بھاگوت کا بیان:ثبوت کے بغیرکسی بات پر شک درست نہیں ۔ ڈاکٹرظفرمحمود

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 14-07-2021
ہندوستانی مسلمان اور آر ایس ایس
ہندوستانی مسلمان اور آر ایس ایس

 

 

اگر کوئی کچھ کہہ رہا ہے تو اس کو بالکل مسترد نہیں کیا جانا چاہیے ۔

جب تک کوئی ثبوت نہ ہو کسی کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

ہم اپنے گریبان میں جھانک کر،اپنے روئیے میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔

دین کے ساتھ دستور بھی بھائی چارہ کا سبق دیتا ہے۔

آواز دی وائس: نئی دہلی

 مسلمان کسی ایک سیاسی جماعت سے جڑے ہوئے نہیں جو سیاسی پارٹی مسلمانوں کے بنیادی مسائل کو ترجیحات میں شامل کرے گی ووٹ پائے گی۔ اگر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کوئی بات کہی ہے تو اس کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے،ہربات پر بنا ثبوت شک کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ ایسا تو مذہب بھی نہیں سکھاتا ہے۔

اس لئے مسلمانوں کو کسی بھی پیشکش یا تجویز پر فوری طور پت منفی ردعمل ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔اس معاملہ میں تو ہر مسلمان کو آگے آنا چاہیے اور اپنے فریضہ کو انجام دینا چاہیے۔

سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ مہم نفرت نہیں سیاست کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار ریٹائرڈ آئی اے ایس افسراورزکاۃ فاونڈیشن آف انڈیا کے سربراہ ڈاکٹر سید ظفر محمود نے’ آواز دی وائس‘ کے لئے منصور الدین فریدی سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔   پیش خدمت ہے انٹرویو ۔۔۔۔۔۔

 سوال : مسلمانوں کے لئے  موہن بھاگوت کا بیان کتنا اہم ہےاور کس بنیاد پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟

جواب: دیکھئے! اللہ کہاں سے راستہ نکال دے کسی کو نہیں معلوم۔ہر اچھی بات کی حمایت کی جانی چاہیے،یہ ضرور ہے کہ ردعمل یا پہل میں کسی جلد بازی کی بھی ضرورت نہیں ۔سوچنے سمجھنے میں کوئی برائی نہیں ،ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی لیا جاتا ہے۔بہرحال جہاں تک بات بھروسہ اور یقین کی ہےتو ہر انسان کو اللہ تعالی نے بنایا ہے۔ اگر کوئی انسان کچھ کہہ رہا ہے تو اس پر ہم شک نہیں کرسکتے جب تک کہ اس کےلئے کوئی ثبوت نہ ہو۔اتنی بڑی پوزیشن پر فائز ایک انسان اگر کچھ کہہ رہا ہے اور وہ بھی اتنی بڑی تنظیم کا سربراہ ہو ۔وہ پوری دنیا سے یہ بات کہہ رہا ہے تو اس کی بات کو مسترد نہیں کرنا چاہیے۔حالات اور ماحول کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہوگا۔ یہ بھی اہم ہوگا کہ ان کی تنظیم کی تاریخ کو بھی مد نظر رکھیں ۔

 سوال : وہ کونسے راستے یا طریقے ہوسکتے ہیں جن پر چل کر ہم ہندو ۔مسلم اتحاد کی منزل کو پا سکتے ہیں؟

جواب:ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ سکتے ہیں کہ ہم اپنے رویہ میں کیا تبدیلی لا سکتے ہیں ۔یہ ہمارا دین بھی سکھاتا ہے اور دستور ہند بھی۔ ان میں کہا گیا ہے کہ بھائی چارہ پیدا کرو ۔اس کے لئے ہر حد تک جاسکتے ہیں۔ اس کو بحال رکنے کے لئے سب کچھ کرو۔

دستو رہند میں شہریوں کے لئے جو بنیادی فرائض ہیں ،ان میں 51اے میں یہی کہا گیا ہپے۔ ہم ایک اچھے شہری ہونے کے ناطہ اور ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے یہ ذمہ داری نبھانی چاہیے۔

