مسئلے کو بھی اسی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔یوں تو اسلام کے مطابق انسانی جسم کا ہر ایک حصہ اللہ کا ہے۔ کوئی فرد جسم کے کسی حصے کو بیچ نہیں سکتا یا کسی کو تحفے میں نہیں دے سکتا ہے، لیکن فقہا نے مذکورہ آیت کے مدنظر کہا کہ جس طرح مجبوری میں مردہ جانورکا گوشت کھا نا جائز ہوجاتا ہے، اسی طرح کسی کی جان بچانے کے لیے، ہم خون کا عطیہ دے سکتے ہیں۔ جس طرح اپنی جان بچانا فرض ہے، اگر خون دینے والے کو کوئی پریشانی لاحق نہ ہوتو خون دے کر دوسروں کی جان بچائی جاسکتی ہے۔قرآن کے اس نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے، ہم اور بھی بہت سے نئے معاملات حل کرسکتے ہیں۔

دراصل عطیہ خون آج کے عہد کا ایک اہم معاملہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے پر فقہا نے بہت سے مقامات پر گفتگو کی ہے۔ اس مسئلے کا ذکر فتوی رحیمیہ میں کچھ ان الفاظ میں درج ہے۔اگر کسی مریض کو واقعی میں خون کی ضرورت ہو تو ہم اس کا عطیہ کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ خون دینے والے کو کوئی نقصان نہ ہو۔ ساتھ ہی یہ بھی یاد رہے کہ خون مفت دیا جائے۔ فروخت نہ کیا جائے۔ کیونکہ خون خریدنا اور بیچنا اسلام میں غیر قانونی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی مذکور ہے کہ خون کے عطیات والے کیمپوں میں خون کا عطیہ نہ کیا جائے۔ کیوں کہ عام طور پر ضرورت مندوں کو بلامعاوضہ وہاں سے خون مفت نہیں دیا جاتا ہے بلکہ ان کے ہاتھ بیچ دیا جاتا۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ خون کے عطیہ کیمپ میں اس مقصد کے ساتھ خون عطیہ کیا جاتا ہے کہ اس سے ایک کارڈ حاصل ہوگا۔ پھر اس کارڈ کی بنیاد پر کبھی ہمیں یا ہمارے رشتے دار کو بلڈ بینک سے خون مل جائے گا۔ فقہا نے لکھا ہے کہ یہ موہوم ہے، یعنی ہماری یا ہمارے رشتے داروں کی طبیعت خراب ہونا موہوم ہے۔ ابھی تو طبیعت خراب نہیں ہے، آئندہ کب خراب ہو، کسی کو معلوم نہیں۔ اسلام میں موہوم چیزوں سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ بس ضرورت کے مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے خون دیا جاسکتاہے (ملاحظہ کریں: فتاوی رحیمیہ جد 1 1: 2، 3، مکتب احسان دیوبند اور محمود الفتوی 1: 1-4۔)جب کہ فتوی کی دوسری کتابوں میں لکھا ہواہے کہ بلڈ بینک والے خون جمع کرنے کے بعدبیچتے نہیں ہوں تو بلڈ بینک میں بھی خون دینا جائز ہے۔ ہم بلڈ بینک میں خون دے سکتے ہیں۔

 اس لیے یہ کہا جاسکتاہے کہ اسلام کی رو سے انسان نہ اپنے بدن کے کسی عضو کو تحفے میں دے سکتا ہے اور نہ ہی عطیہ کرسکتاہے۔ نہ خون عطیہ میں دے سکتاہے، تاہم کسی ماہر ڈاکٹر کے مشورے سے یہ بات روشنی میں آجائے کہ مریض کو خون کی ضرورت ہے۔ اگر خون نہ دیا جائے تو اس کا مرض بڑھ سکتا ہے۔ اس سے مریض کی موت واقع ہوسکتی ہے تو ایسی صورت میں خون کا عطیہ دینا جائز ہی بلکہ لازمی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ خون کا عطیہ دینے والے کو کسی طرح کی کوئی پریشانی لاحق ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ کیوں کہ کسی ایک فرد کو مشکل سے نکالنے کے لیے خود کو مشکل میں ڈالنا مناسب نہیں ہے۔کیوں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لا ضرر ولاضرار فی الاسلام“ اسلام میں نہ کسی کو نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ ہی خود نقصان اٹھانا۔ اس لیے خون عطیہ کرنے کی اجازت دینے والے فقہا کا کہنا ہے کہ خون دینے والے فرد کو اپنی صحت کو ذہن میں رکھ کر خون عطیہ کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ کسی این جی او یا پھر کسی ادارے کو اسی وقت خون عطیہ کریں، جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ خون جمع کرنے والاادارہ ضرورت مند مریضوں کو مفت خون فراہم کرتا ہے، کسی سے کوئی معاوضہ نہیں لیتا ہے۔ کیوں کہ معاوضے میں خون لینے دینے میں اسلامی احکام کی خلاف ورزی ہوگی۔ چوں کہ خون عطیہ کرنے سے صحت بھی اچھی ہوتی ہے اور اسلامی قانون کے رو سے ایک فرد کی مدد بھی ہو جاتی ہے، اس لیے خون عطیہ کرنا سماجی اور اسلامی دونوں نقطہئ نظر سے آج مستحسن ہوگا، جب کہ خون دینے والا خون فروخت نہ کررہا ہوں۔