پیارے نبی کی شان میں گستاخی: اُن کا رویہ اور ہمارا کردار

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 02-07-2022
 پیارے نبی کی شان میں گستاخی: اُن کا رویہ اور ہمارا کردار
پیارے نبی کی شان میں گستاخی: اُن کا رویہ اور ہمارا کردار

 

 

mohiuddin gazi

محی الدین غازی،نئی دہلی

جب کسی شخص کی زبان سے رسولِ کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کے الفاظ نکلتے ہیں، تو ہمارے ذہن میں فورًا اس کی سزائے موت کا خیال آتا ہے، اسے حیات بخش دوائے شافی دینے کا خیال نہیں آتا۔ جب کہ اللہ کے رسولﷺ کے زمانے میں پیش آنے والے واقعات پر نظر ڈالیں، تو صورت حال برعکس نظر آتی ہے۔ وہاں رسول کی شان میں گستاخی کو ایک بیماری سمجھ کر پہلے اس کے علاج کی تدبیریں کی جاتیں اور سزا اس وقت دی جاتی جب وہ بیماری ناقابل علاج ہوکر سنگین جرم بن جاتی۔

ہم یہاں صرف ان واقعات کو ذکر کریں گے جو صحیح سند سے ثابت ہیں اور خالص اہانتِ رسول سے متعلق ہیں۔

حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص تھا، اس کی ایک لونڈی تھی جس سے اس کے دو بیٹے تھے، وہ نبی ﷺ کے بارے میں بد زبانی کرتی اور آپ کی عزت پر حملے کرتی تھی، وہ اسے منع کرتا مگر وہ نہیں مانتی ، وہ ڈانٹ ڈپٹ کرتا پھر بھی وہ باز نہیں آتی۔ ایک رات وہ نبی کریم ﷺ کی شان میں بد زبانی کرنے لگی اور آپ کی عزت پر حملے کرنے لگی۔ اس اندھے سے برداشت نہیں ہوا اور اسے قتل کردیا۔ یہ روایت سنن ابی داؤد میں ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں: (فَيَنْهَاهَا، فَلَا تَنْتَهِي، وَيَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ) سنن نسائی میں یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کے رسول کے بارے میں بہت زیادہ گستاخی اور بدزبانی کرتی تھی۔ روایت کے الفاظ ہیں: (وَكَانَتْ تُكْثِرُ الْوَقِيعَةَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَسُبُّهُ، فَيَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ، وَيَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي)

شاتمِ رسول کے قتل کے سلسلے میں یہ تمام واقعات میں سب سے زیادہ صحیح اور خالص واقعہ ہے۔ اس واقعہ میں یہ بات نمایاں ہے کہ رسول کریم ﷺ کی شان میں وہ لونڈی بہت زیادہ گستاخی کرتی رہی اور بہت دنوں تک کرتی رہی۔ اس کا مالک اس کی گستاخی کو برداشت کرتا رہا اور اسے نرمی اور سختی سے سمجھاتا رہا۔ وہ روکتا مگر وہ نہیں مانتی، وہ ڈانٹ ڈپٹ کرتا پھر بھی نہیں مانتی۔ رسول کی شان میں گستاخی پر پہلی ہی بار سزا دینے کے بجائے وہ لمبی مدت تک ایک بیماری کی طرح اس کا علاج کرتا رہا۔

تابعی شعبی ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں، وہ یہ کہ ایک نابینا مسلمان تھا جو ایک یہودی عورت کے یہاں جایا کرتا تھا، وہ اسے کھانا کھلاتی اور اس کی اچھی خاطر تواضع کرتی۔ لیکن وہ نبی ﷺ کو برا بھلا کہتی اور آپ کےحوالے سے اس کا دل دکھاتی، اور وہ عرصے تک ایسا کرتی رہی، ایک رات اس نے اس کا گلا دبا دیا جس سے وہ مرگئی۔ روایت کے الفاظ ہیں: (فَكَانَتْ لا تَزَالُ تَشْتُمُ النَّبِيَّ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُؤْذِيهِ فِيهِ) یہ روایت امام احمد نے بیان کی ہے۔ (أحكام أهل الملل والردة)