 بات صرف اپنے مذہب کے لوگوں کے ساتھ نہیں بلکہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ انسانیت کے ناطے بہت اچھے رشتے اور تعلقات زمینی سطح پر قائم کرنے ہونگے۔اس کے لئے ہمیں ادارہ ساز اقدامات کرتے رہنا چاہیے۔اکثریت کے ساتھ جو پچھڑی برادریوں کے ساتھ بھی تعلقات قائم رکھنے ہونگے۔وہ اس لئے پریشان ہیں ،بس اتنا ہوا کہ انہیں ریزرویشن مل گیا لیکن عزت میں حصہ داری نہیں ملی۔

 جبکہ اسلام کہہ رہا ہے کہ سب برابر ہیں ۔ہمیں اکثریت کے ساتھ تمام پچھڑے ہوئے لوگوں سے تال میل بنانا ہوگا۔ ایسا ہم نہیں کر پارہے ہیں۔بات صرف تعلقات کو استوار ہی نہیں کرنا ہے بلکہ زمینی سطح پر بھائی چارہ کو فروغ دینا ہوگی ۔یہ ہماری ترجیحات میں نہیں ہے ۔اگر ہم نے ایسا کیا تو حالات بہتر ہونے شروع ہونگے۔ 

سوال:کیا موہن بھاگوت کا بیان ملک کےلئے وقت کی ضرورت تھا؟

 جواب:جی بالکل ،جو بھی شخص اس بات کو محسوس کرتا ہے اس پر کوئی ذمہ داری ہے تو وہ یقینا یہ سوچتا ہوگا کہ سب برابر ہیں ۔اگر یہ سب سوچ کر انہوں نے ایسا بیان دیا ہے تو اچھی بات ہے۔ ہمیں اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے ۔آزمانا چاہیے ۔موقع دینا چاہیے۔ ہوسکتا ہے انہوں نے یہ سوچ لیا ہو کہ جو کام آسان ہے اس کے بجائے جو کام صحیح ہے اسے کیا جائے۔ کچھ ذہن میں بات آئی ہو۔ آسان کام کرنا بڑی بات نہیں لیکن صحیح کام کرنا بڑی بات ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔

 سوال: کیا آر ایس ایس اور حکومت کو ایسا کچھ کرنا ہوگا جو مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہوسکے ؟

جواب:جی ! بالکل درست بات ہے۔ انہوں نے جو بات کہی ہے وہ لنچنگ کے پس منظر میں کہی ہیں۔اب تک لنچنگ کے واقعات ہوئے ہیں کھل کر سامنے آرہے ہیں ۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہمارے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر اس پیشکش کو قبول نہ کرنے کی بات کہی جائے۔اس لئے ہمیں یہ بات سوچنی چاہیے کہ ایک انسان کی دوسرے انسان سے ملاقات اتفاقی یا حادثاتی نہیں ہوتی ۔ہرملاقات کا کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔یہ انسانیت کا ایک اصول ہے، اگر اس طرح کا رویہ رکھیں گے تو آگے آسانیاں پیدا ہونگی۔

 انگلش میں کہتے ہیں کہ In the gentle way you can shake the world

اس سلسلے میں ایک شعر بھی ہے کہ ۔۔۔ وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں 

سوال : کیا موہن بھاگوت کا بیان ملک کو ایک نئی راہ دکھا رہا ہے؟

جواب:خدا کرے ایسا ہی ہو۔ بڑی اچھی بات ہے۔ دیکھئے اگر کسی نے کچھ کہا ہے تو اس کو مسترد نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ایک طبقہ کچھ کہہ رہا ہے تو اس کی فکر نہ کریں ہمیں خود کو اوپر اٹھانا ہوگا۔

 اس سلسلے میں یہ بھی کہوں گا کہ انگلش میں کہتے ہیں کہ Don’t be afraid to give up the good go for the great.

اگر آپ کو کوئی چیز اچھی لگ رہی ہے تو آپ ایک زیادہ اچھی چیزکے لئے اسے چھوڑنے کو تیار رہیں۔اس کو اگر ذہن میں رکھا جائے گا تویہ بہت کام کی چیز ہے۔مثبت سوچ بہت کارآمد ہوتی ہے جو کسی کھاد کا کام کرتی ہے ۔اگر ہم مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور مثبت سوچ کا دامن نہ چھوڑیں تو یقینا کامیابی ملے گی۔ 

سوال : موہن بھاگوت کے بیان یا پیشکش پر آخر وہ کون سے مسلم لیڈر ہونگے جنہیں ہم مسلمانوں کا نمائندہ مانیں گے یا جو بڑی تنظیمیں ہیں انہیں آگے آنا ہوگا؟

