شری موہن بھاگوت کا مکالمہ اور شرپسندوں کا اس کو ناکام بنانے کی کوشش

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 10-09-2021
شری موہن بھاگوت
شری موہن بھاگوت

 

 

awaz

 پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

ایک ایسے وقت میں جب کہ آر ایس ایس کے سربراہ شری موہن بھاگوت مسلمانوں سے ڈائیلاگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے سب سے پہلے اپنے دہلی کے دفتر میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر، اب امیرالہند دارالعلوم دیوبند کے گرامی قدر استاد شیخ الہند مولانا حسین احمد مدنی کے فرزند مولانا سید ارشد مدنی سے ملاقات کی، گزشتہ مہینے ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد کی کتاب کی رسم اجراء کرتے ہوئے مسلمانوں سے براہ راست خطاب کیا اور اب 6 تاریخ کو ممبئی میں کیرالہ کے گورنر عارف محمد خاں اور ہندوستانی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل سید حسنین کے ساتھ ایک بار پھر مسلمانوں سے خطاب کیا۔

اس جلسے میں انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے صدر جناب سراج الدین قریشی اور داعی اسلام مولانا کلیم صدیقی بھی موجود تھے۔

ان تینوں موقعوں پر جیسا کہ پتہ چلا ہے کہ آر ایس ایس سربراہ نے خیرسگالی کی باتیں کیں اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر آر ایس ایس سے کہیں غلطی ہوئی ہے تو وہ اس کے سدھار کے لئے تیار ہیں۔

لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ آر ایس ایس کے سربراہ کی ان کوششوں کے ساتھ ہی ساتھ سنگھ سے جڑے ہوئے کچھ لوگ اتحاد و اتفاق کی جگہ اسلام دشمنی، مسلمانوں سے نفرت اور ہر جگہ سے ان کے نام و نشان کو مٹانے کے لئے کوشاں ہیں۔

نفرت کی وہ لہر جس کا آغاز اورنگزیب سے ہوا تھا وہ مہابلی اکبر تک جا پہنچا۔ شہروں کے ناموں کی تبدیلی کا جو سلسلہ الہ آباد سے شروع ہوا وہ اب علی گڑھ تک پہنچ رہا ہے اور افسوس یہ ہے کہ حضرت علیؓ ہندوستان پر کبھی قابض نہیں رہے پھر ان کے نام سے یہ کیسی عداوت ہے؟

ہم افراد ہوں یا شہر، ان کے ناموں کو وقتی طور پر بدل سکتے ہیں لیکن تاریخ کو نہیں بدل سکتے۔

یہ کسی ستم ظریفی ہے کہ ہم اپنی آزادی کا جو ’امرت مہوتسو‘ منانے جا رہے ہیں اس میں جو بینر، پوسٹر اور اشتہار تیار کئے گئے ہیں اس میں سب کے فوٹو ہیں اگر نہیں ہے تو مولانا آزاد کی فوٹو نہیں ہے جب کہ اس حقیقت کو کوئی فراموش نہیں کر سکتا کہ مولانا آزاد 1924 میں کانگریس کے سب سے کم عمر صدر بنائے گئے اور تحریک آزادی کے آخری برسوں میں وہ سب سے لمبی مدت تک انڈین نیشنل کانگریس کے صدر رہے۔

یہ کانگریس وہ کانگریس نہیں جو کہ حکمرانی کرتی رہی بلکہ وہ کانگریس تھی جو تحریک آزادی کے کارواں سالاروں کی انجمن تھی۔

ہم اگر یہ بھول جائیں کہ مولانا آزاد نے کس طرح محمد علی جناح، ان کی فرقہ وارانہ سیاست، تحریک پاکستان اور ہندو مسلم منافرت کے خلاف سینہ سپر ہوکر جنگ لڑی تو اس سے زیادہ افسوس کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔

آپ اگر آزادی کے ’امرت مہوتسو‘ میں ایک مسلمان ہونے کی بِنا پر مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی برداشت نہیں کر سکتے تو پھر اس کی جواب دہی آپ پر ہی عائد ہوتی ہے۔