اس روایت میں بھی اس کا ذکر ہے کہ گستاخی اور اذیت رسانی کا معاملہ مسلسل اور لمبی مدت تک ہوتا رہا، جس کے بعد اس نے انتہائی قدم اٹھایا۔ اللہ کے رسولﷺ نے ان دونوں واقعات میں قتل کی تائید میں کوئی جملہ نہیں کہا، البتہ ان دونوں کے مسلسل جرم کے پیش نظر قتل کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کی۔

رسول کی شان میں گستاخی سے متعلق ایک سبق آموز واقعہ حضرت ابوہریرہؓ کا ہے، وہ بیان کرتے ہیں: میں اپنی ماں کو اسلام کی دعوت دیتا تھا، ایک دن دعوت دی تو اس نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ایسی بات کہی جو مجھے ناگوار گزری، میں روتا ہوا رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول میں اپنی ماں کو اسلام کی دعوت دیتا اور وہ انکار کردیتی، آج میں نے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے آپ کے بارے میں ایسی باتیں کہیں جو مجھے ناگوار لگیں۔ آپ دعا کردیں کہ اللہ میری ماں کو ہدایت دے دے۔

مختصر یہ کہ اللہ کے رسول ﷺ نے دعا کی اور حضرت ابوہریرہؓ کی والدہ مشرف باسلام ہوگئیں۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہؓ کی والدہ نے رسول کریمﷺ کی شان میں گستاخی کی۔ لیکن انھیں اس جرم کی سزا دینے کا خیال نہ حضرت ابوہریرہؓ کو آیا نہ ہی اللہ کے رسول ﷺ نے سزا کا ذکر چھیڑا۔ حضرت ابوہریرہؓ نے دعائے ہدایت کی درخواست کی، آپؐ نے ہدایت کی دعا کی اور اللہ نے ہدایت دی۔ ان کی والدہ مشرف باسلام ہوگئیں۔

ایک واقعہ بیہقی نے سنن کبری میں ذکر کیا ہے کہ ایک صحابی حضرت غرفۃ بن حارثؓ کے پاس سے ایک عیسائی کا گزر ہوا، انھوں نے اسے اسلام کی دعوت دی، وہ نبی کریم ﷺ کے بارے میں بدزبانی کرنے لگا۔ حضرت غرفۃؓ نے اس کی ناک پر گھونسا رسید کردیا۔ معاملہ وہاں کے گورنر حضرت عمرو بن عاصؓ تک پہنچا، حضرت عمروؓ نے کہا: ہم نے انھیں امان کا عہد دیا ہوا ہے۔ حضرت غرفۃؓ نے کہا: ہم نے ان سے یہ معاہدہ نہیں کیا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی شان میں علانیہ گستاخی کریں۔ ہم نے معاہدہ کیا ہے کہ وہ اپنے گرجا گھروں میں رہ کر جو چاہیں وہ بکیں۔ حضرت عمروؓ نے ان کی تائید کی۔

اس موقع پر حضرت غرفۃؓ نے گھونسا مارنے پر اکتفا کیا اور سزائے موت کا مطالبہ نہیں کیا۔ کیوں کہ گھونسا مارنے سے اس کا علاج ہوگیا تھا۔

علامہ ابن جوزی، علامہ قرطبی اور دیگر مفسرین نے سورہ مجادلہ کی آخری آیت کے سبب نزول کے حوالے سے درج ذیل دو واقعات ذکر کیے ہیں، یہ دونوں روایتیں مذکورہ بالا واقعات کی طرح سند کے ساتھ تو نہیں ملتی ہیں، لیکن ان کے اندر نصیحت کا بڑا سامان ہے۔