جواب:آپ ان کے بیان سے بہت زیادہ توقعات لگا رہے ہیں۔ایسا نہیں کہ صرف ایک بیان سے سب مسئلے حل ہونے والے ہیں یا سب کچھ اس کے ارد گرد ہی گھومنے لگا ہے۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ کون لیڈر ہے۔ اس معاملہ میں تو ہر مسلمان کو آگے آنا چاہیے اور اپنے فریضہ کو انجام دینا چاہیے۔

سوال : آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ ہندو مسلم ٹکراو یا دوری کا ایک بڑا سبب سوشل میڈیا بھی ہے ،جس پر ایک طبقہ اسی مقصد کے لئے سرگرم ہے؟

جواب:ایک طبقہ ہے سوشل میڈیا پر جو فرقہ وارانہ اختلافات میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ ایک سیاسی ضرورت کو پورا کرنے کا ذریعہ ہے۔وہ طبقہ بھی دل سے نہیں چاہتا ہے لیکن سیاسی مجبوری ہے۔

 جب میں سول سروسیز کا امتحان دے رہا تھا تو ایک موضوع سامنے آیا تھا کہ ’اقتدار حاصل کرنے کا آرٹ ہے سیاست ۔اس کے لئے جو بھی کرنا پڑتا ہے انسان کرتا رہتا ہے۔

 1991 میں جب سوویت یونین کا شیرازہ بکھ گیا تو اس کے بعد سوال یہ تھا کہ اب سرد جنگ کس کے ساتھ لڑی جائے ؟امریکا میں صدارتی انتخاب میں موضوع کیا رہے گا ؟اس لئے ایک دشمن ڈھونڈنا ہی تھا ،نظر آیا مسلمان تو اس کو نشانہ بنا لیا۔دیگر طاقتوں نے بھی یہی روش اختیار کرلی۔

یہ ضروری نہیں کہ مسلمانوں سے نفرت ہے،یہ سیاسی ضرورت ہے،ایک موضوع ہے۔ اس کا جواب اس انداز یا زبان میں نہیں دیا جائے بلکہ جو ہمیں مذہب سکھاتا ہے اس پر عمل کریں اور محبت سے دل جیتیں ۔

 سوال : موہن بھاگوت کے بیان پر مسلمانوں کے ردعمل سے پہلے سیاستدانوں کے جارحانہ بیانات آگئے تھے ؟

 جواب:مسلمانوں کے لئے ضروری نہیں کہ رد عمل دیں ،پیغام مل گیا ہے ،عمل ہوسکتا ہے۔ سیاست الگ میدان ہے۔

 سوال : کیا یہ بیان تاریخ ساز بن سکتا ہے ؟

جواب: خدا کرے ایسا ہی ہو۔ شاید آپ کو یاد ہو 2014 سے پہلے گاندھی نگرمیں ایک بڑا پروگرام ہوا تھا ،اس وقت نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے۔اس میں مسلمانوں کو بھی بلایا تھا۔ سابق صدر اے پی جے عبدالکلام نے اس کا افتتاح کیا تھا۔اس پروگرام میں مسلمانوں کی جانب سے میں نے نمائندگی کی تھی۔میں نے اس میں نصف گھنٹے کا ایک خاکہ پیش کیا تھا جس میں مسلمانوں کے مسائل پر روشنی ڈالی تھی۔جس کے دوران ہال میں بالکل سناٹا رہا اور جب میں نے اپنا پریزنٹیشن مکمل کیا تو نریندر مودی سمیت پورے ہال نے کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں۔اس کا خیر مقدم کیا۔

میں نے اس پروگرام میں ایک بات کہی تھی کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ ہندوستانی مسلمانوں نے خود کو کسی کا غلام بنا لیا ہے،کسی ایک پارٹی کےساتھ جڑ گئے ہیں۔ آپ مسلمانوں کے بنیادی مسائل کو حل کریں،انہیں اپنی ترجیحات میں شامل کریں ،میں جاوں گا مسلمانوں کے پاس ،آپ کے لئے ووٹ مانگنے کے لئے۔ ،مسلمان آپ کے ساتھ ہوگا۔

 مسلمانوں کو ان کے حقوق واپس ملنے چاہیں ،دستوری حقوق کے ساتھ انہیں پر سکون زندگی گزارنے کا موقع ملنا چاہیے۔اس کے لئے ضروری نہیں کہ مسلمان کسی ایک سیاسی طاقت سے جڑ گئے ہوں۔