صرف اتنا ہی نہیں سڑکوں پر ماب لنچنگ ہو یا اسٹیجوں سے مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی، وہ ہندو دھرم کی وشال سناتن پرمپرا اور ہندوستان کی سیکولر جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ جو کچھ کل سڑکوں پر ہو رہا تھا آج وہ آوازیں تعلیمی اداروں اور دانشکدوں میں بھی سنائی دے رہی ہیں۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی جو اپنے قیام سے آج تک اپنی ترقی پسندی، روشن خیالی اور عقلیت پسندی کے لئے ساری دنیا میں جانی جاتی رہی ہے وہاں پر اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے نیا نصاب وضع کیا جا رہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کسی ایک فرقے کا ہتیار نہیں ہے بلکہ جب جب سیاست کے ہاتھوں مذہب کا استحصال ہوا ہے تب تب شری رام کو بن باس ہوا ہے، عیسیؑ کو صلیب پر چڑھایا گیا ہے، امام حسینؓ کو کربلا میں حالت سجدہ میں شہید کیا گیا ہے اور مہاتما گاندھی کو گولی ماری گئی ہے۔

آئرلینڈ میں آئرش ریپبلک آرمی ہو یا سری لنکا میں سنہالی انتہا پسند اور تامل علیحدگی پسند، میانمار (برما) میں بدھسٹ دہشت گردی اور فلسطین میں اسرائیلیوں کی بربریت ان کو کسی مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھا جاتا اور ہم بھی یہاں یہ واضح کر دیں کہ اس کو ہم بھی کسی خاص مذہب کی تعلیمات کا نتیجہ نہیں مانتے بلکہ سراسر غیرمذہبی اور غیرانسانی رویہ تسلیم کرتے ہیں۔

ہمارے مذہبی عقیدے کے مطابق یہ بات بالکل واضح رہنی چاہیے کہ قرآن کے لفظوں میں کسی ایک بے قصور اور معصوم کی جان لینا ساری انسانیت کوہلاک کرنے کے برابر ہے اور کسی ایک بے قصور اور معصوم کو ہلاک ہونے سے بچا لینا ساری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے۔

ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ ہندوستان جو شانتی اور اہنسا کو پرم دھرم مانتا ہو وہ کس طرح سے اپنے یہاں اس طرح کے فکر و عمل کو برداشت کر سکتا ہے اور دنیا میں ہونے والے وحشت و دہشت کے کاروبار کی حمایت کر سکتا ہے؟ دہشت و وحشت کے خلاف سب سے زیادہ فتویٰ اگر کہیں سے مسلمان علماء نے دیے تو وہ ہندوستان کے علماء تھے۔

سب سے زیادہ مذہبی اجتماعات اور بہت بڑے بڑے جلسے جلوس اگر القاعدہ، لشکر طیبہ، جیش محمد، داعش، بوکوہرام اور حزب المجاہدین کے خلاف کہیں منظم کئے گئے تو وہ ہندوستان ہی تھا جہاں حنفی ہوں یا سلفی، شیعہ ہوں یا شافعی، دیوبندی ہوں یا بریلوی سب نے بیک وقت دہشت و وحشت کے خلاف یکساں تحریکیں چلائیں اور آوازیں اٹھائیں۔ اس سب کے باوجود اگر پھر بھی مسلمانوں کو دشمن سمجھا جائے، اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا جائے تو اس سے بڑا جھوٹ کیا ہو سکتا ہے۔

ہمیں تو یہ سب دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شری موہن بھاگوت کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے اور نریندر مودی کی حکومت کو دنیا میں رسوا کرنے کے لئے یہ سب ہو رہا ہے اور اس کو روکنے کے لئے آر ایس ایس کی قیادت اور مودی حکومت کو ہی ضروری اور مؤثر قدم اٹھانے ہوں گے۔

ہمارا کل بھی یہی کہنا تھا اور ہم ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ:

شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے

دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے

نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