مفسر سدی کے حوالے سے ایک واقعہ یہ ذکر کیا گیا ہے کہ عبداللہ بن ابی منافقوں کا سردار تھا جب کہ اس کے بیٹے عبداللہ مخلص اور جانثار صحابی رسول تھے۔ ایک دن حضرت عبداللہؓ نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے، آپؐ نے پانی پیا، حضرت عبداللہؓ نے کہا، اے رسولِ خدا! اللہ کے واسطے مجھے اپنا بچا ہوا پانی دے دیجیے میں اسے اپنے باپ کو پلاؤں گا، کیا پتہ اللہ اس کے ذریعے اس کے دل کو پاک کردے۔ آپؐ نے پانی بچاکر دے دیا، وہ اسے لے کر اپنے باپ کے پاس پہنچے، اس نے کہا: یہ کیا ہے؟ حضرت عبداللہؓ نے کہا: یہ نبی کریمﷺ کا بچا ہوا پانی ہے، میں آپ کے پاس لایا ہوں، تاکہ آپ اسے پی لیں، ہوسکتا ہے اللہ اس سے آپ کے دل کو طہارت بخش دے۔

باپ یہ سن کر بولا: تو اپنی ماں کا پیشاب کیوں نہیں لے آیا، وہ اس سے زیادہ پاک ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ کو یہ سن کر شدید غصہ آیا اور وہ رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے میں اپنے باپ کا سر قلم کردوں۔ نبی پاکﷺ نے فرمایا: نہیں بلکہ اس کے ساتھ نرمی برتو اور اچھا سلوک کرو۔

دوسرا واقعہ مفسر ابن جریج کے حوالے سے مذکور ہے کہ ایک بار حضرت ابوبکرؓ کے باپ ابو قحافہ نے نبی کریم ﷺ کو گالی دے دی، ان کے بیٹے حضرت ابوبکرؓ نے انھیں ایک تھپڑ رسید کیا جس سے وہ منھ کے بل گرپڑے۔ پھر وہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئے اور انھیں یہ قصہ سنایا۔ آپؐ نےکہا: ارے تم نے یہ کیا کردیا، دوبارہ ایسا مت کرنا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچا نبی بناکر بھیجا ہے، اگر تلوار میرے قریب ہوتی تو میں انھیں قتل کردیتا۔

رسول کی شان میں گستاخی پر دونوں صحابیوں کو غصہ آیا ، ایک نے گستاخی کرنے پر باپ کو تھپڑ مارا تو دوسرے نے باپ کے قتل کی اجازت مانگی۔ لیکن رحمت للعالمین ﷺ کی شان دیکھیے کہ حضرت ابوبکرؓ سے کہا دوبارہ ہاتھ مت اٹھانا اور حضرت عبداللہ ؓ سے کہا کہ باپ کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک کرتے رہو۔

مسلمانوں کے درمیان شاتمِ رسول کی سزا کا ذکر اتنے زور و شور سے ہوا کہ شاتمِ رسول کی دوا کی بات دب گئی۔ آج سیرت رسولﷺ کے اس گوشے کو سامنے لانے کی ضرورت ہے جو خوب نمایاں ہونے کے باوجود آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ سیرت نبوی کا یہ پہلو مسلمانوں کو ان کی دعوتی ذمے داری اور داعیانہ کردار سے آگاہ کرتا ہے۔

میں نے سیرت کے واقعات کی روشنی میں شاتم رسول کے علاج پر روشنی ڈالی ہے۔ شاتمِ رسول کی سزا کے بارے میں رائے دینے کا یہ وقت نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ اسلامی حکومت ہی کرسکتی ہے کہ وہ کون سی سزا طے کرتی ہے۔ البتہ ایک مشہور غلط فہمی دور کرنے کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم نبی کریم ﷺکی شان میں گستاخی کرتا ہے تو مالکی اور حنبلی فقہا کے یہاں اس کی سزا قتل ہے، شافعی فقہا کے درمیان اختلاف ہے، جب کہ امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری اور ان کے ماننے والے فقہا کے نزدیک اس کی سزا متعین طور پر قتل نہیں ہے، بلکہ اس کی تعزیری سزا کا فیصلہ حکومت اپنی صواب دید سے کرے گی۔

