بنگلہ دیش جنگ آزادی کا ہیرو مودی کے دورے کا منتظر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-03-2021
میجر جنرل (ر) امام الزمان
میجر جنرل (ر) امام الزمان

 

 

آشا کھوسہ/ نئی دہلی

بنگلہ دیش فوج کے سابق افسر میجر جنرل (ر) امام الزمان شدت سے وزیر اعظم نریندر مودی کے ڈھاکہ دورے کے منتظر ہیں ۔ وزیر اعظم کے دورے نے ان کے ذہن میں نقش ان یادوں کو تازہ کردیا جب وہ پاک فوج میں بطور لیفٹیننٹ اپنے سینئرز کے ہاتھوں موت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے جس کے بعد انہوں نے اپنے ملک کو آزاد کروانے کے لئے ہندوستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑائی کی ۔

وزیر اعظم مودی کے دو روزہ دورے کے بارے میں زمان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی دوستی بہت مضبوط ہے۔ ان جیسے بہت سارے بنگلہ دیشی مجاہدین آزادی کے جنگی تجربہ سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی وضاحت ہوتی ہے۔ پرانے واقعات کو یاد کرتے ہوئے میجر جنرل زمان اپنی زندگی کا سخت ترین تجربہ یاد کرتے ہیں۔

زمان نے ڈھاکہ سے آواز دی وائس کو فون پر بتایا کہ پاکستانی فوج میں کمیشن ہونے کے ایک سال بعد 23 مارچ 1971 کو جب وہ ایک دن اس کے اعلی نےانہیں ایک کمرے کے اندر لے جا کر کہا کہ ملک میں کچھ پریشانی ہوئی ہے اور شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔

اس نے احکامات پر عمل کیا اور جلد ہی انہیں ان کے ساتھیوں کیپٹن صدیق ، کیپٹن نور الاسلام اور میجر حسیب سمیت ڈھاکہ اور چٹاگانگ کے مابین واقع کامیلا آرمی کیمپ کے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا ۔ یہ کوئی حسن اتفاق نہیں تھا کہ یہ چاروں ہی بنگالی تھے۔ میجر جنرل زمان کہتے ہیں کہ ہمیں صرف بنگالی ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا ۔ فوج میں شامل بنگالی افسران کو پاکستانی افواج کے اعلی افسران شک کی نظر سے دیکھتے تھے کیوں کہ انہیں ان سے بغاوت کا خدشہ تھا۔

زمان نے بتایا کہ ہم چار پانچ دن تک کمرے میں بند رہے۔ 30 مارچ کو آرمی کا ایک افسر کمرے میں داخل ہوا اور گولی چلا دی۔ گولی پیشانی اور بازوؤں میں لگی اور وہ گر گیۓ ۔ اور اسی پوزیشن میں سانس تھام کے پڑے رہے ۔ زمان مزید کہتے ہیں کہ نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی پاکستان ان عظیم جنگی جرائم سے انکاری ہے۔

آدھی رات کو وہ کھڑکی سے کودے اور اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک گاؤں میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگیۓ ۔ زمان کے دیگر تین ساتھی فوت ہو چکے تھے۔ زمان کہتے ہیں کہ گاؤں والوں نے مجھے تین چار دن پناہ دینے کی پیش کش کی اور پھر تجویز دی کہ میں ہندوستانی سرحدی چوکی سے رابطہ کروں کیونکہ ہندوستان بنگالیوں کی مدد کررہا ہے۔

زمان نے بی ایس ایف کی ایک سرحدی چوکی سے رابطہ کیا جہاں کیپٹن آریہ نے ان کا استقبال کیا۔ اسے علاج کے لئے جی بی ہسپتال اگرتلہ منتقل کردیا گیا۔

اسی اثنا میں ان کے جنرل کمانڈنگ آفیسر نے انہیں مکتی باہنی میں شامل ہونے کے لئے کہا تاکہ پاکستانی فوج جس نے بنگالیوں کو مارنے اور خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے کی مہم چلائی ہوئی تھی، کے خلاف مزاحمت کو تیز کیا جا سکے ۔ایک اندازے کے مطابق دو سے تین لاکھ بنگالی پاکستانی حکمران جنرل یحییٰ خان کے حکم پر نسل کشی کے شکار ہوئے ۔