اس لیے یہ بات کہنا علمی لحاظ سے بالکل غلط ہے کہ شاتمِ رسول کی سزا قتل ہونے پر امت کا اتفاق رہا ہے۔ قاضی عیاض نے کتاب الشفا میں لکھا ہے کہ ہارون رشید نے امام مالک سے دریافت کیا کہ ایک آدمی نے رسول کریمﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے، عراق کے فقہا نے فتوی دیا ہے کہ اسے کوڑے لگائے جائیں، آپ کی کیا رائے ہے؟ امام مالک ناراض ہوئے اور کہا کہ اسے قتل کیا جانا چاہیے۔ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ قدیم زمانے سے مختلف فیہ رہا ہے۔

آپ شاتمِ رسول کی سزا کے سلسلے میں کوئی بھی رائے رکھ سکتے ہیں، لیکن ایسے لوگوں کے ساتھ آپ کا عملی کردار وہی ہونا چاہیے جس کی تعلیم اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو دی۔ کیوں کہ شرعی سزا دینا حکومت کا کام ہے اور اسلامی کردار پیش کرنا ہر مسلمان کا کام ہے۔

اس وقت رحمت للعالمین کے لائے ہوئے دینِ رحمت کا تعارف یہ بن گیا ہے کہ اگر کسی کی زبان سے ایک جملہ بھی اہانت رسول کا نکل گیا تو پھر اس کا قتل لازم ہے، خواہ وہ معافی کیوں نہ مانگ لے۔ جب کہ سیرت کے واقعات بتاتے ہیں کہ قتل انھی کو کیا گیا جو لمبی مدت تک سمجھانے کے بعد بھی اپنی روش سے باز نہ آئے۔

دینِ رحمت کے اس غلط تعارف میں رائج فقہی بیانیے کا بھی دخل ہے۔ بہت سی فقہی عبارتوں سے یہی پیغام ملتا ہے کہ جس کی زبان سے کوئی ایک جملہ بھی ایسا نکلا جس میں اہانتِ رسول کا کوئی پہلو ہو تو وہ واجب القتل ہے، خواہ وہ بعد میں توبہ کیوں نہ کرلے۔

اگر فقہی بیانیہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے واقعات سے ہم آہنگ ہوتا تو یہ غلط فہمی نہیں پھیلتی۔ حنفی فقہی بیانیہ بڑی حد تک سیرت سے ہم آہنگ ہے، مگر سوئے اتفاق کہ جذبات سے ہم آہنگی کی بنا پر شہرت دوسرے بیانیے کو زیادہ ملی اور اتنی زیادہ ملی کہ خود فقہ حنفی کے مفتیانِ کرام اس کی رو میں بہہ گئے۔

مشہور حنفی فقیہ علامہ ابن عابدین نے ایک کتاب لکھی، جس کا نام ہے، تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیر الأنام۔ اس کتاب کے لکھنے کی وجہ ایک شخص بنا جس نے اہانت رسول کا ارتکاب کیا، مگر پھر توبہ کا اعلان کردیا۔ سوال یہ تھا کہ اس کی توبہ قبول کی جائے یا نہیں؟ علامہ ابن عابدین پہلے تو مشہور رائے سے متاثر تھے، مگر تحقیق کے بعد ان کی رائے بنی کہ اس کی توبہ قبول کی جانی چاہیے۔ وہ لکھتے ہیں: میرے سینے کو ٹھنڈک تو جبھی پہنچتی جب اسے آگ میں جلا دیا جاتا اور تلوار سے کاٹ دیا جاتا، مگر جب نقل (شرعی دلیل) واضح ہوکر سامنے آجائے تو عقل (جذبات) کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے۔