اکتوبر میں ہندوستانی فوج چٹاگانگ میں داخل ہو چکی تھی جہاں انہیں مکتی باہنی کے ممبر کی حیثیت سے تعینات کیا گیا تھا۔ زمان کہتے ہیں کہ میں نے جنرل وی کے سنگھ سے ملاقات کی جو اس وقت وہاں کے ایک جونیئر افسر تھے۔ ہم نے بھارتی فوج کے ساتھ مل کر مقابلہ کیا۔ چٹاگانگ 16 دسمبر کو آزاد ہو گیا ۔ جب میں پاک فوج کی شکست کی خبر آئی تو میں کپیلا میں تھا۔ ہر کوئی خوشی سے نڈھال ہو رہا تھا۔

میجر جنرل زمان کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت آرمی بیرکوں میں موجود پاکستانی جنگی قیدیوں کو دیکھ رہے تھےجو اپنی حفاظت اور وطن واپسی کے لئے پریشان تھے۔ اس کے بعد بنگلہ دیش نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔ بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج کے ذریعے منہدم پلوں کو دوبارہ تعمیر کرنے والے شیخ مجیب الرحمن ایک عظیم رہنما تھے۔ وہ 10 جنوری 1972 کو ڈھاکہ پہنچے ، انہوں نے پاکستانیوں کے ہاتھوں چھوڑی ہوئی ملوں اور کاروباری اداروں کو قومی ملکیت بنا دیا - وہ تمام بنگالیوں کے اتحاد کی علامت تھے۔

زمان کہتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن نے ملک کی ایک مضبوط بنیاد رکھی جبکہ ان کی صاحب زادی شیخ حسینہ نے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لانے کی سعادت حاصل کی ۔ بنگلہ دیش اگلا ایشین ٹائیگر بننے کے لئے تیار ہے کیونکہ اس کی ’معیشت تیز رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔ حال ہی میں ملک کو غریب ملک کے زمرے سے ہٹا کر ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔

زمان، جوکہ ایک ریٹائرڈ آرمی مین کے طور پر زندگی گزرتے ہیں اورجن کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہے، کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ وزیر اعظم کے مشن اور ویژن کی وجہ سے ہوا ہے ۔

وہ سائنسی ذہن کے ساتھ معاملات کو دیکھنے کا سہرا شیخ حسینہ کو دیتے ہیں۔ زمان کا کہنا ہے کہ انہوں نے قوم کو ڈیجیٹلائز کیا ہے جس کے نتیجے میں وسائل کے نظم میں بہتری آئی اور ملک کو بجلی کی شدید قلت سے نجات ملی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے میونسپل کارپوریشنوں اور پنچایتوں کے لئے انتخابات کا آغاز کرکے نچلی سطح پر جمہوریت کو متعارف کیا۔

مودی کے دورے کے حوالے سے میجر جنرل زمان کہتے ہیں کہ بنگلہ دیشیوں کے بھارت کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں او مجھے بحیثیت ایک فوجی یاد ہے کہ ہندوستانی فوج کتنی موثر اور پیشہ ور تھی۔ انہوں نے صرف 13 دن میں جنگ ختم کردی جب کہ ہم کئی مہینوں سے مزاحمت کر رہے تھے۔

بنگلہ دیش کے بیشتر لوگوں کے نزدیک ، ہندوستان بے پناہ وسائل اور بھرپور ثقافت کی سرزمین ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک عام آدمی ہندوستانی گانوں ، موسیقی اور فلموں سے محبت کرتا ہے۔ وہ 26 مارچ سے شروع ہونے والے وزیر اعظم مودی کے ڈھاکہ کے دورے کے دوران دونوں ممالک کے مزید مشترکہ منصوبوں اور مفاہمت ناموں پر دستخط کے منتظر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان گہرے تعلقات کے مخالف عناصر کی موجودگی براے نام ہے اور زیادہ تر لوگ ہندوستان کو ایک عظیم دوست کے طور پر دیکھتے ہیں۔